آج ہم ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب کی لکھی ہوئی کتاب”تحریک تجدد اور متجدیدین”کے حوالے سے اپنا حاصلِ مطالعہ قرطاس کے حوالے کرنے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کی شخصیت سے معاصر اہل مطالعہ حضرات غالبا واقف ہیں۔آپ جامعہ رحمانیہ سے فارغ التحصیل اور “عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند رکھتے ہیں۔طویل عرصے سے درس و تدریس ،تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں۔آپکی لکھی ہوئی کئی کتابیں مقبولِ خاص و عام ہیں۔سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم سے قرآن و سنت کی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں کوشاں رہتے ہیں۔زیر نظر کتاب بھی آپکے مقبول عام کتابوں میں سے ایک ہے۔یہ کتاب اپنی موضوع کے حوالے سے منفرد اور انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔دنیا کے مختلف نظریات کے حامل ،متنوع جہت و افکار کے حامل شخصیات کے بارہ تفصیلی نہ سہی اجمالی طور پر یکجا پڑھنے کو ملنا علم و دانش کے جویاوں کےلیے غنیمت ہے۔اور مصنف کی محنت و مشقت کا صلہ ہے۔یہ کتاب147صفحات ، اک مقدمہ اور چہار ابواب پر مشتمل ہے۔مقدمے میں “مجدد”اور “متجدد”کے لغوی و اصطلاحی معانی و مفہوم کی تبیین و تحدید کی ہے۔اور یہ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے پہلے ہر مصنف کی زمہ داری ہے۔کہ اس موضوع سے مربوط اصطلاحات کی معنی و مفہوم کو متعین کریں۔تاکہ آنے والے بحوث میں قاری ان اصطلاحات کو اسی پس منظر میں سمجھے۔
کیا آپ “مجدد”اور “متجدد”کے اصطلاحات اور انکے معنی و مفہوم سے واقف ہیں؟اگر نہیں تو آئیے ہم ڈاکٹر صاحب کی کتاب سے سیکھتے ہیں۔
مُجدد باب تفعیل سے اسم فاعل ہے اور متجدد باب تفعل سے ۔اردو لڑیچر میں “تجدد” اک منفی اور “تجدید” ایک مثبت اصطلاح کے طور پر معروف ہے۔
مجدد کی تعریف میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں؛”مجدد دین اسلام کی اصل تعلیمات پر پڑ جانے والے پردوں اور حجابات کو اٹھاتا ہے اور دین کا حقیقی تصور واضح کرتا ہے۔اور اسی فعل کا نام تجدید ہے”۔
اور “تجدد”اس فعل کا نام ہے۔ جس میں پہلے سے موجود چیز غائب ہوجاے اور اسکی جگہ نیا چیز آجاے۔اور اسکے کرنے والے کو متجدد کہتے ہیں۔
مصنف نے منہج بحث کو تحقیقی نہیں بلکہ حاصل مطالعہ قرار دیا ہے۔اور یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ اس کتاب میں صرف پچھلی ڈیڑھ صدی میں تجدد پسندی کی اس تحریک کے دین پر ڈالے گئے حجابات کا جائزہ لیا ہے۔اور دائرہ بحث مصر ،ترکی ،برصغیر پاک و ہند کے متجدیدین تک محدود کیا ہے۔
باب دوم “مصر میں جدیدیت کی تحریک”کے عنوان سے تین حصوں میں تقسیم کی ہے۔
1۔مصلحین امت
2۔ادباء و شعراء
3۔شیخین:یوسف قرضاوی و وہبتہ الزحیلی
اور ہم بھی کتاب کے نہج پر ترتیب وار ان مجددین و متجدیدین کا ذکر کرتے ہیں۔
سید جمال الدین افغانی
یادش بخیر اسکول کے زمانے میں ہم جمال الدین افغانی کے نام نامی سے واقف ہوئے تھے۔مخصوص وضع و قطع ،شکل و شمائل کے حامل اک تصویر جو کتاب میں تھی۔زہن میں منقش رہی۔مرور زمانہ کے ساتھ آج سے کوئی 7 سال قبل سید جواد نقوی کی زیر ادارت شائع ہونے والی رسالہ “مشرب ناب” میں قدرے تفصیل سے انکی اصلاحی و دعوتی کاموں “عروة الوثقی”کے بارے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔تب سے ہنوز مطالعے کا سلسلہ جاری ہے۔خدا کرے کہ یہ سلسلہ تادم مرگ برقرار رہے۔
سید جمال الدین افغانی 1838ءمیں پیدا ہوے اور 9مارچ1897ءمیں انکی وفات ہوئی۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:کہ ان کی نسبت تذکرہ نگاروں کا شدید اختلاف ہے ۔رومی ،استنبولی،اسدآبادی ،افغانی ،طوسی جیسی نسبتوں سے منسوب کیا گیا ہے۔کیونکہ جمال الدین افغانی جہاں بھی جاتے تھے وہاں کی وضع و قطع اختیار کرتے تھے۔اس لیے انکی نسبت میں شدید اختلاف ہوئی ہے۔
اسی طرح انکے مسلک کے بارے میں بھی اختلاف محقیق کے درمیان اختلاف ہیں۔ بعض انکو شیعہ اور بعض انکو سنی حنفی قرار دیتے ہیں۔یہاں تک بعض ان کو کافر و زندیق بھی۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں؛کہ انکی تقاریر و تحاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی دعوت درجہ زیل چار نکات کے گرد گھومتی تھی۔
“١۔اسلامی ممالک پر مغربی تسلط و غلبے پر تنقید
٢۔مسلمان ممالک کے باہمی اتحاد و اتفاق
٣۔مسلمانوں میں جدید مغربی سائنسی علوم کے حصول کی رغبت پیدا کرنا
۴۔اک ایسے ادارے کے قیام کی کوشش جو اسلام کو اک مضبوط طاقت بنا دے۔”
سید جمال الدین افغانی کے افکار و نظریات
نبوت کو کسبی چیز قرار دیتے تھے۔
عالم کے قدیم اور محرک اول ہونے کے قائل تھے۔
نظریہ وحدت الوجود کے قائل تھے۔
شروع میں خلوت کے ذریعے حقیقت کا ادراک کرنے کی کوشش اور آخر العمر فلسفہ و عقل کے طرف زیادہ مائل ہوگئے تھے۔
جانوروں میں “نظریہ ارتقاء”
“Theory of evolution”کے
قائل تھے۔
قرآن کی سائنسی تعبیر و تشریح کی طرف رجحان رکھتے تھے۔
الغرض خلاصہ کلام۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں؛کہ مجموعی طور پر جمال الدین افغانی مسلمانوں کی سیاسی اصلاح و فلاح کےلیے اک مصلح کے طور پر کام کرتے رہے لیکن انکے افکار میں فساد و بگاڑ بھی تھے لذا ان کو طعنہ و تشنیع کرنے کے بجاے انکی بدعتی نظریات کا علمی محاکمہ اور انکی اچھائیوں کی تحسین کرنا چاہیے ۔۔
مفتی محمد عبدہ
ان کا مکمل نام محمد بن عبدہ بن حسن بن خیراللہ ہے۔1849ء میں پیدا ہوئے ۔محلے کی مسجد میں صرف و نحو کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔17سال کی عمر شادی ہوئی ۔شادی کے بعد انکے والد نے اک قدیم مدرسے میں داخلہ کروایا۔لیکن مفتی عبدہ مدارس کے قدیم طرز تدریس ،نصاب سے بے حد درجہ متنفر تھے۔
1287ھ میں سید جمال الدین افغانی کی قاہرہ آمد پر ان سے ریاضی،فلسفہ ،کلام کی تعلیم حاصل کی۔اور انکی طرز تدریس و افکار کے اس قدر شیفتہ ہوگئے کہ انہی کے ہو کر رہ گئے۔
1866ء میں عالم اسلام کے قدیم دینی درس گاہ جامعة الازہر سے منسلک ہوگئے۔اور1877ء میں شہادة العالمیہ کا امتحان پاس کیا۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں؛کہ ان پر تصوف و عبادات و مجاہدہ کا غلبہ رہا۔وہ ساری ساری رات عبادات میں مشغول رہتے تھے۔ ان کو جذب و کیف کی اس حالت سے انکے استاذ جمال الدین افغانی نے باہر نکال لائے۔
احمد پاشا اعرابی کے انقلاب میں اپنے استاذ جمال الدین افغانی کے ساتھ شریک رہے۔اور اس تحریک کی ناکامی پر جیل بھیج دیا گیا ۔1884ء میں اپنے استاذ کی دعوت پر پیرس تشریف لے گئے۔اور العروة الوثقی “کے نام سے عربی رسالہ جاری کیا۔بعد میں بیروت واپس آکر اسی نام سے خفیہ تحریک شروع کی۔
انہوں نے متعدد موضوعات پر خامہ فرسائی کی۔انکی کتابیں عالم اسلام سمیت دیگر مذاھب میں بھی معروف ہیں۔ انہوں نے امام علی علیہ السلام کی کلمات قصار و خطبات کے مجموعہ “نہج البلاغہ “کی شرح لکھی۔بدیع الزمان ہمدانی کی “مقامات”کی شرح لکھی ۔منطق میں”شرح البصائر النصیریة”کے نام سے کتاب لکھی۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ؛کہ انکی کتاب “رسالہ التوحید”کے چند مباحث کو حذف کرنے کے بعد بعض عیسائیوں نے اپنے اداروں میں بطور نصاب مقرر کیا ہوا ہے۔
تفسیر قرآن میں انکی شہرہ آفاق تفسیر قرآن”المنار”پانچ جلدوں میں جس سے بعد میں انکے شاگرد رشید رضا نے مکمل کرنے کرنے کی کوشش کی۔
مفتی عبدہ کے افکار و نظریات
تقلید کے مخالف ،روشن خیال،سلف صالحین کے منہج پر بذات خود دین کو سمجھنے کے قائل تھے ۔
عقل و نقل میں تعارض ہوجاے تو عقل کو ترجیح دیتے تھے۔
وطنیت کے شدت سے قائل تھے۔
عورت کےلیے اپنے چہرے کو چھپانا شرعا واجب نہیں سمجھتے تھے۔اور اس کو اہل عرب کے رواج سمجھتے تھے۔

تعدد ازواج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور کی ضرورت سمجھتے تھے اور عصر حاضر میں اس کی ممانعت کے قائل تھے ۔
ستر و حجاب کے رعایت کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو جائز سمجھتے تھے۔
وحدتِ ادیان کے قائل تھے۔
قرآن کی تفسیر ،عقلی منہج پر کرنے کی کوشش تھے ۔مثلا؛سورہ آل عمران کی آیت نمبر 55کےذیل میں نزول عیسی علیہ السلام کا انکار کیا ہے ۔یعنی نزول عیسی سے مراد انکی حقیقی تعلیمات کا غلبہ مراد لی ہے۔
خلاصہ کلام کے طور پر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں؛کہ انکی نیت اور خلوص پر کوئی شک نہیں ۔مگر ان پر عقلیت “rationalism”اور اعتزال کا حد درجہ غلبہ ہے ۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں