مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم /سلیم زمان خان

( مولودِ کعبہ کی خدمت میں خراج عقیدت )

جب ابراہہ نے کعبہ کو منہدم کرنے کی کوشش کی اور اس پر ہاتھیوں سے حملہ کیا ،اور خدا نے ابراہہ کو شکست دی تو یہ اللہ نے اپنے گھر کو اس لئے بچایا کہ یہاں پر اللہ نے رحمت العالمین  ﷺ کو مبعوث کر کے اہل زمین پر احسان کرنا تھا۔  یہ قریش کی وجہ سے نہیں بچایا گیا تھا بلکہ قریش کو سمجھایا گیا تھا کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور اسے پاک رکھیں۔۔ یہی وجہ بنی کہ حضرت عبدالمطلب کی بہو اور حضرت ابو طالب کی زوجہ محترمہ جب امید سے ہوئیں تو اس بچے کے موقع پر انہوں نے ایک عجیب منت مانی اور وہ یہ کہ اس بچے کو وہ کعبہ میں پیدا کریں گی۔  یہ اس بات کی علامت تھی کہ یہ بچہ اللہ کے نام نذر کر دیا گیا ہے۔  حالانکہ اس وقت کا کعبہ 360 سے زیادہ بتوں کا گھر تھا  اور شرک و بت پرستی کی وجہ سے بیت اللہ سے زیادہ  بت خانہ تھا، لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے قریش اور بنو ہاشم یہ معجزہ دیکھ چکے تھے کہ اللہ نے شرک اور بت پرستی سے لت پت کعبہ کی حفاظت ہاتھی والوں سے کس طرح فرمائی۔ حضرت ابو طالب کے یہ فرزند ارجمند جو کعبہ میں مولود ہوئے ان کا نام علی ابن ابی طالب رکھا گیا۔  قریش اور بنو ہاشم اس بات پر نازاں تھا کہ یہ بچہ مولود کعبہ ہے، جبکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس بچے کی اصل خوش قسمتی پیدا ہونے کے بعد شروع ہو گی کیونکہ اس بچے کو اللہ کے آخری رسول اور محبوب نبی کریمﷺ اپنی زیر سرپرستی پروان چڑھائیں گے۔ اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی آغوش بھی میسر ہو گی۔۔ کہنے کو تو یہ چچا زاد ہوں گے لیکن پرورش بیٹے کی طرح ہو گی۔

کیونکہ جب شیر خدا پیدا ہوئے تو ان کی والدہ، انھیں رسول اللہ کی خدمت میں لائیں۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے شیرِ خدا کو اپنی آغوش میں لے کر چوما، پھر کبھی حضور ان کے گہوارہ کے پاس بیٹھ کر آرام سے گہوارہ کو ہلاتے رہتے تھے ،یہاں تک وہ سوجاتے،کبھی کبھی انھیں نہلاتے تھے، اور دودھ پلاتے تھے اور کبھی ان کو اپنے سینے سے لپٹا کر ان سے گفتگو کرتے رہتےتھے۔

” ان دنوں رسول خدا گوشت اور خرما کو اپنے دہان مبارک میں چبا کر نرم کرتے تھے تاکہ اسے آسانی سے کھایا جائے، اس کے بعد حضرت علی کے منہ میں ڈالتے تھے”تاکہ انہیں کھانے میں دشواری نہ ہو۔ اور پرورش بھی ایسی کہ ابھی عمر مبارک بارہ سال نہیں ہوئی تھی   کہ آپ جب نبی کریمﷺکے ہمراہ ان کی انگلی تھامے کہیں جاتے تو راستے میں آنے والے پتھر اور درخت پودے جب نبی کریمﷺ کو سلام عرض کرتے تو معصوم حضرت علی انہیں سنتے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ۔‘‘( ترمذی، ) آپ اور ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کو پتھر یا شجر کا کلام سننے جیسی لطافت نصیب ہو ۔۔ یہ کاشانہ نبوت کا اعجاز تھا جہاں وہ پل رہے تھے اور کیسی خوش قسمتی کہ خدا کے گھر پیدا ہوئے اور محبوب خدا کے گھر پرورش پائی ۔

ایک مرتبہ مجھے علامہ طاہر القادری کا بیان سننے کا موقع ملا جس میں انہوں نے کہا کہ “میں اکثر سوچتا کہ علی کی ولادت کعبہ میں کیوں ہوئی۔۔۔ لیکن جب ان کا رشتہ نبی کے گھر ہوا تو مجھے سمجھ آئی کہ دولہا اللہ کے گھر کا ہو تو نبی کے گھر کی دلہن کو زیب دیتا ہے” لیکن میں اس سے ایک قدم آگے کی بات کہنے کی جسارت کروں گا  کہ جس وقت حضرت علی کی ولادت ہوئی کعبہ بت خانہ تھا ۔۔ اور اگر اللہ کے رسول آکر اسے قبلہ نہ بناتے تو وہ بت خانہ ہی رہتا۔

ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ
لَوْلَاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

لیکن قرآن مجید انبیاء کے گھر اور ان کی بیٹیوں کے رشتے کی شان اور اصول بیان فرماتا ہے۔ کہ جب موسی علیہ السلام مدین میں شعیب علیہ السلام کے گھر رُکے تو انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت موسی علیہ السلام سے کرنے کے لئے 10 سال حضرت شعیب علیہ السلام کے زیر تربیت خدمات انجام دینا حق مہر مقرر فرمایا۔ جسے موسی علیہ السلام نے قبول کیا۔۔ لیکن نبی کریمﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی 22 سال تک پرورش فرمائی   اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ لیا۔  اس قدر رنگ چڑھا کہ اللہ کریم نے بروز ہجرت اپنے محبوب کے بستر پاک پر سیدنا علی کو سلایا   اور کفار صبح تک نہ جان سکے کہ بستر پر کون سویا ہے۔۔ جاتے ہوئے آقاﷺنے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ صبح یہ امانتیں دے کر میرے پاس آجانا۔  حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس رات بے فکری سے سوئے کہ اس رات کی صبح یقینی ہے ۔ کیونکہ محبوب خدا فرما گئے  تھے کہ صبح امانتیں دے کر میرے پاس چلے آنا۔  آپ کرم اللہ وجہہ امانتیں لوٹاتے ہوئے مکہ سے نکلے اور پیدل ہی مدینہ پہنچ گئے ۔ نہ کوئی زاد راہ نہ کوئی سواری ( یہ حضرت موسی علیہ السلام کی طرح بے یارو مددگار اور بھوکا پیاسا مدین تک سفر کی دوسری سنت کا پورا کرنا تھا) جب آپ لہو لہان پیروں اور لاغر بدن کے ساتھ مدینہ ایک صحابی کے یہاں ٹھہرے تاکہ حالت سنبھلے تو آقاﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں تو، اس سے قبل ہی آقا کریمﷺ خود ملنے چلے آئے۔ حالت دیکھی تو آنکھوں میں آنسو آئے ،پوچھا،علی !  سواری لے کر آتے۔ تو مولا علی پیکر تسلیم  و رضا کہنے لگے۔۔ آقاﷺ آپ نے ارشاد فرمایا تھا امانتیں دے کر سیدھا آجانا ۔ آپ سواری کا حکم فرماتے تو میں سواری یا زاد راہ کا انتظام کرتا۔۔ آقاﷺنے ان کے پیروں پر اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کے جسم و جاں کے زخم بھر گئے ( ضیاء النبی)۔۔ جب عمر مبارک 22 یا 24 سال ہوئی  تو نبی کریمﷺ نے جود و سخا کا ایک اور باب وا کر دیا اور اپنے نور خاص یعنی خاتون جنت مولا علی کے عقد میں عطا فرما دی۔  کہاں حضرت موسی علیہ السلام کہ 10 سال کی خدمت ایک نبی کی بیٹی کاحق مہر تھی اور کہاں مقام مولا علی کہ 22 سال بیٹے کی طرح امام الانبیاء نے پالا۔

یہ داماد و سسر کا معاملہ بھی عجیب تھا۔۔جتنے دن داماد کے گھر فاقہ ہوتا ،سسر بھی فاقے سے ہوتے ۔ سسر اگر فاقوں پر ہوتے تو داماد کے گھر بھی پانی سے گزارہ ہوتا۔۔ ایک روز تین دن بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مزدوری ملی تو آپ گھر کے لئے کھانا لائے۔ حضرت خاتون جنت آدھی روٹی بچا کر اپنے والد کے لئے لے آئیں ۔۔ تو آنکھ میں آنسو بھرے کہنے لگیں کہ بابا، جب افطار کی روٹی کھائی  تو آپ کی یاد آ گئی کہ شاید آپ نے کھایا نہ ہو۔ اس لیے  آدھی روٹی دوپٹے سے باندھ کر لے آئی  ہوں، روٹی دیکھ کر ہمارے نبیﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے  اور کہا اے فاطمہؓ اچھا کیا جو روٹی لے آئی  ورنہ چوتھی رات بھی تیرے بابا کی اسی حالت میں نکل جاتی ! دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کے رونے لگتے ہیں۔

اسی طرح احادیث کی کتب میں ایک واقعہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے ۔۔ کہ حضور نبی رحمت ﷺ کے کاشانہ اقدس میں تنگی کے کچھ دن آئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ روز سے فاقہ سے ہیں۔تو آپ رضی اللہ عنہ کام کی تلاش میں نکلے تاکہ اس سے کچھ کما سکیں اور بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کر سکیں تو آپ رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس سے ہر ڈول کے بدلے ایک سب سے بہترین کھجور کی مزدوری پر سترہ ڈول پانی نکال کر اس کے باغ کو پلایا اور یہودی نے آپ کو کھجوریں لینے میں اختیار دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے سترہ سب سے اچھی کھجوریں لیں اور وہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا ابو حسن یہ کہاں سے لائے ہو تو آ پ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مجھے پتا چلا تھا کہ آپ کےکاشانہ اقدس میں کچھ تنگی ہے تو میں مزدوری کے لیے گھر سے نکلا تاکہ اسے آپ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کر سکوں تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کی محبت نے اس کام پہ ابھارا تھا؟ عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ ﷺ۔ کہا جاتا ہے اس پانی کے ایک ڈول کو ایک اونٹ کھینچ سکتا تھا جسے اکیلے مولا علی نے رات بھر کھینچا اور آقاﷺ کی فاقے کی افطار کا انتظام کیا۔۔ یہ بھی نبی کریم کی محبت اور حضرت علی سے روحانی لگاؤ تھا ۔۔ کہ اپنی کیفیت کا کشف حضرت مولا علی کو عطا فرمایا تاکہ ان کی پاک کمائی سے کھانا تناول فرمائیں۔

حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو غزوہ خیبر کے موقع پر آشوب چشم کی وجہ سے مدینہ میں آرام کی غرض سےچھوڑ کر اسلامی لشکر خیبر آیا تھا  لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مولا علی اور آقاﷺ دو جسم ایک جاں ہیں، جب دل کا دل سے بلاوا آیا تو انہی دکھتی آنکھوں سے اونٹ پر سوار ہوئے اور اونٹ کا رخ خیبر کی طرف کر کے اسے ایڑ لگا دی اور راتوں رات خیبر پہنچ گئے۔۔ صبح کو اعلان ہوا کہ جس کو جھنڈا ملے گا اس کے لئے تین بشارتیں ہیں ۔
(۱) وہ اللہ و رسول کا محب ہے۔
(۲) وہ اللہ ورسول کا محبوب ہے۔
(۳) خیبر اس کے ہاتھ سے فتح ہوگا۔

لیکن صبح کو اچانک یہ صدا لوگوں کے کان میں آئی کہ علی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ  علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ان کو بلایا اور ان کی دکھتی ہوئی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا اور دعا فرمائی تو فوراً ہی انہیں ایسی شفا حاصل ہوگئی کہ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ۔ پھر تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اپنا علم نبوی جو حضرت اُمُ المؤمنین بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی سیاہ چادر سے تیار کیا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں عطا فرمایا۔۔(زرقانی ج۲ص۲۲۲ )
اور ارشاد فرمایا کہ تم بڑے سکون کے ساتھ جاؤ اور ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دواور بتاؤ کہ مسلمان ہوجانے کے بعد تم پر فلاں فلاں اللہ کے حقوق واجب ہیں ۔ خدا کی قسم!اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری بدولت اسلام قبول کرلیا تو یہ دولت تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہترہے (بخاری ج۲ ص ۶۰۵غزوۂ خیبر )
حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ’’قلعہ قموص‘‘ کے پاس پہنچ کر یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے اس دعوت کا جواب اینٹ اور پتھر اور تیرو تلوار سے دیا۔ اور قلعہ کا رئیس اعظم ’’مرحب‘‘ خودبڑے طنطنہ کے ساتھ نکلا۔ سر پر یمنی زرد رنگ کا ڈھاٹا باندھے ہوئے اور اس کے اوپر پتھر کا خود پہنے ہوئے رجز کا یہ شعر پڑھتے ہوئے حملہ کے لئے آگے بڑھا کہ ؎ ؎

قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّیْ مُرَحَّبٗ
شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّبٗ

(خیبر خوب جانتا ہے کہ میں ’’مرحب ‘‘ہوں ، اسلحہ پوش ہوں ، بہت ہی بہادر اور تجربہ کار ہوں ۔)

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں رجز کا یہ شعر پڑھا ؎

اَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ اُمِّیْ حَیْدَرَہٗ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہٗ

(میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر(شیر) رکھا ہے۔ میں کچھار کے شیر کی طرح ہیبت ناک ہوں۔) مرحب نے بڑے طمطراق کے ساتھ آگے بڑھ کر حضرت شیرخدا پر اپنی تلوار سے وار کیا مگر آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایسا پینترا بدلا کہ مرحب کا وار خالی گیا۔ پھر آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر اس کے سر پر اس زور کی تلوار ماری کہ ایک ہی ضرب سے خود کٹا، مغفرکٹا اور ذوالفقار حیدری سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور تلوار کی مار کا تڑاکہ فوج تک پہنچا اور مرحب زمین پر گر کر ڈھیر ہوگیا۔(مسلم ج ۲ ص ۱۱۵ و ص ۲۷۸ )
مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اس کی تمام فوج حضرت شیرخدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر گرتی تھی جس سے صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں ۔ اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر مرحب، حارث، اسیر، عامر وغیرہ کٹ گئے۔ اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر قلعہ قموص کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بناکر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔ یہ کواڑ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ بعد کو چالیس آدمی اس کو نہ اٹھا سکے۔(زرقانی ج ۲ص۲۳۰)
حافظ رجب الکرسی لکھتے ہیں۔۔
” جبرائیل علیہ السلام نے آقاﷺ سے عرض کی کہ “آج جب علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ضرب چلائی اور اللّہ نے مجھے حکم دیا کہ ان کی تلوار کا کونہ پکڑ لوں تا کہ ان کی تلوار اس ثور تک نہ پہنچ جائے جس نے زمین کے بوجھ کو اٹھا رکھا ہے تاکہ زمین پلٹنے سے محفوظ رہے۔چنانچہ میں نے حکم الہی سے علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار کا کونہ پکڑ لیا تو اس کا وزن مجھے قوم لوط کے شہروں سے بھی زیادہ محسوس ہوا اور عجیب بات یہ ہے کہ اسرافیل اور میکائیل نے بھی علی رضی اللہ تعالی عنہا کے بازو کو ہوا میں پکڑا ہوا تھا۔”

یہاں پہنچ کر کچھ اہل علم کے دماغ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کہ ایسا کیونکر ممکن ہے۔ کہ حضرت علی کی تلور کی کاٹ زمین کو کاٹ کر الٹا نہ دے اور کس طرح سے حضرت علی نے بطور ڈھال قلعہ کا دروازہ اٹھا لیا۔۔ تو آج کی سائنس کے پاس اس کا جواب کاردشیف اسکیل ( روسی سائنسدان نے تہذیبوں کا ایک موازنہ پیش کیا ہے)جس میں تہذیبوں کی طاقت اور اختیار میں یہ ہے، کہ کس طرح ٹائپ ون اور دیگر سوالازائشن کے افراد کی طاقت ہوتی ہے اور وہ کیا کیا کر سکتے ہیں ۔۔ کہ وہ ستاروں میں تبدیلی تک کر سکتے ہیں۔۔ اور قران میں اس کی سند حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی آصف بن برخیا کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے اجازت ملنے پر ملکہ بلقیس کا تین منزلہ تخت 2 ہزار کلومیٹر سے پلک جھپکتے حاضر کر دیا۔۔
ترجمہ:جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ، جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری،( النمل)

یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی اور تورات کے مطابق یہ وہاں مذہبی گیت گایا کرتے تھے۔۔ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی اس تخت خو جسے قرآن نے بڑی عظمت والا یعنی “بہت بڑا” کہا ہے،پلک جھپکتے لا سکتے ہیں تو ۔۔ امام الانبیاء کے صحابہ کرام کا مقام کیا ہو گا کیونکہ کاردشیف اسکیل کے مطابق (آقاﷺ اور صحابہ کرام ایک طاقتور ترین طبقہ تھا) ۔ اور پھر نبی کریمﷺکے اہل بیت کا مقام کیا ہو گا۔۔ خیبر کے روز تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی اجازت اور دعا بھی آپ کے ساتھ تھی۔ آپ تو اس روز پوری کہکشاں بھی الٹ سکتے تھے۔۔ کہتے ہیں کہ خیبر کی جنگ کے بہت سال بعد جب مولا علی کی عمر مبارک 55 یا ساٹھ سال کے قریب تھی تو کوفہ میں ایک کوفی مسلمان کو فاتح خیبر کی جھلک دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔۔ اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھنے آیا ۔ جب نظارہ کر رہا تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اخروٹ تناول فرما رہے تھے۔۔ اور آخروٹ دانتوں میں پھنس کر ٹوٹ نہیں رہا تھا اور آپ زور لگا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ کوفی نوجوان مسکرا پڑا۔۔کہ یہ وہ فاتح خیبر ہیں جنہوں نے تلوار کا وار روکنے کے لئے دروازہ اکھیڑ کر ڈھال بنا لیا تھا۔۔ مولا علی کشف القلوب کے شہنشاہ اس کے دل کی بات سمجھ گئے۔۔ اور اخروٹ کو منہ سے نکال کر منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نوجوان سے گویا ہوئے۔۔کہ ” اے نوجوان!!! کیوں تعجب کرتے ہو۔۔ اگر کوئی خیبر ہے تو پھر سے لاو اور پھر تماشہ دیکھو” کیونکہ جب خیبر ہو گا تو پھر علی نہیں شیر خدا ہو گا۔
جب نبی کریمﷺ حج سے واپس ہوئے تو غدیر خم میں کچھ لوگوں نے حضرت علی کی شکائتیں کیں ،آقاﷺ کے چہرے اقدس کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے فرمایا
“براء بن عازب سے روایت ہے ہم رسول اکرم ﷺ کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور رسول اکرم ﷺ کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ ﷺ نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے۔‘‘( احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 281)‘ ميں حضرت براء بن عازب رضي اللہ عنہ سے يہ حديث دو مختلف اسناد سے بيان کي ہے۔)

لوگ اسے خلافت ارضی کا اشارہ سمجھتے ہیں۔۔ جبکہ اس حدیث پاک کے الفاظ ” مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه” یعنی ” جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے” سے مراد جب تک آقاﷺ مومنین کے مولا ہیں یعنی اس روز تک جب آخری امتی بھی جنت میں داخل نہ ہو جائے۔۔ تب تک مومنین اور آقاﷺ کو مولا جاننے والوں کے مددگار حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔۔ یہ روحانی خلافت کا اعلان ہے۔۔ جو زمان و مکاں سے آزاد ہے۔۔ اور آقاﷺ کی حدیث جس کا ایک حصہ یہ ہے کہ میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ تو یہ علم کا شہر تا قیامت ہے اور داخلہ کا راستہ صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات پاک ہے۔۔

جب حضرت موسی علیہ السلام اپنے نوجوان شاگرد حضرت یوسف بن نون جو موسی علیہ السلام کےبعد میں نبی بنے۔ کے ہمراہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی غرض سے روانہ ہوئے اور ایک مقام پر آرام کرنے کو استراحت فرمائی تو حضرت یوشع بن نون سے بھول چوک ہو گئی اور ان کے کھانے کی مچھلی دریا میں چلی گئی اور آپ حضرت موسی علیہ السلام کو بتانا بھول گئے۔۔ مگر مجال ہے جو آقاﷺ کے آرامکے وقت حضرت علی کو کسی بھی فکر نے بھول چوک پر آمادہ کیا ہو۔ اور آپ اس چہرہ اقدس کا دیدار بھی کر تے رہے جس کا دیدار اللہ فرماتے ہیں۔۔ یعنی اس وقت آقاﷺ کے چہرہ اقدس کا دیدار دو ہستیاں فرما رہی تھیں یعنی خالق اور مولا علی۔۔ اس صورت میں ایک لمحے کو بھی آپ نہی چوکے کسی سوچ سے یا کسی بھی بشری کمزوری سے کہ کہیں آقاﷺ کے آرام میں خلل نہ اجائے۔۔

ایسے لطف وکرم اور انعام کے بعد کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ جب آقا کریمﷺ حضرت علی کی گود میں سر رکھ کر سو رہے ہوں گے تو انہیں یہ فکر ہو گی کہ آقاﷺ کی نیند کی وجہ سے ان کی نماز قضانہ ہو جائے؟؟ ایک بار ابوہریرہ نے جذب و مستی میں جھوم کر مدینہ کی گلیوں میں آوازیں لگانی شروع کر دیں ۔۔۔
” حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہے تھے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کرحضوررسالت مآبؐ کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول یارسول یارسول اللہؐ ابوہریرہؓ دیوانہ ہو گیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ اے عمرؓ ،ابوہریرہؓ کیا کہتا ہے؟ حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے کہ ابوہریرہؓ کہتا ہے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا ”صَدقتَ“ کہ یہ سچ کہتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ وہ کیسے؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”إني مِرآة الَرحمٰن، مَن رَآني فَقَد رَائی الحَق”میں رحمان کا آئینہ ہوں، جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو دیکھا۔ تو گويا ان کو دیکھنا اللہ پاک کو دیکھنا ھي هوا۔ (بحوالہ:”تفسیرروح البیان،للعلامة إسماعیل حقي“)

تو جب سورج غروب ہو رہا ہو گا تو مولا علی چہرہ اقدس میں خدا کا دیدار کر رہے ہوں گے۔۔ اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ عین” اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ” یعنی حالت نماز میں رب کا دیدار فرما رہے ہوں گے۔۔ وہ تو چاہتے ہی نہیں ہوں گے کہ جس چہرے میں خدا دکھائی دے رہا ہے اسے چھوڑ کر خدا سے جدا ہو کر کر اس کی نماز ادا کی جائے۔۔ کیونکہ نماز کا سب سے قیمتی اور پر خلوص لمحہ یہ ہے کہ انسان ایسی نماز پڑھے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مقام نہ مل سکے تو کم از کم یہ سوچ رکھے کہ خدا دیکھ رہا ہے یہ مقام احسان ہے۔۔ اور اس وقت جب آقا کریمﷺ حضرت علی کی گود میں محو استراحت تھے ا س وقت حضرت علی خدا کا دیدار فرما رہے تھے اور محبوب خدا کا سرہانہ بنے ہوئے تھے۔۔ مقام علی یہ ہے کہ سونے کو محبوب خدا کا بستر ملا۔۔ اور محبوب خدا کے آرام کے لئے پوری کائنات میں علی کا شرف نبی کا سرہانہ ۔۔

مولیٰ علی نے واری تِیری نیند پر نماز
اور وہ بھی عَصْر سب سے جو اعلیٰ خَطَر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں
اَصْلُ الْاُصُول بَنْدَگی اُس تاجْوَر کی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سبحان اللہ بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply