کائنات کی تجلیاں/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

یہ عالمگیر سچائی ہے کہ آسمان نیلا ہے۔اس پر سورج چاند ستارے اور کہکشاؤں کے جھرمٹ ہیں جو صدیوں سے براجمان ہیں۔ محو سفر ہیں نہ وہ تھکتے نہ بیٹھتے نہ آرام کرتے ہیں۔ اپنے اندر جاذبیت اور کشش رکھتے ہیں۔ خدا کا جاہ و جلال ظاہر کرتے ہیں۔کائنات کے حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کے اندر ایک ہی موسم ہے۔ان کی کرامات معجزات کی تاثیر سے بھرپور ہے۔لاجواب اور مافوق الفطرت قوت سے لبریز ہیں۔ وقت کے تابع ہیں۔ جب سے کائنات کا حصہ بنے ہیں۔ایک بار بھی حکم عدولی نہیں کی۔بلکہ ہر دن اور ہر گھڑی اپنے عجائبات کی بدولت انفرادیت کے لباس میں ظاہر ہوئے۔ آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے۔ زمین اس کی حضوری سے معمور ہے۔کائنات کی ایک ایک چیز میں اس کی حکمت ، معرفت اور معجزے سے بھری پڑی ہے ۔ سردیوں کا موسم ہے۔دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں بادلوں کے ساتھ رقص کرتی ہیں۔ ہر سو دھند کا راج ہے۔راتیں تاریکی و سناٹے میں ڈوب جاتی ہیں۔ شام ہوتے ہی زمین کی ہر مخلوق اپنے اپنے گھر کو لوٹ جاتی ہے۔پرندے شور وغل کرتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ کیونکہ گھر ایک فطری آماجگاہ ہےجہاں ہر کوئی سر چھپانا چاہتا ہے۔
اسے سکون کی پرچھائیاں میسر آتی ہیں۔اسی طرح زمین کی ہر مخلوق صبح و شام کے فرق سے واقف ہے۔
بقول شاعر !
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
قدرت کے کارخانے میں عجائبات اور معجزات کا دریا بہتا ہے۔ صبح و شام کا حسین امتزاج ہے۔موسموں کی تغیر پذیری ہے۔ ستاروں کے جھرمٹ ہیں۔سمتوں کی کہانی ہے۔بادلوں کا رقص و سرود ہے۔خاموشی کے سکوت ہیں۔شعو و ہنگامہ کی داستانیں ہیں۔
دن رات کا انتظار کرتا ہے۔ اسی طرح رات دن کا انتظار کرتی ہے۔دونوں بانھیں پھلا کر ایک دوسرے کا استقبال کرتے ہیں۔ سورج صبح سے شام تک محو سفر رہتا ہے۔اسی طرح چاند اتنی مسافت طے کر کے ندی نالوں دریا اور سمندروں میں اپنا عکس منتقل کر کے دلوں میں ارمان پیدا کر جاتا ہے۔
اس کرہ عرض کی ملکوتی صفات اور ناقابل یقین تشدد پر مبنی قصے ہیں۔جن کا بیان و اظہار زمانوں کا امین ہے۔قدرت کائنات کے رنگ رنگ میں جلوہ افروز ہے۔صحت و صداقت کے پرچم ہیں۔ شعور آگاہی ہے۔ حقائق و اثبات ہیں۔دعائیں اور وبائیں ہیں۔سچ اور جھوٹ ہے۔ مکاشفہ اور نبوتیں ہیں۔ گھنے جنگلات اور درندے ہیں۔ ہواؤں اور سمندروں کا شور ہے۔ دولت کے پہاڑ اور غربت کی خاک ہے۔شب و روز کا حسین مکالمہ ہے۔
زندگی کا بہتا دریا ہے۔ودیعت اور عطائیت ہے۔اپنائیت اور دوریاں ہیں۔محبتیں اور نفرتیں ہیں۔اقوام عالم کے درمیان تعلقات و روابط کا سورج طلوع و غروب ہوتا ہے۔ناجانے کیوں اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی میں سماج میں ہنگامے و شور ہے۔ انسان اپنی قدر و قیمت سے بے خبر ریت کے ذروں میں گوندھے ہوئے آٹے کی مانند ہے۔ اس کے اندر خواہشات کے گچھے ہیں۔سیر و اسودگی اس کی ضرورت ہے۔نقل مکانی اس کے منشور میں شامل ہے۔ قدرتی تنوع کے ساتھ اس کے دل میں موسموں کی تغیر پذیری کے لاوے ہیں۔جب وہ شدت اختیار کرتے ہیں تو پھٹ کر باہر آ جاتے ہیں۔طاقت کا عصا صرف غریبوں پر استعمال ہوتا ہے۔ بادشاہ عیاشیاں اور من مانیاں کرتے ہیں۔وہ طاقت اور دولت کے نشے میں مخمور رہتے ہیں۔دنیا کی بھیڑ میں کوئی بادشاہ ، کوئی فقیر ، کوئی مالک ، کوئی نوکر ہے۔عقل و شعور میں کوئی بادشاہ فقیروں سے بدتر ہے۔کوئی فقیر بادشاہ سے افضل ہے۔ متضاد آثار و کیفیات ہیں۔دنیا کی تمام رونقیں، محل، چوبارے ،حویلیاں، مسکن سب روی زمین پر قائم ہیں۔ کائنات کی ایک ایک چیز اس کے ہاتھ کی کاری گری ہے۔ ان میں نظم و ضبط ہے۔ ربط و تسلسل ہے۔عہد و وفا ہے۔ دیدنی و نادیدنی قوتیں ہیں۔ دن ،مہینوں، سالوں اور صدیوں کا سفر ہے۔ آگ اور پانی متضاد ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ دنیا میں کہیں روشنی اور کہیں تاریکی ہے۔
غم کے بادلوں کا رقص ہے۔ خوشی کے موسم پھولوں جیسے ہیں۔ہوائیں شور مچا کر گزر جاتی ہیں۔
طوفان آتے اور چلے جاتے ہیں۔ ان سب میں سندیسہ ہے۔ شور و آگاہی ہے۔ وقت کی پکار ہے۔یوں ساری
کائنات ہم کلام ہو کر کہتی ہے کہ میرے اندر خوشیوں کا ایک سورج ہے۔ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو اس کی تپش سے ہر چیز بڑھنے لگتی ہے۔اس کی روشنی سے چہرے پر خوبصورتی اور پشت پر ثقافتی نشان بن جاتے ہیں۔ لوگ اسے کائنات کا دیوتا مانتے ہیں۔ وہ اسے سجدہ کرتے اور اپنی مرادیں مانگتے ہیں۔حالانکہ وہ تو خود اس کے ہاتھ کی کاری گری ہے۔ اس کی تابعداری میں وقت گزارتا ہے۔
اس کے پاس اڑنے کے لیے پنکھ اور خواب دکھانے کی گرہیں ہیں۔ وہ قوموں، قبیلوں، امتوں، گروہوں، معاشروں کا بہترین دوست ہے۔ لوگ اس سے فیض پا کر اس کی طلب اور شہرت کو پھیلا رہے ہیں۔ اس کی ضرورت اور طاقت دیکھو کہ وہ بے جان ہونے کے باوجود وسائل کی شہ رگ بن جاتا ہے۔ وہ دن کو حکمران بن جاتا ہے ۔رات اس کی آرام گاہ ہے۔چاند ستارے اور کہکشائیں سبھی اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔وہ اپنے اندر روشنی کے ان گنت ذخائر رکھتا ہے۔جو اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوئے۔
الغرض میں صسمان کی تجلیوں کو خدا کے عجائبات ، معجزات اور نشانات سمجھتا ہوں۔اس کی قدوسیت، عالمگیریت اور آفاقیت ناقابل بیان ہے۔انسان ہوتے ہوئے مجھے اس کی شکر گزاری کرنی چاہیے اور یہ بات کہنی چاہیے کہ تو عجیب ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply