زندگی کیا ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ زندگی میں انسان کیوں داخل کیا گیا ہے؟ کیا یہ زندگی کسی مقصد کے حصول کے لیے دی گئی ہے؟ زندگی کی گہما گہمی کہیں انسان کو اس مقصد سے غافل تو نہیں کر رہی جس مقصد کے لیے اسے زندگی دی گئی ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو ایک باشعور زندگی گزارنے والے کے گوشہ خیال میں گاہے گاہے گونجتے رہتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اِنسان کے علاوہ ہر دیگر مخلوق اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہ ہے۔ وہ اپنے پیدا ہونے اور مرنے کے درمیان میں کوئی ایسا کام نہیں کرتی جو اسے کسی پشیمانی میں مبتلا کرے۔ باالفاظِ دیگر گناہ اور غلطی کا تصور شاید صرف حضرتِ انسان ہی کے پاس ہے۔ شاید اس لیے کہ اختیار کی دولت صرف انسان کے پاس ہے۔ یہ اختیار ایک بے مقصد اور با مقصد زندگی کا انتخاب کرنے کا اختیار ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جہاں تک اختیار ہے، وہاں تک جواب دہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انسان کی زندگی صرف وہیں تک ہے، جہاں تک اس کا اختیار ہے۔ اختیار کے باہر ساری زندگی اُس کا ایک منظر نامہ ہے۔۔۔ایک خبرنامہ، یا منظر نامہ جسے انسان دیکھ سکتا ہے لیکن اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ جتنا بڑا اختیار، اتنی بڑی زندگی اور اتنی ہی بڑی جواب دہی!
اگر کوئی انسان کسی ماورائی مذہب پر یقین نہ بھی رکھے تو وہ خود اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہے۔ انسان خدا سے مخاطب ہونے سے پہلے خود سے مخاطب ہوتا ہے۔ جب تک وہ خود کو مطمئن نہ کر لے، خدا کے حضور سرِ تسلیم خم نہیں کرتا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے انسان نے سب سے پہلے خود اپنے باطن پر ایمان لانا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اسے دوئی میں کسی خدائی ہستی کی ضرورت پیش آتی ہے جس کی وہ بندگی اختیار کرے۔ مستند حدیث ہے۔۔۔”جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔“ حیا انسان کے اندر ہوتی ہے۔
جو اپنے ضمیر کی عدالت کھڑا نہ ہوا، وہ کسی دین مذہب اور معاشرے کی عدالت کی توقیر نہ کرے گا۔ خوف کے مارے اطاعت، صرف قانون کی اطاعت ہوتی ہے۔ شوق کی اطاعت بندگی کہلاتی ہے۔ بندہ اور رب۔۔۔اور رب اور بندہ۔۔۔جہاں یہ بندھن قائم ہو گیا، وہیں مقصدِ حیات واضح ہونا شروع ہو گیا۔ ایک بندہ اور ایک خدا … یہی یکتائی مطلوب ہے۔۔۔تاکہ تنہائی کا ایمان بیدار ہو جائے … معاشرے کو دکھانے والی ”نیکیاں“۔۔۔مبنی بر منافقت نیکیاں بھسم ہو جائیں۔ صد شکر کہ دین اخلاص کا تقاضا ہے۔ اخلاص ہی دکھاوے کی زندگی سے خلاصی دیتا ہے۔ دین سچا دین ہے۔۔۔سچے بندے کی تلاش میں ہے۔ سچا دین سچے بندے کے لیے ہے۔ سب سے پہلا سچ انسان اپنے ساتھ بولتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ جھوٹ بولنے سے پہلے انسان اپنے ساتھ
جھوٹ بول چکا ہوتا ہے۔ دوسروں کو دھوکا دینے سے پہلے انسان خود کو دھوکا دے چکا ہوتا ہے۔
زندگی میں مقصد کی تلاش ایک سچے انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ جھوٹے انسان کی تلاش بھی جھوٹی ہوتی ہے۔ وہ خدا کے نام پر دنیا تلاش کرتا ہے۔۔۔اور یہ دنیا کبھی شہرت، کبھی دولت اور کبھی عورت کی شکل میں جب اس کے سامنے سے گزرتی تو وہ اپنی ”منزلِ مقصود“ تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔اور اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ کر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ سنگت، ہم سفر، راہبر۔۔۔عزیز، رشتہ دار، بھائی بہن، بیوی بچے۔۔۔سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ اس کی نگاہیں تو کسی ”آسمان“ پر ہوتی ہیں لیکن پاؤں زمین سے اکھڑ چکے ہوتے ہیں۔ وہ گھر کا رستہ بھول چکا ہوتا ہے۔ کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے بھاگنے والا کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔
منزل کسی حاصل وصول کا نام نہیں۔۔۔منزل تو بس منزل کی جانب سفر میں قائم رہنے کا نام ہے۔ ہر منزل ایک نشانِ منزل ہوتی ہے۔ اہل نظر قبلہ کو قبلہ نما کہتے ہیں۔ جو حاصل ہو جاتا ہے، وہ خدا نہیں ہوتا۔ حاصل ہونے والی چیز کو دنیا کہتے ہیں۔ خدا ماورا ہوتا ہے اور ہمیشہ فہم و آگہی کی ہر منزل سے ماورا رہتا ہے۔ جو مخلوق کی فہم کی زد میں آ جائے، اسے خدا نہیں کہتے۔ وہ ذات جو لامحدود ہے، اس کی طرف سفر بھی لامحدود ہو گا۔ حاصل ہو جانے والی منزل کا سفر محدود ہوتا ہے۔ محدود سفر کا پڑاؤ کسی محدود منزل پر ہوتا ہے۔ لامحدود کی جستجو کے لیے ایک زندگی ناکافی ہے۔۔۔اس کے لیے ایک اور زندگی بھی درکار ہے۔۔۔ایسی زندگی جو کبھی ختم نہ ہو۔ محدود اگر خود کو ”لا“ کر سکے تو لامحدود سفر کا اہل ہو سکتا ہے۔ خود سے خود کو نکالنے کا سفر ہی خدا کی طرف سفر کی دلیل ہے۔ ”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”۔۔۔جس نے خود کو پہچانا، پس اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ خود کو پہچاننے کے لیے خود پر غالب آنا ضروری ہے۔ مغلوب غالب کو نہیں پہچان سکتا۔ بقول اقبال۔۔۔خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے۔
نفس کو پہچاننے کے لیے نفس کا تزکیہ ضروری ہے۔ ایک مزکی نفس ہی خود کو پہچان سکتا ہے۔ مزکی نفس مثل آئینہ ہے۔ کوئی آئینہ یا آئینہ رو اصل اور عکس کے درمیان ایک معنوی رابطہ ہے۔۔۔یہی رابطہ پہچان میں مدد دیتا ہے۔ انسان زندگی کی بے مقصدیت کو دریافت کرتا ہوا اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر دولت، شہرت اور دیگر لذاتِ دنیا کی بے مقصدیت قبل از وقت انسان پر آشکار ہو جائے تو وہ بروقت اپنے اصل مقصد کی طرف راہ پا لیتا ہے۔ ظاہر سے نکلنے والا باطن کی طرف نکلنے کی کوئی راہ ضرور دریافت کر لیتا ہے۔ اس راہ کو دریافت کرتے ہی اس پر وہ لوگ آشکار ہو جاتے جو اس راہ کو پہلے ہی دریافت کر چکے ہیں۔ اس راہ کی طرف ہدایت پانے والوں کو انعام یافتہ کہا گیا ہے۔ نعمت یافتہ اور انعام یافتہ میں فرق ہوتا ہے۔ نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا۔۔۔اور انعام ایک فضلِ خداوندی ہے۔ وہ جسے چاہے اپنے فضل میں شامل کرے … فضل یافتگان میں شامل کرے۔ یہ اس کے راہبر ہیں، یہی ہم سفر ہیں۔۔۔اور انجامِ کار یہی حاصلِ سفر!!
تزکیہ نفس کے لیے کسی ذی نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتاب تزکیہ نہیں کرتی۔ کتاب تزکیہ شدہ کا راستہ دکھاتی ہے۔ کتاب صاحبِ کتاب تک لے جاتی ہے۔۔۔اور پھر کتاب کا صاحب جانتا کہ تازہ کتاب کیسے لکھنی ہے۔ یوں بھی اپنی کتاب پڑھنے کا حکم ہے!!
اختیار ملنے کے بعد بے اختیار ہونے والا کم ظرف ہوتا ہے۔ مقصد کی تلاش اور حصولِ مقصدِ حیات کسی کم ظرف کی استعداد نہیں۔ ایک بااختیار انسان جب برائے خدا اپنے اختیار کو تج کرتا ہے۔۔۔تو یہ اسے ضبطِ نفس کی دلیل ہوتی ہے۔۔۔یہی اس کے متقی ہونے کی سند بھی ہوتی ہے۔۔۔اور از روئے قرآن، صاحبِ تقویٰ ہی صاحبِ عزت و تکریم ہوا کرتا ہے۔
باطن میں غوطہ زن ہوئے بغیر ہم باہر کسی ایسے مقصد کی دریافت نہیں کر سکتے جو خدا تک رسائی دے سکے۔ باہر خدائی ہے، خدا اندر ہے۔ مقصد کی دریافت ایک ذاتی جستجو ہے۔ ذات کی ذات تک رسائی ہی مقصدِ حیات ہے۔۔۔یہ نہ ہو تو باہر دائرہ ِ صفات ہے۔۔۔جس سے نکلنا محال ہے۔ باہر کثرت ہے۔۔۔وحدت اندر ہے۔ وحدتِ ذات سے آشنائی ہی ذاتِ واحد سے شناسائی کی کلید ہے۔ یہ ون ٹو ون ملاقات ہی مقصدِ حیات سے تعارف دیتی ہے۔ وحدتِ ذات وحدتِ مقصد سے متعارف کراتی ہے۔
زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔۔۔کیونکہ وہ سب کے سب اپنے مقصدِ تخلیق سے آگاہ ہیں۔۔۔انہیں غافل ہونے کا اختیار نہیں۔ انسان غافل ہو جاتا ہے۔۔۔اس لیے وہ اہلِ تسبیح میں شامل نہیں ہو رہا۔ وہ اَوراد و وظائف تو خوب گن گن کر کرتا ہے۔۔۔کہ ان کا مقصد کسی ظاہری مقصد کا حصول و وصول ہوتا ہے، لیکن وہ تسبیح کے حال میں شاملِ حال نہیں ہوتا۔

قرآن کریم میں ہے کہ ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس کی تشریح صاحبِ کشف المحجوب حضرت علی بن عثمان الہجویریؒ یوں کرتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ ”اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا“۔ گویا غایتِ عبادت معرفتِ الٰہی ہے۔ درِ علم حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے: ”وہ عبادت فایدہ نہیں دیتی جو تمہاری معرفت میں اضافہ نہیں کرتی۔“ گویا مقصدِ حیات عبادت ہے لیکن مقصدِ عبادت معرفت ہے۔ مقصدِ تخلیقِ کائنات بھی یہی ہے خالقِ کائنات کو پہچانا جائے۔ حدیثِ قدسی ہے”میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے خلق کو تخلیق کیا۔“ غایتِ تخلیق جہاں، خالقِ جہان کی پہچان ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں