اچھی بات ، کس سے لیں؟-زید محسن حفید سلطان

آج ہم تیز ترین دور سے گزر رہے ، جہاں کوئی بھی نیا معاملہ جنگل میں آگ کی تیزی سے بھی زیادہ سبک رفتاری سے پھیل جاتا ہے ، اور ویڈیوز اور تحریروں کا ایک ہجوم بپا ہو جاتا ہے ، جس ہجوم میں اگر کوئی اس معاملے پر حمایت کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کوئی اس معاملے کے خلاف کھڑا ہوا نظر آتا ہے ، ایک ویڈیو اگر اس حوالے سے فوائد پر مشتمل ہوتی ہے تو اگلی ویڈیو میں ایسے بھیانک نقصانات بتائے جا رہے ہوتے ہیں کہ اللہ میری توبہ۔۔اس ساری صورتحال میں اچھی بات و بری بات اور سچ و جھوٹ میں فرق کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے ، پھر چاہے معاملہ دینی ہو یا دنیاوی ، ایک عام آدمی کیلئے ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس کی بات لی جائے اور کس کی بات چھوڑی جائے؟ یا بالفاظِ دیگر کون اچھی اور صحیح بات کر رہا ہے اور کون بری اور غلط بات؟ اور آخر اچھی اور صحیح بات کس سے لی جائے؟
اس سوال کا جواب ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کے پاس تو یہ ہوتا ہے کہ۔۔۔
“بھئی اچھی بات جہاں سے ملے لے لینی چاہئے”
لیکن یہ طبقہ اچھی اور صحیح بات میں فرق کرنا بھول جاتا ہے اور اس بات کو پس پشت ڈال دیتا ہے کہ بہت ممکن ہے کوئی بات ایسے پیش کی جائے جو بظاہر تو اچھی لگے لیکن در حقیقت وہ صحیح نہ ہو۔۔
ساتھ ہی یہ طبقہ اپنی بات کو تقویت دینے کیلئے آیۃ الکرسی والا واقعہ پیش کرتا ہے ، جو سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ اور شیطان کے درمیان پیش آیا کہ آپ خزانے پر محافظ تھے کہ پہلے دن شیطان آیا اور چوری کرنے لگا ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پکڑ لیا تو منت سماجت کی ، جھوٹی قسمیں کھائیں ، وعدے کئے اور چھوٹ گیا ، پھر دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا پھر تیسرے دن جب آپ نے مصمم ارادہ کیا اس کو بارگاہِ رسالت میں پیش کریں گے تو وہ آیۃ الکرسی سکھا گیا اور وعدہ کر گیا کہ اس کے پڑھنے کے بعد کوئی چور اُچکا نہیں آئے گا۔

اب اس واقعے سے بتایا جاتا ہے کہ دیکھو تو سہی ایک صحابی کو جب شیطان نے اچھی بات سکھائی تو انہوں نے فوراً قبول کر لی ، پھر بھلا ہمیں کیا قباحت ہو سکتی ہے کسی سے اچھی بات لینے میں؟

Advertisements
julia rana solicitors

تو بڑے ہی احترام سے عرض ہے کہ: اگر اس حدیث کو مکمل طور پر پڑھا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ ابو ہریرہ نے اس بات کی تصدیق رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کروائی ، پھر جب زبانِ نبوت سے “صَدَقَکَ وَھُوَ کَذُوبٌ” کے الفاظ صادر ہوئے کہ “تھا تو جھوٹا لیکن بات سچی کر گیا” پھر ہی اس بات کو اچھی بات سمجھا گیا اور صحیح جان کر صدقِ دل سے قبول کیا گیا ، گویا کہ اچھی بات اگر کہی گئی تو اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کروا لی گئی۔
اور یوں ایک قانون وضع کر دیا گیا کہ بات کے صحیح یا غلط ہونے اور اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ اس کے ظاہر پر نہیں ہوگا بلکہ ہر بات کی اس فیلڈ کے ایکسپرٹ سے تصدیق کروائی جائے گی اور پھر ہی اس پر عملی اقدام کیا جائے گا ، کیونکہ ایکسپرٹس ہی کسی بات کے اثرات و نتائج کو سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہیں۔
اور یقین جانیں جب ہم اس اصول کو اپنا لیں گے کہ کسی بھی نئی بات ، نئے معاملے کی حقیقت کو اس کے ایکسپرٹ سے معلوم کر لیں تو ہمارے بہت سے معاملات خود ہی سدھر جائیں گے ، پھر چاہے وہ دو دن میں ارب پتی بننے کا معاملہ ہو ، یا پھر دو منٹ کے وظیفے سے جنت کے ٹکٹ کی بات ہو۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply