عرفان شہود کی پنجیری اور 11 نکات/تبصرہ : مسلم انصاری

جو گیارہ اہم اور منفرد چیزیں میں نے اس کتاب سے اخذ کی ہیں انہیں بنا کسی تمہید کے یہاں ذکر کردینا سب سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ باقی کتب بین فرد خود سمجھ لے گا کہ “پنجیری” با معنی کیوں کر ہے!

1) کیا آپ سائبیریا کا روڈ آف بونز جانتے ہیں؟ انسانی لاشوں اور ہڈیوں کے اوپر تعمیر شدہ ایک ایسی شاہراہ جسے روڈ آف بونز کہتے ہیں! یا کیا آپ بحری جہازوں کے گورستان کی معلومات رکھتے ہیں؟ یعنی دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ اور اس کے اطراف میں موجود زندگی کی بستیاں! اچھا کیا بلوچستان میں موجود شنکر دیوتا کی آنکھ سے واقف ہیں؟ یعنی وہ دہانہ جسے بحیرہ عرب کا نام دیا گیا ہے! کیا آپ واقف ہیں ایک ایسے قبرستان سے جس میں چودھویں صدی سے لیکر سترہویں صدی کے حکمرانوں اور سپاہیوں کی قبروں سمیت دس کلو میٹر کے رقبے پر پھیلی دس لاکھ سے زائد قبروں کا عالمی ورثہ ہے؟ یعنی ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان!
عرفان شہود کی کتاب میں کچھ ایسی معلومات ہیں جو قطعی طور پر پہلے آپ نہیں جانتے ہونگے، بشمول جین مت کے فرقے اور مشہور جگہوں کے ناموں کے پس پردہ حقائق !

2) چھوٹی چھوٹی عبارتیں اور تشبیہات اس قدر یکسوئی طلب، عمیق مشاہدے اور حقائق کے قریب ہیں کہ آپ ان سطور کو محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتے
جیسے :
ہماری خوشیاں بھی کیلوں والے بکس میں دھری ہوتی ہیں جن کو ڈھونڈنا چاہیں تو ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں (ص:54)
یہاں خوب برف پڑتی ہے اور “درجہ حرارت کسی بے مروت انسان سے بھی زیادہ نیچے تک گر جاتا ہے” (ص:38)
آسائشوں کے نام پر آرزؤں کے سوا کچھ بھی نہیں (ص:20)
اُس کے آنسوؤں کے سجدے قبولیت کی پیشانی پر محراب نہ بنا سکے! (ص:126)
دور کہیں نوشکی میں کچھ بلوچ عورتیں پلاسٹک کے نیلے کین اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں تھیں “انہیں خوابوں میں بھی ڈول، رسی اور کنوئیں نظر آتے ہیں”
(ص:15)
“اپنی بیٹیوں کے بڑھتے قد دیکھ کر وہ رات کو پورے قد کے ساتھ بستر پر سوتا تھا لیکن ہر صبح اس کا قد گھٹ کر آدھا رہ جاتا تھا (ص:146) وغیرہ

3) سفرنامے بیان کرتے ہوئے بر موقع بر محل ٹھیک کہانی کا پلاٹ سوچی سمجھی چال کے مطابق رکھ دینا، جیسے ماہی بلوچ کا خاکہ، بلوچستان کے باب میں، اور تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان لہور کی پہلی ایسی پینٹنگ آرٹسٹ کا تاریخی خاکہ جسے ہندوستان کی فریدا کاہلو مانا گیا یعنی امرتا شیر گل! ان دونوں حقیقی کرداروں کا قریب قریب ایک جہت میں زندگی کا سفر، اداس کردینے والا اختتام اور کچھ دیر کی چپی، پورے وجود پر طاری کردینے والا بیانیہ!

4) روز مرہ کی چیزوں کا حال احوال ایک تخلیقی اور جانچ پڑتال والی آنکھ سے محسوس کرنے کے بعد اسے لفاظی دینا، جیسے یہ پیرا گراف : “سینما کی کھڑکی میں ٹکٹ بیچنے والا صرف ہاتھوں سے بات کرتا ہے، وہ انتہائی رش میں بھی آواز سے طلب گاروں کا اندازہ لگاکر ٹکٹ تھما دیتا ہے، اسے علم ہے کتنی ٹکٹس کس ہاتھ کو دینی ہیں، وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے تکلف سے آزاد ہے!”
اس جیسے با ذائقہ پیراگراف “پنجیری” میں اپنے نام کی طرح بھرے پڑے ہیں (آخری اقتباس دیکھیں)

5) ان سفر ناموں کے بعد یقینی طور پر آپ اپنے اردگرد ہی موجود ان مقامات کے سفر کی خواہش خود میں محسوس کریں گے، اور یہ کسی بھی سفر نامے کی اتم حجت کامیابی ہے خاص کر جب وہ جگہیں آپ کے اردگرد ہی ہوں اور آپ پڑھنے کے بعد واقف ہوجائیں! اور خود شہود بھائی لکھتے ہیں “سینہ خراشی کا علاج سفر کے سوا کیا ہے!” ص:124

6) ایسے کرداروں کا بیان جن کی عیش و عشرت کی مثالیں اب بھی موجود ہیں مگر شکلیں الگ الگ ہیں، جیسے نواب آف دیر اور اس کا سرخ محل! ایک ایسا نواب جسے پاک فوج کے ہیلی کاپٹر میں سوار کیا گیا اور لاہور لایا گیا اور جس کی لاش سواریوں والی ویگن پر لائی گئی
(تاریخ معاف نہیں کرتی)

7) حوالات کی نشاندہی آخری صفحے پر!
عام طور پر بہت نامور سفر نامے لکھنے والے بھی اپنے مضامین و کتب میں حوالہ دینے کے بجائے اسے ایسے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی ذاتی معلومات ہوں اور ان ہی نے اس کی کھوج کی ہو! مذکورہ کتاب میں بظاہر اس چھوٹی مگر حقیقت میں بڑی اہم خوبی یہ بھی ہے! حالانکہ میں حیران ہوں اتنا کچھ فقط 150 صفحات کی کتاب میں معہ اپنے مآخوذات کے کیسے سمٹ آیا ہے!
مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ درست تاریخ اور مستند حوالہ جات!

8) مصنف نے چاروں صوبوں کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے لکھے سے پنجاب کی محبت نہیں جانے دی! فقط پنجاب سے محبت ہی نہیں بلکہ اس کے لوک مناظر بھی بخوبی ادا کئے ہیں، پنجاب کے ایسے موسم و احوال جن سے اس دور میں شہروں میں پلنے اور بڑے ہونے والے بچے خام خام واقف ہیں!

9) اس کتاب کا میرے نزدیک سب سے وزنی خاکہ اور افسانہ “نیلی روشنی” جسے پڑھنے کے بعد آپ کہیں گے “عین اس سے ملتے جلتے ایک نا ایک کردار سے میں واقف ہوں!” (پڑھ کر دیکھ لیں آزمائش شرط ہے)

10) موزوں مقامات پر نثر کے ہمراہ چند ایک پائے کی نظمیں، جو اس مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتی ہیں جہاں وہ ذکر ہیں جیسے صفحہ 75 اور 76

11) کتاب پڑھتے ہوئے سب سے زیادہ مشکل یہ طے کرنا ہے کہ یہ سفر نامے ہیں یا خاکے، منظر نامے ہیں یا تاریخی حوالے یا پھر افسانے ! اسی لئے کتاب کے سرورق پر جلی حروف سے ایک لفظ ذکر ہے “سفرانچے” ادبی طور پر یہ اختراع عرفان شہود کی اپنی ہے مگر مزے دار بات یہ ہے کہ اسے قبول کرلیا گیا ہے اور عرفان شہود کی پہلی سفرانچوں پر مبنی کتاب “باونی” کو نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور ان کی دوسری کتاب جو نظموں پر مبنی تھی یعنی “بے سمتی کے دن” پر 2022 میں یو بی ایل لٹریری ایوارڈ دیا گیا
اس لئے شہود کی اختراع سفرانچے کے نام سے اپنی سند رکھتی ہے

مذکورہ نکات من و عن میں نے کتاب سے لئے ہیں اگر ایسا نہ ہوا تو میں آپ کی خریدی گئی کتاب کی رقم اپنی جیب سے ادا کرونگا
اب کتاب سے ایک دو اقتباس پڑھتے ہیں

پہلا اقتباس :
“مجھے میرے پیش رو حضرت مجید امجد یاد آگئے، انہوں نے بھی ساہیوال سے کوئٹہ تک اپنی محبوب شالاط کے ساتھ ایک سفر کیا تھا، ان کی جیب میں چوڑیاں اور دل میں محبت تھی، لیکن اظہار کرنے سے کتراتے تھے، شالاط کے ساتھ گزارے وہ تراسی دن بہت قیمتی تھے، ان کو علم تھا کہ شالاط کے بعد ان کا دل کھنڈر ہوجائے گا اور شالاط کی یاد ان کو ہمیشہ آتی رہے گی، شالاط کو فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ سے گہری دلچسپی تھی لیکن وہ عظیم شاعر کا دل کھنڈر بناکر ہمیشہ کے لئے جرمن واپس چلی گئی، نا آسوده خواہشات لئے مجید امجد کا کوئٹہ سے واپس ساہیوال کا سفر کتنا کٹھن ہوگا یہ کون جان سکتا ہے!”
ص : 13

دوسرا اقتباس :
“حسن کی سب سے بڑی ہتک اس سے صرف نظر کرنا ہے، کسی بھی فن، فنکار یا تخلیق کار کی توہین ہے کہ اس کے فن پر وہ توجہ نہ دی جائے جس کا وہ مستحق ہے! بیگانگی کی اس بھیانک فضا میں صرف ظاہر ہی نہیں باطن بھی تنہائی کے شدید کرب سے گزرتا ہے!”
ص : 114

julia rana solicitors london

نوٹ : دوستا کتاب ہی فی زمانہ واحد بے ضرر دوست ہے
کتاب کے لئے رابطہ نمبر :
0333 6956847
محترم عرفان شہود بھائی

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply