فلسفۂ مطالعہ /ڈاکٹر مختیار ملغانی

مطالعے کے انتخاب اور طریقے پر جتنا مواد میسر ہے، اس سے نتیجہ یہی نکالا ہے کہ کئی چیزیں سراسر انفرادی ہیں، ہر شخص پہ ہر اصول لاگو نہیں ہو سکتا، مثلاً کچھ ماہرین کے نزدیک ایسی بُری کتب بھی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر آپ کا ہاضمہ خراب ہو سکتا ہے، اب ضروری نہیں کہ ایسی کتاب ہر شخص کے ہاضمے پر ہی اثر کرے، بعض کیلئے بس سردرد کا موجب بن سکتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود کچھ اصول ایسے ضرور ہیں جو ہمیں مطالعے کا فن سکھاتے ہیں۔

اگر قاری سے یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا آپ مطالعہ کرنا جانتے ہیں؟ تو میرے جیسے اکثر دوستوں کا جواب ہوگا کہ ،ہاں میں مطالعہ کر سکتا ہوں کیونکہ میں زبان جانتا ہوں، گرائمر سے واقف ہوں، الفاظ اور جملے کے معانی سمجھ سکتا ہوں وغیرہ۔ لیکن یہ جواب صرف اخبار کی سرخیاں پڑھنے اور سمجھنے تک کارآمد ہے، سنجیدہ کتب کے مطالعے کیلئے یہ سب کچھ کافی نہیں۔

مطالعہ ایک آرٹ ہے جو ریاضت مانگتا ہے، یہ اس لئے کہ مطالعہ شروع کرتے وقت ہم سب سے پہلے اپنے آپ سے ٹکراتے ہیں، خود سے ملتے ہیں، ہمارے تعصبات، پیشگی تصورات اور نظریات ہم پہ حاوی ہوتے ہیں ۔ شعور کو ان تمام تعصبات سے پاک کرنا آسان نہیں ہوتا، ایسے میں کسی دریا کے دھارے کی طرح شعور اسی سمت بہتا چلا جاتا ہے جس سمت کا تعین ہم نے پہلے ہی کر رکھا ہوتا ہے۔ شعور کو ان زنجیروں سے آزاد کرنا سب سے پہلا قدم ہے۔

مطالعہ علامات کو افشا کرتے ہوئے معانی تک پہنچنے کا نام ہے، یہی نہیں، بلکہ معانی کو سمجھنے کے بعد انہیں عملی زندگی میں نافذ کرنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ اصول صرف کتابوں کے مطالعے تک محدود نہیں، واقعہ یہ ہے کہ انسان نے آرٹ کی ایجاد/دریافت کے ساتھ ایک متوازی حقیقت کھڑی کر دی ہے، اور یہ آرٹ علامات کی مدد سے وجود میں آیا، چاہے وہ مصوری ہو، موسیقی، مجسمہ سازی، حتی کہ تن بولی اور اظہارِ خیال کی مہارتیں بھی علامات پر مبنی ہیں، ان علامات کو افشا کرنا ہی وہ فن ہے جس کی مدد سے آپ مہذب اور تعلیم یافتہ کہلوانے کا حق رکھتے ہیں، فن کی ان تمام شکلوں میں تحریر و مطالعہ اہم ترین اور پراثر ہیں۔

انسان کی نفسیاتی نشوونما کیلئے توجہ کا کسی ایک نکتے پر مرکوز کرنا بڑا اہم ہے اور اس فن میں مہارت کا اعلیٰ  ترین ذریعہ کتاب کا مطالعہ ہے، مطالعے کا پہلا مقصد یہی ہونا چاہیئے کہ تمام توجہ کو مرکوز کرنا سیکھا جائے، بالکل ایسے ہی جیسے کسی سیف کا کوڈ کھولتے ہوئے ایک ماہر اردگرد کے شور سے مکمل لاتعلق ہوکر اپنے پورے دماغ کو انگلیوں کے پوروں پر لے آتا ہے۔

اس سے آگے اہم سوال یہ ہے کہ کوئی بھی شخص مطالعہ کیوں کرتا ہے، اس کا مقصد کیا ہے؟ تجسس، دلچسپی، وقت کا گزارنا یا پھر زندگی کی تلخیوں کو وقتی طور پر پس پشت ڈالنا ؟؟ یہ تمام جوابات ایک دو دہائی قبل قابلِ قبول ہوتے، لیکن آج انٹرنیٹ کی بدولت کئی ایسے ذرائع موجود ہیں جن کی مدد سے درج بالا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، مطالعہ علم حاصل کرنے اور شخصیت کی تشکیل کا نام ہے ، آج کتاب کو ان تمام ذرائع پر جو برتری حاصل ہے وہ پلاٹ ہے، کتاب چاہے علمی ہو یا افسانوی، وہ اپنے اندر موضوع کی مکمل تمہید اور منطقی انجام رکھتی ہے، دماغ اور شخصیت کی نمو اور ترقی کیلئے یہی کامل پلاٹ ، یعنی مواد جو تسلسل رکھتا ہو، ناگزیر ہے، کتاب کے علاوہ دوسرے کوئی ایسے ذرائع نہیں جو یہ تسلسل رکھتے ہوں ۔

کچھ کتابیں اپنے حجم یا پھر پیچیدہ زبان کی وجہ سے قاری کو ڈراتی ہیں، کتاب کا حجم اکثر لوگوں کیلئے ایک مسئلہ ہے، ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ زیادہ کتابیں پڑھنے کی خواہش جلد سے جلد کتاب کو مکمل کرنے پہ اکساتی ہے، یہ بھیانک غلطی ہے، مقدار سے اہم معیار ہے، ممکن ہے کہ سو کتابیں آپ کو وہ علم یا لطف نہ دیں جو چار کتابیں دے سکتی ہیں، شرط یہی ہے کہ کتاب صحیح پڑھی گئی ہو اور انتخاب بھی درست ہو، کتاب کے متن کو جسم دینا ضروری ہے، یعنی visualize کرنا، جو آپ پڑھ رہے ہیں وہ دماغ کی سکرین پر نقشے کی صورت، کسی تخیل یا کسی روپ میں، تصویری شکل میں آنا ضروری ہے، اس سے آپ گویا کہ آپ حالات و واقعات کے عینی شاہد ہیں ، اور پھر ہر باب اپنے اندر ایک معنی رکھتا ہے، ایک مرکزی خیال رکھتا ہے، بعض اوقات دو چار ابواب مل کر کسی دوسرے اجتماعی خیال کو بھی پیش کرتے ہیں، جب آپ ہر باب کو اس کے پچھلے باب سے جوڑتے جائیں گے تو معانی واضح ہوں گے ، دلچسپی بڑھے گی اور کتاب دیر تک یاد بھی رہے گی، کیونکہ اس سے آپ کے ذہن پہ متن کی ساخت واضح ہوتی جاتی ہے، ساخت اور ترتیب ہمیشہ مرکزی خیال اور مقالے کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور مطالعے کی کشش بڑھتی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ کتاب پڑھنے کا جو اصل مقصد ذہن و شخصیت کی نمو ہے، وہ بھی اسی صورت ممکن ہے کہ تسلسل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، تجزیہ کرنے کی صلاحیت اور تالیف و ترکیب کیلئے کتاب سے بہتر کچھ بھی ممکن نہیں۔

اگر کتاب مشکل زبان میں ہے، تو یہاں قاری جو سب سے بڑی غلطی کرتا ہے، وہ بار بار ڈکشنری اٹھا کر لفظ کا معنی دیکھتا ہے اور پھر آگے بڑھتا ہے، ایسا چند بار کرنے سے قاری ایموشنلی تھک جاتا ہے، دلچسپی جاتی رہتی ہے اور کتاب پھینک دی جاتی ہے، اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بغیر ڈکشنری کے مطالعہ جاری رکھا جائے، اگرچہ لفظ آپ کو سمجھ نہیں آرہا، لیکن ممکن ہے کہ جملہ اجتماعی طور پر ایک معنی دے رہا ہو، اگر غلط بھی سمجھ لیا تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں، آگے چل کر یہی لفظ دوسری جگہوں پر استعمال ہوگا تو معنی واضح ہوتے جائیں گے، اور ایسے معنی ڈکشنری کی نسبت زیادہ دیرپا ہوتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے بچہ شروع میں کوئی کتاب پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ جملوں ہی سے لفظ کے معانی سمجھتا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ جو زبان قاری جانتا ہے، اس کا ہر لفظ اس نے ڈکشنری سے سیکھا ہوتا ہے، چند ہی ایسے الفاظ ہوں گے جو ڈکشنری سے دیکھے گئے، الفاظ کی بھاری اکثریت کے معانی ہم جملوں میں پڑھتے یا سنتے ہوئے سیکھتے آئے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اگر کتاب اکیڈمک ہے تو مشکل الفاظ کی بھرمار ہو سکتی ہے، ایسے میں ڈکشنری کی مدد لی جا سکتی ہے، لیکن وہ بھی صرف اس حد تک کہ مطالعے کے تسلسل پر زیادہ اثر انداز نہ ہو، اکیڈمک کتابوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنی آئیڈیالوجی آپ کے دماغ میں بھرتی ہیں، تعصب یہیں سے جنم لیتا ہے، اس کا ایک حل یہ ہے کہ ایسی کتاب یا اس کے کسی باب کے بنیادی مقالے کو اپنے الفاظ میں کاغذ پہ لکھ لیا جائے اور پھر اس کی جرح کی جائے، سوال کیا جائے، تنقید اٹھائی جائے، اس سے جہاں آپ کو کتاب کے متن کو سمجھنے میں مدد ملے گی، وہیں ہر سطحی مواد دماغ میں نفوذ نہ کر پائے گا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply