ابو الحسن نے ہمارا اسباب اپنی گاڑی میں رکھا ، میں نے بہتیری کوشش کی کہ پاس سے کچھ ہاتھ ہی بٹا دوں لیکن انہوں نے ایسا نہ کرنے دیا ۔ رات بھر سے ابوالحسن کے بچے بہت خوش تھے ۔ چھوٹا سعد قدوسی ، جس کے بارے میں خبر ملی تھی کہ وہ بہت منتظر ہے کہ پاکستان سے “تایا بابا” آ رہے ہیں اور وہ اس کے ساتھ کھیلیں گے لیکن چند گھنٹے کے قیام کے بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے کہ نکالے بھی گئے
ہمارے نکلنے سے پہلے بچوں کو سکول جانا تھا ۔ ابو الحسن کے بچوں کے سکول کا وقت ظہر کے بعد شروع ہوتا ہے سعد قدوسی کو جب اس کی اماں نے کہا کہ “چلو اب سکول کے لیے تیار ہو جاؤ ” تو وہ میز کے نیچے گھس گیا اور باہر آنے کے لیے تیار نہ تھا اور ایک ہی بات مسلسل چل رہا تھا کہ آج چھٹی کروا دو ، لیکن اس سے کیا معلوم کہ
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
ابوالحسن کے بچے پاکستان انٹرنیشنل سکول کے انگلش میڈیم والے شعبے میں پڑھتے ہیں ۔ میں ابو الحسن کے ساتھ ہی بچوں کو سکول چھوڑنے گیا جو گھر کے قریب ہی تھا سکول کی عمارت دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اچھی خاصی بڑی جگہ پر سکول پھیلا ہوا تھا اور خاصا بڑا گیٹ تھا ، اس کے باہر گارڈ بیٹھا ہوا تھا ۔ کچھ پاکستانی خواتین بچوں کو چھوڑنے آتی دکھائی دیں ۔ ابو الحسن نے بچوں کو اتارا اور ہم واپس چل دیے ۔ ابوالحسن بتا رہے تھے کہ اس سکول کا معیار تعلیم بہت اعلیٰ ہے اور اساتذہ خاصی محنت کرتے ہیں ۔ دلچسپ معاملہ یہ ہوا کہ ایک مکرم دوست کا قیام مکہ میں واٹس ایپ پر میسج آیا کہ وہ ملنا چاہتے اور اور میرا جدہ وآپس آنے کا پروگرام پوچھ رہے تھے ۔ پھر بتانے لگے کہ وہ اس سکول کے فلاں شعبے کے سربراہ ہیں ۔ میں نے بتایا کہ اگلے روز آپ کے دروازے پر کھڑا بچوں کو چھوڑ رہا تھا ۔۔۔
سامان گاڑی میں پہلے سے دھرا تھا سو ابوالحسن کے گھر سے میں نے اپنے اہل خانہ کو ساتھ لیا اور ہم مکہ کو نکل گئے ۔ ہائی وے یعنی بڑی سڑک ابو الحسن کے گھر کے بالکل ہی قریب ہے ، چند لمحوں میں ہم ہائی وے کے کنارے پہنچ گئے ۔ ابوالحسن کو پہلے پٹرول ڈلوانا تھا ۔ اس پٹرول پمپ پر تو مجھے لگا کہ ہم پاکستان میں کھڑے ہیں ، قریباً وہی نرخ جو آج کل پاکستان میں چل رہے ہیں ۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ہم ایسی سرزمین پر کھڑے ہیں جہاں کی مٹی تلے پانی کی بجائے تیل بہتا ہے اور جس ملک کی معیشت کا بڑا انحصار تیل برآمد کرنے پر ہے اسی ملک میں تیل کی قیمت ہمارے جیسے تیل درآمد کرنے والے ملک کے برابر ہے ۔ کم از کم اس روز مجھے پاکستان میں تیل کی قیمتیں بہت کم محسوس ہو رہی تھی ۔ لیکن سعودی عرب میں ایسا ہمیشہ سے نہ تھا آج سے دو دہائی پہلے سعودی عرب میں پٹرول بہت سستا تھا مجھے یاد ہے کہ تب میں جب یہاں پر آیا تھا تو ہمارے ایک دوست بتایا کرتے تھے کہ پورے شہر میں خال خال کوئی موٹر سائیکل ہوتی ہے اور اسے “مسکین” سواری سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارے ان دوست نے موٹر سائیکل رکھی ہوئی تھی اور وہ بتایا کرتے تھے کہ جب وہ پٹرول پمپ پر جاتے ہیں تو پٹرول بھرنے والا ان کی موٹر سائیکل کی ٹینکی میں پٹرول بھر کے ان کو کہتا ہے “جاؤ پیسے رہنے دو” شاید نصف سے کچھ زیادہ ریال کا ایک لیٹر رہا ہو لیکن اب قریب کی قریب تین ریال کا ایک لیٹر پٹرول مل رہا تھا ۔ پٹرول بھروا کر ہم اگلی منزلوں کے سفر کو نکلے اور جلد ہی شہر سے باہر تھے جدہ سے مکہ کا فاصلہ تقریبا پچاسی کلومیٹر ہے جو تقریبا پون گھنٹے میں طے ہوتا ہے ۔ موٹروے پر حد رفتار ایک سو بیس کیلومیٹر فی گھنٹہ ہے ۔ حادثات کی کثرت کے سبب سعودی حکومت نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کر دیے ہیں وگرنہ عرب نوجوان “وحشی جٹ” قسم کے ڈرائیور ہیں لیکن بھاری جرمانوں نے سب “وحشتوں” کو لگام دے دی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ دس برس پہلے میں سعودی عرب آیا تو مکہ سے ایک جی ایم سی گاڑی میں ریاض گیا ۔ جی ایم سی بڑی لگژری اور مضبوط گاڑی ہوتی ہے تمام تر راستہ وہ عرب ڈرائیور قریب قریب دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتا رہا اور اس کی ڈرائیونگ کے سبب اس سفر میں مجھے بہت خدا یاد آیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا
لیکن اب ایسی صورتحال نہ تھی ۔ محمد بن سلمان کی حکومت نے جہاں بہت سے اچھے اور برے کام کیے ہیں جس پر احباب خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی ، وہاں ایک بہت اچھا کام یہ کیا ہے کہ اپنے شہریوں کی بہت سے امور میں اچھی تربیت کی جا رہی ہے ۔ بعض حوالوں سے قانون کی پاسداری میں سعودی عرب دنیا بھر میں ممتاز تھا ، جیسا کہ حدود کا معاملہ اور امن و امان کا نفاذ لیکن ٹریفک قوانین کے معاملے میں جرمانے کم ہونے کے سبب سعودی نوجوان ڈرائیور ہمہ وقت ایڈونچر کے موڈ میں رہتے تھے ، لیکن اب سنا ہے کافی ٹھنڈے ہوئے پڑے ہیں ، وہ اقبال کا شعر میں تصرف کے ساتھ کہ
بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
“جوان ” نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
مجھے ابو الحسن بتا رہے تھے کہ ابھی بھی ایسا تو کر ہی لیتے ہیں کہ راستہ لینے کے لیے وہ آپ کی گاڑی کے ساتھ لا کر اپنی گاڑی یوں جوڑتے ہیں کہ آپ کو ان کی گاڑی کا بمپر بھی نظر نہیں آ رہا ہوتا ۔ میں نے یہ بات ابو الحسن سے بار بار پوچھی کہ “کیا واقعی ایسا ہوتا ہے” تو وہ بتانے لگے کہ :
“خود میرے ساتھ ایک سے زیادہ بار ایسا ہوا کہ میں ہائی وے پہ گاڑی چلا رہا ہوں پیچھے سے عرب نوجوان آیا ، اس سے پہلے کہ میں اس کو راستہ دیتا اس نے میری گاڑی کے اتنا ساتھ گاڑی لگا دی کہ مجھے اس کی بمپر اور ہیڈ لائٹس بھی نظر نہیں آرہی تھیں اور جلدی سے میں نے اپنی گاڑی ایک طرف کی، اور وہ یہ جا وہ جا ”
یہ تو رفتار کی بات تھی “اشارہ کاٹنے” پر ساڑھے تین ہزار ریال جرمانہ کیا جا رہا ہے بظاہر آپ کو ایسا لگے گا کہ “جرمانہ نہیں یہ تو ظلم ہے” لیکن یقین کیجئے یہ سعودی حکومت نے بالکل درست فیصلہ کیا ۔ ہمارے پاکستان میں “ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی” کا جرمانہ کل سے پہلے موٹر سائیکل والے کے لیے صرف دو سو روپے تھا گاڑی والا پانچ سو بھرتا تھا ، لیکن اگر وہ خوش اخلاقی سے پولیس اہل کار سے معذرت کرتے ہوئے کم جرمانے کی فرمائش کرتا تو پولیس والا اس کو بھی دو سو روپے جرمانہ کر دیتا تھا اور یوں محض دو سو روپے میں اسے ” لائسنس ٹو کل ” دے دیا جاتا ہے ۔۔۔
ساڑھے تین ہزار ریال پاکستان کا قریب قریب پونے تین لاکھ روپے بنتا ہے بظاہر بہت ظلم لگتا ہے لیکن تب یہ ظلم نہیں لگتا جب آپ اشارہ کاٹ کر کسی کی جان لے لیتے ہیں ۔ ہمارے معروف خطاط جناب عبدالرشید قمر کو کون نہیں جانتا وہ میرے والد مکرم کے دوست اور ان کی نسبت سے ہمارے بھی دوست میری ان سے ذاتی طور پر بہت محبت اور بے تکلفی ہے ان کے بچے سب ہی مجھ سے محبت کرتے ہیں ان میں ایک عبدالصمد فاروق نوجوان ہیں ۔ موٹر سائیکل تیز چلاتے تھے فیروز پور روڈ پر تیزی سے چلے آ رہے تھے ان کی طرف سے اشارے کی بتی سبز تھی سو انہوں نے چوک کو تیزی سے عبور کرنا اپنا حق جانا ۔ لیکن دوسری طرف سے سرخ بتی کے باوجود ایک گاڑی والے نے ظلم کیا دونوں آپس میں ٹکرائے اور عبدالصمد کی چار جگہ سے ہڈیاں ٹوٹ گئیں اس بات کو شاید 25 برس گزر گئے وہ نوجوان صحت مند تو ہو گیا اب خود اس کے بچوں کی شادیاں بھی ہو گئی لیکن ٹوٹی ہڈیاں جڑنے کے بعد اس کی صحت کے مسائل نے آج تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا ۔ جانے کتنے لوگ اس طرح کے ظلم سے جان کی بازی ہار دیتے ہیں ، ماؤں کی گود اجڑ جاتی ہے ، سہاگنوں کے سہاگ لٹ جاتے ہیں اور آپ دو سو روپیہ جرمانہ کر کے مجرم کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ میرے ایک دوست نے بڑا اچھا جملہ بولا تھا کہ “ہمارے ہاں یہ جرمانے قانون کی پاسداری کے لیے نہیں بلکہ ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں”
ابو الحسن بتا رہے تھے کہ رات کے دو بجے اشارے کی بتی پیلی ہو کر جلنا بجھنا شروع ہوتی ہے تو بڑے شوخ سعودی نوجوان بھی بریک پر پاؤں رکھ کے اکیلے کھڑے ہوئے ہوتے ہیں ، کسی کو جرآت نہیں ہوتی کہ رات کے اس پہر سنسان سڑک پر بھی اشارہ توڑا جائے ۔
میں 15 روز سعودی عرب رہا ایک آدھ سڑک پر مجھے ٹریفک پولیس والے دکھائی دی ہے وگرنہ یہ سب کام کیمروں کی مدد سے ہوتا ہے ۔ آپ سیٹ بیلٹ باندھے بنا کیمرے کے نیچے سے گزر گئے روشنی کا جھماکا ہوگا اور آپ کے دل کی دھڑکن تیز ہو جائے گی ، کیونکہ آپ کو یاد آ جائے گا کہ آپ نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی تھی۔ آپ موبائل استعمال کر رہے ہیں کوئی آپ کو نہیں روکے گا ، بس پھر وہی شہاب ثاقب ٹوٹے گا اور آپ کو برقی پیغام یعنی میسج آ جائے گا کہ حضور اتنے ریال خزانہ سرکار میں جمع کروا دیجیے ۔۔
ویسے تو ہم پاکستانی جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو بے اختیار اپنا موازنہ ان سے کرتے ہیں اور جلتے رہتے ہیں سو میں بھی اسی کیفیت کا شکار تھا ۔ اربوں روپے لگا کر لاہور میں کیمرے لگائے گئے ، کچھ روز چلے ، کچھ روز خوب ہنگامہ رہا لگانے والی حکومتیں اربوں لگا کر کروڑوں کا اشتہار دیتی رہیں اور کریڈٹ لیتی رہیں ۔ کچھ روز چالان بھی ہوئے اور اب کئی ماہ سے سب موقوف ہو چلا ۔ جانے ہم کب جنگل سے نکل کے شہر میں آئیں گے ہمارا تو لاقانونیت کا رقص ہی نہیں ختم ہو رہا
ہم تم ہوں گے ساون ہوگا
رقص میں سارا جنگل ہوگا ۔
میں ابوالحسن سے یہی باتیں کر رہا تھا وہ مجھے بتا رہے تھے اور میں جل کڑھ رہا تھا ، بہت طنز سے ہم جن کو بدو کہہ کے خود کو برتر سمجھتے ہیں انہوں نے ہمیں ہر شعبے میں مات دے رکھی ہے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا کہ صرف پیسہ ہی کچھ نہیں ہوتا امانت دیانت ، کچھ کرنے کا جذبہ اس کی بھی بہت اہمیت ہے ۔ تسلیم کہ وہ آمرانہ حکومتیں ہیں لیکن ان کے عوام ہم سے ہزار گنا سکھی ہیں ۔ بلاشبہ ہمارے یہاں بولنے کی آزادی تھی گو اب وہ بھی نہ رہی ۔ آپ کھل کر لکھ بول نہیں سکتے ، شوق پورا کیجیے اٹھا لیے جائیں گے ۔ یہ واحد سہولت تھی جو اب ہمارے ہاں سے اٹھ گئی ہے ۔
سفید اجلے احرام سے خوں رنگ کفن کا سفر ۔۔۔۔۔۔
خوبیوں اور خامیوں کو الگ الگ کر دیکھنا سیکھیں ، حرم کی زمین پر ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ ہم لوگ اپنے تعصبات کے یوں اسیر ہیں کہ خامیوں کا ذکر کریں گے تو خوبیاں بھول جائیں گے اور خوبیوں کا ذکر کریں گے تو خامی کا تذکرہ کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جائے گا۔۔۔۔
جدہ کے ساحل پر پانی کے جہاز اترتے ، اور قطار اندر قطار سفید براق لباس پہنے حاجی کچھ خوشی اور کچھ خدشات چہرے پر سجائے جہازوں سے اُترتے۔ خوشی کہ اس سرزمین پر اترے ہیں کہ جہاں محبوب کے دامن لپٹ کر آئی ہواؤں کی خوشبو مہک رہی ہے اور خدشات کہ جانے کب یہ سفید ” چٹا ” احرام لہو رنگ کفن ہو جائے ۔
جب رخصت ہوئے تھے اپنے خاندان والوں سے رخصت لی تھی تو آنکھیں نمناک تھیں ، یہ خوف اور خدشہ کہ جانے پھر ملاقات ہو کہ نہ ہو۔
اب کہ بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
یہ حاجی جدہ میں جمع ہوتے تھے اور مزید حاجیوں کا انتظار کرتے کہ سب مل کر چلیں گے ، لیکن ایسا نہیں تھا کہ
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
بلکہ خوف ہوتا تھا کہ راستے میں راہزن اسباب ہی نہیں ، جان بھی لینے کو منتظر ہوتے تھے ۔ ہزار ہزار حاجیوں کا قافلہ ترتیب پاتا تو جدے سے مکے کو نکلتے ۔ ستر پچھتر کیلومیٹر کا یہ سفر جو آج اپنی گاڑی پر آپ صرف آدھ پون گھنٹے میں طے کرتے ییں اور لبیک اللہم لبیک کہتے شاداں و فرحاں حرم میں داخل ہوتے ہیں ، یہ اونٹوں پر پورا دن لے جاتا تھا ، لیکن دن تو کیا کبھی جان بھی لے جاتا ۔ عرب بدو آتے اور یوں آتے کہ قبیلہ کے قبیلہ آتا اور تلواروں سے حاجیوں کے قافلے پر پل پڑتا ، ظالم صرف لوٹتے ہی نہ تھے بلکہ شقاوت قلبی کی انتہا کہ قتل۔۔بھی کرتے ۔
آج جب سعودی عرب کا امن و امان دیکھتے تیسری نسل ادھیڑ عمری کو جا پہنچی تو لوگوں کے لیے یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ ہزار حاجیوں کا قافلہ نکلے اور جان و مال لٹا کر چار پانچ سو افراد بچ پائیں اور باقی سب شہید راہِ وفا قرار پائیں ۔۔۔ اور کبھی ایسا بھی ہو تمام کا تمام قافلہ کٹ جائے ۔
ہندستان میں جب کوئی حج کو جاتا تو کئی کئی برس سوچتا پھر جب نکلتا تو ہماری طرح نہیں کہ اسباب باندھا ، کاندھے پر لٹکایا اور چل دیئے ۔ حاجی کی جانے کا عالم یہ ہوتا تھا کہ غالب گمان ہوتا تھا ، کہ اب شائد نہ مل پائیں ۔ جانے والا اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے اپنے گناہ معاف کروا کے جاتا ۔ اور وہ بھی اسے نہ بھیجتے بلکہ گمان کے مطابق اس کا جنازہ اٹھاتے ۔
علامہ اقبال نے اس معاملے پر ایک نظم بھی لکھی جس کے کچھ اشعار یوں ہیں
قافلہ لُوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دُور
اس بیاباں یعنی بحرِ خشک کا ساحل ہے دُور
ہم سفر میرے شکارِ دشنۂ رہزن ہوئے
بچ گئے جو، ہو کے بے دل سُوئے بیت اللہ پھرے
اُس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی!
موت کے زہراب میں پائی ہے اُس نے زندگی
کئی اشعار پر مشتمل یہ نظم انسان کے دل کو دکھی کر دیتی ہے ۔ دیکھیے ! ان تین اشعار میں ہی ایک حاجی کس درد سے کہہ رہا ہے کہ :
” اس کا قافلہ صحرا میں لوٹا گیا اور منزل یعنی مدینہ دور ہے اور ساتھی ڈاکوں کا نشانہ بن گئے ، جو بچے وہ بے دل سے ہو کے بیت اللہ تو پہنچے مدینہ نہ پہنچے اور سرزمین بخارا کے اس نوجوان نے کس خوشی سے جان دی کہ مقصود و مطلوب شہادت ہوا ”
اس سفر میں تین نوجوان مجھے ملے تھے اور تینوں امام بخاری کے دیس کے تھے ۔ اقبال کے اشعار لکھ رہا ہوں ساتھ ان کے خوبصورت روشن چہرے کو یاد کر رہا ہوں وہ سوچ رہا ہوں یہ نوجوان بھی تو ایسا ہی خوبصورت ہوگا کہ جو عرب کے صحراؤں میں حج کے لیے آیا اور رہزنوں کے ہاتھ چڑھ گیا ۔۔۔۔
کمال یہ تھا کہ یہ سب ترک عثمانی سلطنت میں ہوتا تھا اور مسلسل ہوتا تھا ۔ شریف مکہ حسین بن علی گورنر تھا ، اور اچھا خاصا مضبوط حاکم تھا کہ جس کے پوتے آج اردن کے حاکم ہیں ، اور عراق کا شاہ فیصل اس کا بیٹا تھا ۔ اقتدار کے آخری برسوں میں شریف مکہ حسین نے ترک ملوکیت سے آزادی کا اعلان کر دیا یعنی بغاوت کر دی ۔اور برس ہا برس سے حجاز مقدس پر ترکی کا تسلط ختم کر دیا اس نے یہ سب عرب نیشنلزم کے نام پر کیا ۔لیکن اس کا حال یہ ہوا
کھل کر رونا کہاں میرا نصیب
دو آنسوؤں میں نوح کا سیلاب آ گیا
یا
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ، یعنی آل سعود کے سردار عبد العزیز آل سعود نے اپنے علاقے نجد کی حکومت اپنے متحارب فریق آل رشید سے واپس حاصل کی کہ جنہوں نے ان کی سلطنت پر قبضہ کر کے انہیں کویت کی طرف جلاوطن کر دیا تھا ۔ عبدالرحمن کہ جو شاہ عبد العزیز کے والد تھے ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ، نوجوان عبدالعزیز نے باپ کی چھینی سلطنت ہی واپس نہ لی بلکہ حجاج کرام کے لیے سکون واطمینان والی عبادت کا وقت بھی واپس لیا ۔ اول اول نجد پر اپنا قبضہ حاصل کیا اور بعد میں سلاطین عثمانیہ کے باغی گورنر شریف حسین سے حجاز بھی لے لیا ۔
اور سریر آرائے سلطنت ہوتے پہلا کام امن و امان کی بحالی کا کیا ۔ وہ حجاج کہ جو پہلے رکتے اور قافلہ بناتے اور پھر بھی خاک و خون میں نہائے ہوئے جسموں کے ساتھ جان سے ہار جاتے ، وہ اب اتنے سکون سے حج کر سکتے تھے کہ ایک اکیلا حاجی بھی اگر عرب بھر کی کسی بھی سمت سے نکلتا اور مکے تک جاتا تو اس کی جان کیا کسی کو جرآت نہیں تھی کہ اس سے ایک ریال بھی چھین پائے ۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں کے آغاز میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ نے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ، یعنی آج سے ٹھیک ساٹھ برس پہلے ۔۔۔۔ وہ اپنی کتاب سفر حجاز میں ایک شخص کا لکھتے ہیں کہ جدے کے راہ میں سڑک پر ریال کا ڈھیر رکھے رات کی تنہائی میں منی ایکسچینج کا ٹھیلا لگائے بیٹھا تھا اور اسے کوئی خوف نہ تھا ۔
ابھی پچھلے ماہ ایک قاتل کا سر اس حال میں قلم ہوا کہ سارا قبیلہ مقتولوں کے گھر معافی واسطے حاضر ہوا لیکن وہ نہ مانے تو ان پر کوئی حکومتی دباؤ نہ آیا اور اسے سزا دی گئی ۔
اس امن وامان کے پیچھے اللہ کی خاص حکمت تھی کہ مسلمانوں کی آبادی اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ لازم تھا ایسے حساس مقامات پر قانون کی پاسداری کا یہ ہی عالم ہوتا ۔
بات دور نکل گئی لیکن بتلانا یہ مقصود تھا کہ ان صحراؤں میں جانے کتنے مظلوم حاجیوں کا خون ریت کو پلا دیا گیا ۔
اور ہمارے دوست ناراض ہوتے ہیں تو ہر خوبی اور خامی کو برابر کر دیتے ہیں ، یہ بہت بڑا اللہ کا احسان ہے کہ اللہ نے اس علاقے میں امن قائم کیا ۔
جدہ سے مکے کا سفر تیزی سے جاری تھا اور دائیں بائیں سبزے کی بہار لیے پہاڑ ہمیں حیران کر رہے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تصویر۔۔۔۔۔۔۔۔
باب مکہ (عربی: باب مكة) سعودی عرب کے شہر قدیم جدہ کی فصیل میں موجود آٹھ دروازوں میں سے ایک ہے۔ یہ مکہ کی سمت مشرقی دروازہ ہے۔ یہ بدو بازار کے سامنے واقع ہے اور یہاں پرانی چیزوں کو بازار بھی لگتا تھا۔ شیخ اسد قبرستان بھی اس کے ساتھ ہی ہے جو فصیل شہر سے باہر تھا۔ [1]
ابͧــᷨــᷧـــو بكͬــᷜــͣــᷩـــر قدوسͥــᷤــͧــͩــͩــͧــᷭـــى
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں