پاکستان کے سینئر ترین سیاستدان شاہ محمود کو پولیس نے دھکے دیئے۔ گھیسٹا اور زبردستی ایک بکتر بند گاڑی میں دبوچ کرڈالا۔واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو دنیا بھر میں پاکستان کی ایک بار پھر جگ ہنسائی ہوئی۔ شاہ محمود اس ملک کے دوبار وزیرخارجہ رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی وزیر رہے۔ ایک باوقار اور شریف النفس سیاستدان ہیں۔ ان کے دامن پر کرپشن اور داداگیری کا کوئی داغ نہیں۔ جاگیر دار اور پیر خاندان سے تعلق ہے۔ باپ دادا انگریزوں کے زمانے سے سرکار میں ہیں۔ دھائیوں تک پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ رہے۔
جھوٹے اور مکرو مقدمات میں انہیں انتقام کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ ان کی سرعام تذلیل کی گئی۔ قصور ان کا صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں۔ اسد عمر، فوائد چودھری، تنویر الیاس اور پرویز خٹک کی طرح بے وفائی اور بدعہدی کرکے اپنے لیڈر عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے بجائے وہ اپنی پارٹی کے ساتھ استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔
عمران خان کے برعکس وہ نرم لب ولہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ مناسب الفاظ کا چناؤ کرتے ییں۔ پاکستان کے مفادات کے حوالے سے بھی ان کی سوچ اور فکر بہت واضح رہی ہے۔ کشمیر پر ان کے ساتھ کئی ایک نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ پانچ اگست ۲۰۱۹ کے بعد اگرچہ جنرل باجوہ کی سوچ تھی کہ ’’مٹی پاؤ‘‘ اور آگے بڑو۔ یہ شاہ محمود قریشی ہی تھے جنہوں نے وزارت خارجہ کے ذریعے جنرل باجوہ کے کشمیر پر بغیر کسی سودے باری کے’’ غیر مشروط سرینڈر‘‘ کو ناکام بنایا۔
ریمنڈ ڈٰیوس کے مسئلہ پر انہوں نے وزیر خارجہ کے منصب سے استعفے دے دیا حالانکہ ساری کہانی اب طشت ازبام ہوچکی ہے کہ ریمنڈیوس کو رہاکرانے اور دیت کا معاہدہ کرانے والے کون تھے۔
آج شاہ محمود قریشی کی تعریف یا ان کی خدمات کا محض بیان مقصود نہیں۔ شاہ محمود کے ساتھ جو ہواسو ہوا۔ جنہوں نے کیا وہ دوتین سال بعد اس کے نتائج بھگتیں گے۔ آج کی دنیا میں نیکی اور بری کا بدلہ اب عشروں بعد نہیں بلکہ چند برسوں میں سود سمیت واپس مل جاتاہے۔ پرویز مشرف نے ظلم ڈھائے اور آخری وقت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی۔ جنرل ضیا الحق نے ظلم کا کوڑا لہرایا۔ ان کا جنازہ اودلا تک کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ اللہ کے ہاں دیر ہوتی ہے اندھیر نہیں۔

عرض صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ اگر پولیس شاہ محمود قریشی کے قد کاتھ کی شخصیت کو اس طرح سرعام رسوا کرسکتی ہے تو وہ عام شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوگی۔ تصور کیجئے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں پولیس نے جس طرح سیاستدانوں کے گھروں پر چھاپے مارے۔ عورتوں اور بچوں کوہراساں کیا۔ بلوچ مظاہرین پر آدھی رات کو تشدد کیا۔ اس نے جنرل ٹکا خان کی یاد دلادی جسے بنگالی آج جنرل ٹوکا خان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
دو دن قبل قائداعظم کی برسی پر سوچ رہاتھا کہ کیا انہوں نے الگ ملک بنانے کے لیے اپنی صحت اور جان تک محض اس لیے داؤ پر لگائی تھی کہ پولیس کو شہریوں کو جوتے مارنے، بزرگوں، بچوں اور عورتوں تک کی تمیز کیے بغیر ان پر تشدد کرنے کی آزادی ملے۔
مولانا ابوالکلام آزاد، عبدالغفارخان اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ کہتے رہے کہ آزادی کے بعد اس ملک پر جاگیردار قابض مسلط ہوجائیں گے۔ عام شہریوں کی کوئی اوقات نہ ہوگی لیکن ہندوستان کے کرڑوں مسلمانوں نے ان کی سنی ان سنی کردی۔ آزاد، باوقار اور خوشحال پاکستان کا خواب سجائے قائداعظم کے دوش بدوش جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے حکمران قائداعظم کو غلط اور مولانا ابوالکلام آزاد کو درست ثابت کرنے کا قسم کھا چکے ہیں۔
پاکستان اب چند سالوں بعد اسی برس کا ہونے والا ہے۔ لیکن اس کے حکمرانوں کے لچھن محمد شاہ رنگیلا سے بھی بدتر ہیں۔ ہر روز ایک نئی حماقت ہمارا استقبال کرتی ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ضروررونما ہوتاہے جو ہر غیرمند اور ذی ہوش پاکستانیوں کو شرمندہ کرتاہے۔ شک گزرتاہے کہ ہمارا ڈی این اے آزادی جیسی نعمت سنبھالنے کے لائق ہی نہیں ۔ہمارے حکمران طبقہ کی تربیت سامراجی ریکروٹ کے طور پر ہوئی ہے۔ اسی لیے اس کی طاقت کا انحصار دلیل، صلہ رحمی کے بجائے مارڈھار اور دھونس دھاندلی پرہے۔
کہتےہیں کہ ڈھییٹ سے ڈھیٹ شخض بھی چالیس برس کی عمر میں بالغ ہوجاتاہے لیکن ہمارا حال ہر روز پہلے سے برا ہوتا جاتاہے۔ عیسائیوں کے چرچوں پر حملےہم کرتے ہیں۔ احمدیوں کی عبادت گائیں کو مسمار کر کے داد وتحسین سمیٹے ہیں۔ قریبوں، بے بسوں اور مظلوموں پر آگ کے کوڑے برستاتے ہیں اور اللہ سے رحمت کی امید باندھتے ہیں۔ تین کروڑ بچے ہمارے سکول نہیں جاتے لیکن ترانے ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے گاتے ہیں۔ اور ہمارے حکمران امریکہ، آسٹریلیا اور بلجیم میں جزیرے خریدتے ہیں اور ملک کا بال بال قرض میں ڈوبا ہواہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہماری عسکری اسٹبشلمنٹ غصہ تھوک دے۔ یہ جان لے کہ انتقام، جبر اور ظلم کے ذریعے کبھی پاکستان میں سیاسی استحکام نہ آسکے گا۔ نفرت اور عداوت کی موجودہ آندھی ساری فضل برباد کردے گی۔یاد رہے کہ تشدد ہمیشہ جوابی تشدد کو جنم دیتاہے۔ سیاسی عمل کی راہ روکی جائے گی تو لوگ زیرزمین سرگرمیوں کی طرف مائل ہوں گے۔ بلیٹ کے بجائے بلٹ کا راستہ اختیار کریں گے۔
عالم یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی آپ الیکشن کےنتائج کا اعلان کرچکے ہیں تو لوگ بے مقصد سیاسی عمل کا حصہ کیوں بنیں! ہر کوئی نوازشریف کی طرح اقتدرا پر قبضے کا چور دروازہ تلاش کیون نہ کرے۔ تبدیلی کا پرامن راستہ ترک کرکے لوگ متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے۔جیسے ایران میں عوامی طاقت سے رضا شاہ پہلوی کا تحت گرایاگیا اورتاج اچھالا گیا۔ شہنشاہ ایران کے امریکی ساختہ ہیلی کاپٹر، توپیں اور ٹینک عوامی سیالاب کے آگے بہہ گئے۔ اس کے کام کچھ نہ آیا، بے نَیل و مُرام مصر میں پیوند خاک ہوا۔
پاکستان کا سیاسی لیڈر ہو یا عام شہری سب موجودہ مسلط کردہ نظام سے سخت مایوس اور بیزار ہیں۔ الیکشن اور ووٹ بے وقعت ہوچکا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے اتحاد کیا۔ مئیر جماعت اسلامی کا آسانی کے ساتھ منتخب ہوجاتالیکن زرو آور قوتوں نے پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کو غائب کرکے ’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ کی ایک اور درخشاں مثال قائم کی۔
اگر پاکستان پر دھائیوں سے مسلط اشرافیہ نے اپنا طرزعمل نہ بدلا۔ تو پھر یہ قائداعظم یا علامہ اقبال کا پاکستان نہیں رہے گی بلکہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کا پاکستان بن جائے گا۔ یا پھر ایران کی طرز کا کوئی انقلاب اس ملک کا مقدر ہوگا۔ ہم سب ناکام و نامرادہوں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں