شمالی یورپ کے ممالک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کو مجموعی طور پر اسکینڈے نیویا کہا جاتا ہے۔ یہ ممالک بشمول شمالی بحر اوقیانوس کا جزیرہ آئس لینڈ ملتی جلتی زبانوں اور ثقافتوں کے حامل ہیں.. آج کل یہ ممالک خبروں میں زیادہ اس لئے ہیں کہ یہاں پر اسلام مخالف اور قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعات تواتر سے پو رہے ہیں۔ یہ ممالک مضبوط معیشت کے حامل ہیں ۔۔ اور انتہائی پر سکون اور اپنی عوام کے لئے جنت نذیر ہیں۔ان کی ترقی اور کامیابی کا راز ایک نظریہ معاشرت ہے جس پر یہ ممالک عمل پیرا ہیں ۔۔ اسے “لاگوم ” LAGOM کہا جاتا ہے۔۔اس میں زندگی کے فلسفوں کا عموماً موازنہ کیا جاتا ہے۔۔۔اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ لگوم ابھی چند دن پہلے نمودار ہوا ہے، درحقیقت یہ صدیوں پہلے بنی تھی۔ سویڈش لوگ اکثر اپنے ملک کو لگوملنڈیٹ کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے “پچھاڑ کی سرزمین”۔ لغت میں، اس تصور کا اکثر ترجمہ “اعتدال، صورتحال کی مناسبیت، توازن” کے طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ درست تعریف نہیں ہے۔ اصطلاح کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے، آپ کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کم سے کم اور عملی، آرام دہ اور بے مثال، ماحول دوست اور اعلیٰ معیار کا ہے کا تصور ہے ، غیر ضروری اور پرتعیش تفصیلات کی قطعی ضرورت نہیں۔۔ کی فلاح و بہبود کی کلید بن گیا۔ رہائشی وسائل کے لیے معقول رویہ رکھتے ہیں، پیسہ، وقت اور محنت ضائع نہیں کرتے،لگوم کام اور تفریح، افادیت اور لذت، شائستگی اور چمک کے درمیان کامل توازن ہے۔۔ یہ 5 مراحل پر مشتمل ایک ضابطہ حیات یا معاشرت ہے۔۔
مرحلہ 1۔ ہر چیز میں اعتدال کی کوشش کریں، خاص طور پر کھانے میں۔
مرحلہ 2۔ معیاری اشیاء خریدیں جو طویل عرصے تک چل سکیں۔
مرحلہ 3۔ ظاہری عیش و آرام اور عام طور پر ضرورت سے زیادہ ہر چیز کو ترک کر دیں۔
مرحلہ 4: قدرتی ( نیچرل )منتخب کریں۔
مرحلہ 5: دوسروں اور ماحول کا خیال رکھیں
ان مراحل کا مطلب یہ ہے کہ،زندگی کو غیر ضروری تفصیلات کے ساتھ گزارنا ک بند کریں اور وقت پر رکنا سیکھیں۔ یہاں، وقفہ غذائیت کے سنہری اصول کی بازگشت کرتا ہے، جو کہتا ہے: جیسے ہی آپ کو بھوک لگنا بند ہو آپ کو میز سے اٹھنے کی ضرورت ہے۔ سویڈن عام طور پر اپنا کھانا اپنی پلیٹ میں رکھتے ہیں، پلیٹ میں کھانا چھوڑنا قبول نہیں کیا جاتا ہے – اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ کھانا لیا جتنا آپ کھا سکتے ہیں۔ اسی طرح سے لاگوم کفایت شعاری کا مطالبہ نہیں کرتا ہے۔ بلکہ سویڈن کا بنیادی خیال معقول طریقہ سے خرچ کرانا ہے۔،10 سستی چیزیں خریدنے سےبہتر ہے کہ ایک “دیرپا رہنے والی” معیاری چیز پر پیسہ خرچ کیا جائے ،لاگوم ایسی سرمایہ کاری یا فیشن کی مخالفت کرتا ہے جو ایک مہینہ چل جائے یا ایک ہفتے میں فیشن سے باہر ہو جائے۔ کر دیں۔
سویڈش دولت ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایک سونے کی گھڑی، بلاک پر سب سے بڑا گھر، ایک پرتعیش سپر کار اور ایک بیگ جس میں ایک بہت بڑا فیشن ہاؤس کا لوگو یا نشان ہے، اس نمود و نمائش کے قطعی قائل نہیں۔۔ ان کے خیال میں یہ نمود ونمائش لوگوں کی آنکھ میں دھول جھونکنا ہے جس کے لئے آپ قرض لے کر اپنی اوقات سے تجاوز کرتے ہیں۔۔ سویڈن میں ایک اعلیٰ معیار زندگی اور ایک اچھی ماحولیاتی صورتحال “ریڈوس – ری یوز – ری سائیکل” کے اصول کی بدولت حاصل کی گئی ہے، یعنی “کم کریں، دوبارہ استعمال کریں، ری سائیکل کریں”۔ویسے تو دنیا بھر میں سویڈش برانڈز کی دکانوں پر ڈسکاؤنٹ کوپن کے عوض پرانے کپڑوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح برانڈز اپنے صارفین کو ہوشیار استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ غریب ممالک میں استعمال شدہ کپڑے ( لنڈا بازار ) کو انہی ممالک کے ایک سیزن میں استعمال کر کے ان کپڑوں کو عطیہ کرنے کی وجہ سے دوام حاصل ہے۔
یعنی لاگوم کا مطلب ہوا کہ
“نہ بہت کم ، بہت زیادہ نہیں ، بالکل ٹھیک” اسے اگر دیگر ممالک کی اصطلاحات میں دیکھیں تو ناروے کے لوگوں میں اس کا مطلب ایسا طرز زندگی جو ڈیسنٹ ہو۔ انگریزی میں اسے مناسب طرز حیات۔۔ البانیہ میں اسے “taman” کہا جاتا ہے جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکوں کے لفظ ( تمام) سے اخذ کیا گیا۔ جس کا مطلب( precisely) ہے جو عرب کے (تمام ) یعنی مکمل یا perfect اخذ کیا گیا ہے۔ ہندو اور بدھ مذہب کا یہ طرز حیات جزو لازم ہے۔۔
یہ طرز حیات سویڈیش اقوام یا سکینڈے نیوین ممالک نے بحری ملاحوں کے طرز زندگی سے لئے تھا۔ جن پر عرب کے شدید اثرات تھے۔۔ یعنی اس طرز معاشرت کے پیچھے عرب حکمت موجود ہے۔۔
اسلام میں اس طرز عمل کو میانہ روی یا اعتدال سے اخذ کیا جاتا ہے۔
میانہ روی اور اعتدال پسندی دونوں مترادف الفاظ ہیں جس کے معنی زیادتی اور مفلسی کی درمیانی حالت ہے۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 31 میں کھانے پینے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ: اور کھاؤ اور پیئو اور حد سے نہ بڑھو۔
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 29 میں خرچ کرنے کا یہ اصول دیا گیا کہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے۔
اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کے ساتھ کیے جائیں۔
قرآن مجید نے مومن کی یہ شان بتائی ہے: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں،نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(الفرقان: 67)
مسلم شریف کی حدیث ہے:” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔”
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک چٹائی پر سوئے، جب اٹھے تو پہلوئے مبارک پر چٹائی کے نشانات تھے، ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کاش ہم آپ کے لئے کوئی نرم بستر تیار کرلیتے (جس سے بدن مبارک کو راحت پہنچتی) آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میری مثال تو دنیا میں ایسی ہے کہ کوئی سوار چلتے چلتے ذرا سی دیر کے لئے کسی درخت کے سایہ میں ٹھہر گیا، پھر توڑی دیر بعد چل پڑا اور اس سائے کو چھوڑ گیا۔( ترمذی)
اسی طرح نبی کریمﷺ زندگی کو آسان کرنے کا ایک نقطہ بیان فرمایا کہ “حدیث نبوی ﷺ ہے کہ آدمی کہتا ہہے میرا مال میرامال، اس کا مال تو اتنا ہے جو ا س نے کھاپی لیا اور پہن لیا۔باقی مال تو اس کے وارثوں کا ہے۔” لہذا صرف کمانے اور جمع کرنے کی بجائے اپنے اوپر ،اپنے خاندان پر مضبوط اور پائیدار سرمایہ کاری ،تعلیم وتربیت کی صورت میں اور اپنے ماحول اور معاشرت میں اپنے جانب سے عطیہ و خیرات و صدقات سے کرنا چاہئے۔۔ پوری دنیا میں جو کچھ ہمیں استعمال شدہ اشیاء ملتی ہیں وہ یورپ وغیرہ سے غریب ممالک میں آتی ہیں۔ ان یورپی ممالک میں گھریلو اشیاء بھی ایک مدت استعمال کر لینے کے بعد اپنے گھر سے باہر سڑکوں پر رکھ دینا ہے تاکہ جس کے پاس نہیں یا قوت خرید نہیں وہ اس TV یا جوسر،یا مشین یا کسی بھی فرنیچر کو مفت لے جا کر اپنی ضرورت پوری کرے۔۔ یہ نبی کریمﷺکی ایک سنت کی کرشمہ سازی ہے کہ ان ممالک کو پھر خدا نے اتنا دیا ہے کہ وہ دنیا کی مضبوط ترین اور محفوظ تریں معیشتوں پر مشتمل ہین۔۔ جبکہ کوئی بھی مسلمان ملک ایسی کسی بھی قسم کی اچھائی کا متحمل نہیں۔۔ کسی عرب مسلمان ملک سے آپ کا لنڈا بازار نہیں چل رہا۔۔ اگر آپ کو مسلمانوں کی اس بخیلی پر شک ہو تو ۔۔ ایک بار اپنی الماری اور بستروں کے نیچے رکھے سوٹ کیس کھول کر دیکھ لیں ۔۔ کتنے سالہا سال کے کپڑے ، جوتے ،رضائیاں، کمبل ،گھر میں داد کے زمانے کا جوسر ،کپ گلاس ،فرنیچر پڑا پڑا گل سڑ رہا ہے مگر مجال ہے ہم اس کے ذریعے قرب حاصل کر لیں۔۔ پھر ہم کہتے ہیں یورپ کی ترقی کا راز کیا ہے۔۔ انہوں نے مسلمانوں سے ضرورت سے زیادہ کو خیرات کرنا سیکھا ۔۔ اور عمل کر کے اپنی زندگیاں جنت بنا لیں کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی انسان سے بھلائی کرتا ہے تو اللہ اس خرچ کو خود پر احسان سمجھتا ہے اور بدلہ اپنی شان کے مطابق دیتا ہے ۔اور یہ سب کچھ اس نے نبی کریمﷺکے اسوہ حسنہ سے ہمیں سمجھایا تھا۔۔۔۔لیکن ہم وہ ناہنجار اولاد ہیں جو نہ تو اپنا بھلا چاہتے ہیں اور نہ آنے والی نسلوں کا
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
سلیم زمان خان
جنوری 2024
(اس مضمون کی تیاری میں گوگل پر موجود مختلف مضامین سے مدد لی گئی ہے۔ میں ان تمام مصنفین کا تہہ دل سے مشکور ہوں)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں