یوٹرن ضروری ہے/ندیم اکرم جسپال

میری اس ہفتے سالگرہ گزری ہے،میں بھی 30 کی گنتی میں شامل ہو گیا ہوں۔سالگرہ منانے کا رواج بچپن میں تھا نہیں، تو شاید میں اس لحاظ سے آج بھی ذرا پرانا انجن ہوں۔ سوشل میڈیا پہ دانستہ اپنا جنم دن چھپا رکھا کہ سالگرہ کے دن رسمی پیغامات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔اور ویسے بھی کونسا ہم نے پیدا ہو کے کسی پہ احسان کیا ہے کہ لوگ مبارکبادیں دیتے پھریں۔ہاں سوشل میڈیا سے پہلے کے چند “عظیم” دوستوں کو میرا جنم دن یاد رہتا ہے اور وہ برابر مبارکباد اور دعا بھیجتے ہیں۔

میں ایسا بھلکڑ ہوں کہ اس سال رات بارہ سے کچھ پہلے خان فیصل کا میسج آیا”مبارکباد، جیو ہزاروں سال” تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ آدھی رات کو  کس بات کی مبارکبادیں دے رہا ہے۔دعا کے لیے شکریہ مگر تمہیں آدھی رات کیا یاد آگیا ہے؟میں نے اس سے پوچھا۔
وہی جو تمہیں کبھی یاد نہیں رہتا،اس نے جواب لکھ بھیجا۔
ماتھا ٹھنکا، او اچھا، آج کے دن میرے ماں باپ کے گھر پلیٹھی کا پُتر پیدا ہوا تھا۔میری آمد کا دن تھا۔

زندگی کے اتنے سال یو ٹرن لیتے گزرے ہیں،آج بھی ہر لمحہ یوٹرن لینے کے لیے تیار ہوں۔مذہبی یو ٹرن اتنے کہ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے برادر آسکڈ ویری گڈ کویسچن سے شروع ہو کے، طارق جمیل صاحب کی تبلیغی جماعت کے ساتھ اللہ کی راہ میں سہ روزے لگانے سے ہوتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے ساتھ مل کے اپنی اور ساری دنیا کی اصلاح کی کوشش کرتے ہوئے اشفاق احمد صاحب کے بابوں تک سفر کیا۔

مجھے یاد ہے 2010  میں کسی کام کے سلسلے میں ایک دوست کے ساتھ ایک شعیہ مومن کے شوروم پہ بیٹھے تھے۔کھانے کا وقت ہوا تو انہوں نے کھانا منگوا لیا۔میرے نزدیک شعیہ کے ساتھ کھانا کھانا مناسب نہ تھا سو میں نے حیلے بہانوں سے انکار کر دیا۔پھر میں نے ایسا یوٹرن لیا کہ سِکھوں کے ساتھ بیٹھ کے دال اور “سبجی” بھی کھائی، ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کے پیزے بھی کھائے۔

2019  میں پنجاب اسمبلی کی ملازمت کے دوران ایک دن سید شعیہ دوست کے ساتھ کھانے کی میز پہ بیٹھے تھے،میں ایک ہی پلیٹ میں بریانی ڈالی اور شاہ کے ساتھ اسی پلیٹ سے کھانا شروع کر دیا۔ ابھی دو نوالے لیے تھے کہ مجھے اچانک2010  کا وہ واقعہ یاد آگیا اور میں نے شاہ کو واقعہ سنا کے پورے اہلِ تشعیہ مسلک سے معافی مانگی۔

مذہب اور سیاست ایسے شعبے ہیں جہاں ہم چاہ کے بھی نظریات نہیں بدلتے کہ لوگ کہیں گے کہ یوٹرن لے لیا۔ سیاست میں پہلا رومانس دو روپے کی روٹی والے اچھے ایڈمنسٹریٹر میاں شہباز شریف سے تھا،پھر خان صاحب کی تبدیلی اور نئے پاکستان کے گرویدہ  ہوئے اور ان ہوش و حواس کے سالوں میں آرمی ہمیشہ نمبر ون محبت رہی۔خدا بھلا کرے یورپی یونین کا جن کے کنسلٹنٹ کے طور پہ پنجاب اسمبلی میں کام کیا تو سمجھ آئی کہ یہ دو روپے کی روٹی اور نیا پاکستان تو محض سراب ہے، دھواں ہے، دھوکہ ہے۔دل ٹوٹا،مایوسی ہوئی مگر اڑے نہیں نہ اڑنے کی کوشش کی۔بس بستہ اُٹھایا،اگلے یوٹرن سے پھر مُڑے اور اب شہبازی پروازیا عمرانی انقلاب متاثر نہیں کرتے۔خاکی وردی سے عشق والا خانہ بھی “خانہ خراب” میں بدل گیا۔

ہمارے ہاں رائے بدلنے کو نامناسب سمجھا جاتا ہے۔ سوشل پریشر اور میڈیا کی کہانی سن سن کے ہم اتنے اڑیل اور پکے ہوگئے ہیں کہ ہم جدھر پانچ سال پہلے تھے آج بھی اُدھر ہی ہیں۔ آپ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو دیکھ لیں، اپنے لیڈران کے گوبر کو کھیر ثابت کرنے کی کوشش کریں گی مگر حرام ہے جو اپنی رائے بدلیں۔مناظرے کریں گے، مگر مناظرے کا مُدعا  فقط اپنی رائے کو درست تسلیم کروانا ہوتا ہے۔ ہر شام ٹی وی  پر تین چار احمقوں کی لایعنی بحث باقی احمق صرف اس وجہ سے دیکھتے ہیں کہ اپنی اپنی رائے پکی کر سکیں۔

بحث یا مثبت تنقید کا چلن ہو تو مسائل کے حل سوجھتے ہیں، کنسنسز پیدا ہوتا ہے مگر بحث کی جگہ مناظرے ہوں تو کٹر مذہبی سیاستدان پیدا ہوتے ہیں۔ہر محفل میں ہر شخص کی یہ کوشش ہے کہ اس کی رائے کو حتمیٰ تسلیم کر لیا جائے، کوئی بشر اپنی رائے کو پرکھنے پہ یقین نہیں رکھتا۔ خدا نے دیکھنے اور سننے کی صلاحیت دی کہ ہم دیکھ اور سُن کے ایمان نہ لائیں، بلکہ دیکھ، سُن اور خدا کے دئیے دماغ سے پرکھ کے رائے قائم کریں اور اگر رائے تبدیل کرنی پڑے تو یوٹرن لیں۔

julia rana solicitors

بڑے ہونے کا صرف مطلب یہ نہیں کہ سال کا ہندسہ بدل جائے،بلکہ اپنے  پچھلے سال کے خیالات،نظریات اور معلومات کو پرکھنے کا نام بڑا ہونا ہے۔مُردے اور بے وقوفوں کے علاوہ ہر بشر رائے بدلتا ہے۔ہم بھی ہر روز اتنا کچھ نیا دیکھتے سنتے   ہوئے اگر پرانی رائے پہ قائم ہیں تو ہمیں یوٹرن بلکہ ڈرفٹ کر کے یوٹرن لینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply