اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی۔۔
گاڑی تیزی سے اپنی منزل کو بڑھتی جا رہی تھی ، دائیں بائیں دونوں طرف سبزے کی بہار تھی ، ایسا ہمیشہ سے نہیں کہ یہاں پہاڑوں پر سبزہ آ جائے بلکہ جدہ اور مکہ کے اطراف کے پہاڑ صدیوں سے خشک ہیں ۔ پتھریلے ایسے کہ جیسے منتظر کہ کوئی آئے اور بہار آئے ، لیکن ان کی پیاس بڑھتے ، بھڑکتے صدیاں گزریں ۔ ایسا ضرور تھا کہ انتظار تھا اور پیاس بھی تھی ، یہی تو سبب تھا کہ رسول آخر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ ایک روز بہار آئے گی۔۔فیض نے کہا تھا :
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ سرزمین عرب میں سر سبز شاداب چراگاہیں اور نہریں ہونگی، ایک سوار عراق اور مکہ کے درمیان سفر کرے گا اسے راستہ بھٹکنے کے علاوہ کوئی خوف نہ ہوگا اور ہرج بڑھ جائے گا ۔۔ صحیح مسند احمد
یہ سلسلہ کئی برس سے جاری ہے کہ اب جلد جلد بارش ہوتی ہے اور دو ہزار نو عیسوی میں جدہ میں ایسا سیلاب آیا کہ کئی افراد جاں بحق ہوئے ۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ تب ایک پاکستانی نوجوان فرمان علی خان نے کتنے ہی افراد کو ڈوبنے سے بچایا اور آخر میں وہ مہربان نوجوان خود ڈوب گیا ۔ ان شاءاللہ ہمیں امید ہے کہ اس کی موت شہادت کی موت ہو گی ۔ یہاں جدہ میں اس نوجوان سے منسوب ایک سڑک بھی ہے۔ انہوں نے چودہ افراد کی جانیں بچائیں اور پندرھویں شخص کی جان بچاتے ہوئے وہ سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے۔
ان کی اس قربانی پر سعودی حکومت کی جانب سے ‘کِنگ عبدالعزیز میڈل’ سے نوازا گیا تھا،اور محمد بن سلمان نے ان کے آبائی علاقے میں ان کے نام سے منسوب طبی مرکز بھی قائم کیا تھا ۔ جبکہ اس وقت کے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے انہیں بہادری کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ‘تمغہ شجاعت’ سے نوازا تھا
پہلے یہاں یہ حالت تھی کہ چھ چھ ماہ گزر جاتے یہاں بارش نہ ہوتی اور اب چودہ روزہ سفر میں تین بار ہم نے بارش کو دیکھا ۔ اور یہی سبب تھا کہ دونوں طرف پہاڑوں نے سبز مخملی چادر اوڑ رکھی تھی ۔
اتفاق کی بات ہے کہ آج میں یہ لکھ رہا ہوں اور کل ہی یہ خبر آئی ہے کہ مکہ کے پہاڑوں کا یہ سبزہ مستقل ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ اور یہ خبر مکہ کے گورنر کی طرف سے جاری کردہ اس سرسبز بہار سے بھرے پہاڑوں کی ویڈیو جاری کرنے کے بعد آئی ہے ۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ماحول کی یہ تبدیلی کوئی جھٹ پٹ ہو جائے گی بلکہ
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
والا معاملہ ہوتا ہے ۔ جیسے سرسبز علاقے صدیوں میں ریگستان ہوتے ہیں ویسے ہی یہ بہاریں واپس لوٹتی ہیں ۔ فی الحال تو گندم کی پیداوار میں یہ ریگستانی علاقے خودکفیل ہو چلے ہیں ۔ سن دو ہزار سترہ کی اک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت کے ” اگریکلچر و فارسٹ ڈپارٹمنٹ” نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ سارے حجاز یعنی سعودیہ میں 4 ملین پودے لگائیں گے۔ اور آج اس فیصلے کو چھے برس گزر چکے ہیں ، کہا جا سکتا ہے کہ موسم کی یہ تبدیلیاں اس شجر کاری کے سبب ہوں ۔
کچھ آگے بڑھے تو ہمارے دائیں طرف کچھ فاصلے پر ایک عرب کتنے سارے اونٹ لیے صحرا میں لیے چلا جا رہا تھا ۔
عربوں کی صحرائی زندگی ایک عجیب رومانویت لیے ہوئے ہے ۔ اہل مکہ میں بھی اپنے بچوں کو شیر خواری کی عمر میں دیہاتی علاقوں میں بھجوانے کا رواج تھا یہ رواج صرف بھلائی طبقے یعنی اس دور کی ایلیٹ کلاس تک محدود تھا اور غریب اور مڈل کلاس اس عیاشی کا تصور نہ کیا کرتے تھے یا یوں سمجھ لیجئے یہ سردار گھرانوں کا ذوق تھا ۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد ایک تو یہ ہوتا کہ بچے شہروں سے دور کھلی آب و ہوا میں پرورش پائیں ، یعنی ان کی جسمانی صحت کی بنیاد اچھی بن جائے ۔ دوسرا اہم مقصد یہ بھی ہوتا کہ ان میں عربیت کا ذوق پیدا ہو جائے ۔ شعر و ادب جو اہل عرب کی زندگی کا جزو لا ینفک تھا اسی سے وہ کسی بھی شخص کے علم ذات مزاج اور ذوق کا فیصلہ کیا کرتے اور یہی سبب تھا کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود امی ہونے کے یعنی لکھنا نہ جاننے کے عربی زبان کا بہت اعلی ذوق رکھتے تھے سیدہ عائشہ کی حدیث میں بھی ہے کہ آپ جوامع الکلم تھے۔
جب بنی امیہ اقتدار میں آئے تو ان کا معمول تھا کہ اپنے بچوں کو کچھ وقت اپنے خالص دیہاتی علاقوں میں بھجواتے ، تاکہ وہ روایتی عرب ثقافت سے اچھے طریقے سے آگاہ ہو جائیں ۔
عربوں کی بدوی زندگی میں جہاں شعر کی بہت اہمیت تھی وہیں وہ نثر سے بھی ایسے لاپرواہ نہ تھے لیکن ان کی نثر زیادہ تر قصہ گوئی کے گرد گھومتی ہے ۔ دیگر اصنافِ ادب و علم جیسا کہ تاریخ نویسی ، سائنس وغیرہ میں عربوں کا کوئی خاص کام سامنے نہیں آتا ۔ لیکن اپنی زبان پر فخر اور اس کی نزاکت اور وسعت سے آگاہی نے ان میں یہ تفاخر پیدا کر دیا تھا کہ دوسروں کو عجمی جانتے اور خود کو ان سے بلند تر ۔ یہ بات بہرحال تسلیم کرنے کی ہے کہ سائنس اور دیگر عمرانی علوم میں عربوں کا کام نہ ہونے کے باوجود اپنی زبان کی نثر اور شاعری میں انہوں نے کمال حاصل کیا ۔ عربی شاعری بلاشبہ اس درجہ کمال رکھتی ہے کہ وہ اس پر فخر کر سکیں اور ان کی زبان ایسی طاقت رکھتی ہے کہ وہ دوسروں کو عجمی کہہ سکیں ۔
بات عربوں کے تمدن سے چلی اور ان کی زبان کی طرف چل نکلی ۔وہ اونٹ اونٹوں کو لے جاتا اونٹوں کو چراتا بدو مجھے تاریخ کے اس شخص کی یاد دلا رہا ہے کہ جو بے تکلفانہ مسجد نبوی کے صحن میں آیا اور اسی بے تکلفی سے آ کے پوچھا:
” اے محمد ! بتاؤ اسلام کیا ہے ؟ ” ( صلی اللہ علیہ وسلم )
آپ نے اراکان اسلام اس کے سامنے بیان کیے تو اسی بے تکلفی سے واپس پلٹا یہ کہتے ہوئے کہ “کم کروں گا نہ زیادہ کروں گا” اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ “وہ دیکھو جنتی جا رہا ہے”۔
عرب کے بدویانہ معاشرے کے متضاد پہلو انسان کو حیران کر دیتے ہیں ایک طرف ایسے متشدد کہ حالی نے کہا تھا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
محض اتنی بات پہ کہ میرا گھوڑا پیچھے کیوں رہ گیا ہے دو قبیلوں کی لڑائی ہوتی اور عشروں تک چلتی اور سینکڑوں ، ہزاروں مارے جاتے اور کبھی محض ایک مہمان کی آمد پر اپنا سب سے قیمتی گھوڑا ذبح کر کے اس کے آگے دسترخوان پر سجا دیتے ۔ زبان سے نکلی ایک بات کو پورا کرنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیتے ۔ کسی کو پناہ دینے کا اعلان کرتے تو اس کے پاؤں کے انگوٹھے پر اپنا پورا گھرانہ قربان کر دیتے ۔ ابھی کل کی بات کہ یہی بدو حاجیوں کو لوٹتے تھے واپس پلٹے تو حاجیوں کے پاؤں تلے ہاتھ رکھتے ہیں ۔
سبز پہاڑیوں کے سفر میں اب آگے کتاب والا دروازہ آ رہا تھا ۔۔ جی ہاں یہ مکے کی آمد کا اعلان ہوتا ہے ۔ اسے مکہ گیٹ بھی کہا جاتا ہے ، اچھی خاصی چوڑی موٹر وے پر بنا یہ عظیم الشان دروازہ ہے جس پر کتاب بنائی گئی ہے ، اس سے گزرنے کے بعد یہ احساس انسان کے رگ و پے میں اتر جاتا ہے کہ ہم اس ہوا اور فضا میں داخل ہو گئے ہیں کہ جہاں پاک رسول کے نقش قدم ہیں ، جہاں آپ کی سانسوں کی خوشبوؤں سے اک جہان آباد ہے ، جہاں کے پتھروں پر ممکن ہے ابھی بھی وہ دکھ تکلیفیں کسی حساب کی کتاب کے طریق پر درج ہوں کہ جو ہماری آخرت واسطے اس عظیم الشان انسان نے اپنے وجود پر برداشت کیں ۔۔۔
تیری خوشبو مری سانسوں میں بسانے آئے
دل کی دنیا میں بہاروں کے زمانے آئے
سبز پتھریلے پہاڑوں کے بیچ میں اب ہماری نظریں کلاک ٹاور کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ معاملہ یہ ہوا کہ اس سے پہلے انسان پہاڑوں سے گزرتا یک بارگی مکے کی آبادیوں میں داخل ہوتا ، اپنی قیام گاہ پہنچتا پھر حرم جاتا ۔۔ اب بھی ایسا ہی ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ انسان سیدھا حرم پہنچے لیکن جب سے کلاک ٹاور بنا ہے تب سے یہ حرم کے آ جانے کی نشانی بن گیا ہے ۔ اس کو دیکھتے ہی احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ حرم کے قریب بلکہ سامنے ہیں ، اپنی بلندی کے سبب دور سے دکھائی دیتا ہے جب ابھی مکہ شہر کے نواح ہوتے ہیں ۔ گھومتے مڑتے راستوں کے سبب یہ کچھ وقت آنکھ مچولی کا ماحول رہتا ہے کہ کبھی یہ ٹاور دکھائی دیتا ہے اور کبھی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ آپ بھری پری آبادی میں داخل ہو جاتے ہیں ۔
سو ہم بھی اسی آنکھ مچولی کے بیچ مکہ کی سڑکوں سے گزرتے اپنے ہوٹل جا پہنچے ۔ یہ انٹر کانٹی نینٹل گروپ کا پنج تارہ ہوٹل تھا۔ ووکو ہوٹل ۔ جو ایک پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے شاہراہِ ابراہیم خلیل پر واقع ہے۔ایک دوسرے سے متصل اس کی نو عمارتیں ہیں ، جن کو الگ الگ نمبر دیے گئے ہیں اور ٹاورز کہہ کے شناخت کی جاتی ہے ۔ کاؤنٹر پر خوش اخلاق عملہ تھا ، اس عرب نوجوان نے بہت اچھے طریقے سے ہمیں ہمارا کمرہ بک کر کے دیا اور خدمت گار کو سامان اٹھانے کا کہا ۔۔ یہ بنگالی نوجوان تھا ۔ ہمیں چھے نمبر ٹاور کی پینتیسویں منزل پر کمرہ الاٹ کیا گیا جو ہوٹل کی سب سے بالائی منزل تھی ۔ لفٹ کی رفتار حیران کن تھی اور کمال یہ کہ لفٹ میں بیٹھے یہ ہرگز معلوم نہ ہوتا کہ کس تیزی سے آپ “عالم بالا ” کی طرف گامزن ہیں۔
کمرے میں داخل ہوئے ، اجلے ، سفید نرم اور بہت اچھے صاف ستھرے بستر ، بہت اچھا کمرہ اور سہولیات سے مزین ، سفر کی تھکان دور کرنے کے لیے یقیناً نعمت خداوندی تھا ۔ سامان رکھا اور دراز ہو گئے ۔۔۔ مغرب کی نماز میں کچھ وقت رہتا تھا سو ارادہ کیا کہ مغرب کی نماز حرم میں ادا کی جائے ۔۔۔ بارہ برس بعد۔۔۔ ایک طویل انتظار کے بعد
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں