ایران کیوں مشتعل ہوا/علی ہلال

آپ کو اگر کوئی  یہ بھاشن دے کہ پاک ایران کشیدگی سےبننے والا امریکہ مخالف اتحاد بننے کا منصوبہ سبوتاژ ہوگیاہے تو آپ فوری طور پر بائیں جانب منہ کرکے تھوکنے میں دیر نہ کریں۔
سات اکتوبر کو جب فلسطینی مقاومتی تنظیموں اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوگئی تو امریکہ اور مغربی ممالک کو خطرہ تھا کہ کہیں لبنان،عراق،شام اور یمن میں سرگرم ایران کی قائم کردہ مسلح ونگز اس جنگ میں شامل نہ ہوں۔

تاہم امریکہ کی یہ تشویش اس وقت ختم ہوگئی جب امریکی انٹیلی جنس نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ خطے میں ایرانی گروپس امریکہ اور اسرائیل مخالف جنگ میں شمولیت نہیں کریں گے۔
تاہم حزب اللہ کے حوالے سے خوف تھا تاہم بعد ازاں یہ رپورٹ اس وقت درست ثابت ہوگئی جب حسن نصر اللہ نے خطاب کرتے ہوئے اس جنگ کو خالص فلسطینی معاملہ قراردیا اور خود کو اس سے بری الزمہ قراردیا۔

نیرنگی دیکھیے کہ27 دسمبر کو ایرانی پاسداران انقلسب کے ترجمان نے رمضان شریف نے بتایا کہ ط۔۔۔۔و۔۔ فا۔۔۔ن ایرانی جنرل قاسم سلیمان۔۔۔ی کے مارے جانے کا انتقامی ردعمل تھا۔اس بیان کو فلسطینی گروپوں نے سختی سے مسترد کردیا اور ایران کو خبردار کردیا کہ وہ اس بچگانہ حرکتوں سے بازرہیں۔
جس پر دو روز بعد پاسداران انقلاب کے سربراہ نے اس کی تردید کردی۔ تاہم ایران کی خفیہ پالیسی خطے کے گروپوں پر خفیہ نہیں رہی۔ جس پر یمن کے حوثی باغیوں نے راستہ جدا کرکے تہران کی ہدایت کا مزید انتظار کئے بغیربحراحمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملوں کا سلسلہ تیز کردیا۔

ایران کے لئے حوثی باغیوں کی یہ الگ کارروائی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ ایران امریکہ اور عالمی قوتوں کو یہ باور کروا چکاہے کہ وہ خطے میں امن وامان کی صورتحال پر کنٹرول رکھتاہے۔ جس کا اظہار امریکی انٹیلی جنس رپورٹ سے بھی ہوا تھا۔
مگر ایسے میں حوثی گروپ کی کارروائی نے ظاہر کردیا کہ کچھ گروپس ایرانی ڈکٹیشن کے مخالف بھی ہیں۔ ایران کو اس معاملے سے شدید رسوائی ہوئی ہے۔ ایران کو دوسرا دکھ یہ بھی ہے کہ فلسطینی گروپوں نے کسی بھی موقع پر مصراور سعودی عرب سمیت عرب ممالک کی خاموشی پر کچھ نہیں کہا۔ بلکہ سیاسی سربراہ نے دوحہ بیان میں عرب ممالک کا شکریہ ادا کیا۔

نیز حوثی گروپ نے بحراحمر میں حسب روایت ماضی کی طرح سعودی عرب اور امارات کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر بھی عمل درآمد کیا ۔یہ دونوں معاملات ایرانی حکام کے لئے شدید پریشان کن اور غیر متوقع ہیں۔

ان ناکامیوں کے بعد ایران نے خطے میں امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی منصوبہ بندی پر کام شروع کیا ہے۔ تاکہ وہ عالمی قوتوں کی نظر میں اپنی اہمیت دکھا سکے۔ پاکستان ،عراق کے کردوں اور امرات کے ساتھ کشیدگی کے پیچھے یہی کہانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply