• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پشاور ہائیکورٹ ، الیکشن کمیشن اور جاوید چوہدری کا مشورہ/گل بخشالوی

پشاور ہائیکورٹ ، الیکشن کمیشن اور جاوید چوہدری کا مشورہ/گل بخشالوی

پشاور ہائیکورٹ کے تحریری فیصلے میں تحریک انصاف کے بلے کے انتخابی نشان کو بحال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ 22 ، دسمبر کو تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔ حصول انصاف کے لئے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کیا ۔ مختصر فیصلے کے بعد منگل کی رات کو ہائیکورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت (جو کہ نو جنوری کو ہو گی) تک تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔عدالت کا کہنا ہے کہ موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد نو جنوری سے اس کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کا ڈویژنل بینچ کرے گا۔ جسٹس کامران حیات میاں خیل کے اس فیصلے سے الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بھی نہیں جا سکتا ۔
۔تحریری حکم نا مے کے مطابق فریقین کے دلائل سننے کے بعد پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے لکھا ہے کہ عدالت ملک میں عام انتخابات کا انعقاد 8 فروری کو ہونا ہے جبکہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کی آخری تاریخ 13 جنوری ہے ایک جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ہے اس لئے وہ لوگ جو اس جماعت کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں ان کا حق متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل کے قومی مفاد میں تا ریخی فیصلے سے جانبدارالیکشن کمیشن نے ہر محا ذ پر شکست کے بعد تحریک ِ انصاف کے امیدواروں کو نااہل کرنے کا سلسلہ شروع کر دایاہے
سپریم کورٹ کے قائم مقام جسٹس اطہر من اللّٰہ کے سائفر کیس فیصلے کے بعد اضافی نوٹ سے قومی سیا ست میں نظام عدل کا رخ موڑ دیا گیا ہے
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ میں لکھاکہ عام انتخابات 2018 کی مثال موجود ہے جب ایک وزیراعظم کو نااہل کر کے اس سے لیول پلیئنگ فیلڈ چھینی گئی، ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور اس کا جنازہ بھی پڑھنے نہیں دیا گیا، ملک کی آدھی زندگی کو جبری طور پر آمر کی حکومت میں رکھا گیا لیکن کسی کو سزا بھی نہ ہوئی، منتخب نمائندوں کو سیاسی اختلاف پر نشانہ بنانے کی تاریخ ماضی کی کتابوں سے نہیں نکالی جاسکتی
الیکشن کمیشن کے لاڈلوں نے سوچا تھا کہ تحریک ِ انصاف سے انتخابی نشان چھین کر انہیں آزاد امیدوار کے طور پر ا لیکشن لڑنے پر مجبور کریں گے اورالیکشن کے بعد چھانگا مانگا کی سیاست میں لوٹا بازار کھول کر ضمیروں کی سوداگری میں تحریکِ انصاف سے حکمرانی کا حق چھین لیں گے ۔ لیکن آج وہ جان گئے ہیں کہ وہ ایک پاکستان دوست کپتان سے ہر محاز پر شکست کھا گئے ہیں البتہ درباری صحافیوں نے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا اگر یقین نہ آئے تو جاوید چوہدری کا 20، ,دسمبر کا کالم بعنوان ( یہ شادی ہو لینے دیں ) پڑھ کر اندازاہ کر لیں کہ ایک قلم کار خواہشات کی غلامی میں کس حد تک گر سکتا ہے ۔
جاوید چوہدری نے ، جنرل ضیاالحق ، شیخ مجیب الرحمان ، ذوالفقار علی بھٹو ، آصف علی زرداری جیسے کرداروں کے حوالے سے اپنے آقاﺅں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عمران خان سے نجات کا واحد حل شیخ مجیب الرحمان کی طرح اسے خاندان کے ساتھ قتل کرنا ہے ،، لکھتے ہیں آج عمران خان،2018 , سے بھی کئی گنا بڑا دیو بن چکے ہیں ، سیاسی جماعتیں اور طاقتوں کے ماخذ ایک ہو کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں ، عمران خان اس وقت جیل میں بھی وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہیں ، اگر ملک میں شفاف انتخابات ہوئے تو کپتان دوتہائی اکثریت لے جائے گا اور اس کے بعد یہ اپنے مخالفین کو سڑکوں اور گلیوں میں سر عام پھانسیاں دے گا اور اس وقت تک دیتا رہے گا جب تک یہ شیخ مجیب الرحمان جیسے انجام تک نہیں پہنچ جاتا ، مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت تک پاکستان رہ پائے گا ، میرا خیال ہے ملک اس وقت تک نہیں رہے گا!
اب ہم پاکستانیوں نے سوچنا ہے کہ یہود کے نظریاتی اور خاندانی غلام طبقے سے اپنے پاکستان کو بچانے کے لئے کیا کرناہے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply