ہماری پچھلی دو تحریروں کے بعد سے بہت سے بلوچ بھائی ہم سے بد دل ہو گئے تھے ، کچھ سخت رویہ ہم بھی اختیار کر گئے تھے کہ ہماری جوابی کارروائی ہی ایسی ہوئی جیسے ساری قوم ہی تعصب میں ڈوبی ہوئی ہو ، ہمارے جارحانہ انداز کو دیکھتے ہوئے عزیز دوست (جن کے ساتھ گزاری ہوئی کچھ معلوماتی گھڑیاں ہی صدیوں کا ذخیرہ لگتی ہیں ، اور گزارا ہوا ایک طویل وقت بھی مختصر محسوس ہوتا ہے) جناب زبیر بلوچ مدنی نے کچھ ناصحانہ مراسلات بھیجے اور کہنے لگے کہ جلد ہی کراچی آتے ہیں اور معاملات آپ کو سمجھاتے ہیں ، شاید کوئی غلط بیانی کر کے یونہی آپ کو بھڑکا رہا ہے ۔
ہم نے کہا جی بس ملاقات ہونی چاہیے ، پھر موضوع سخن خود ہی چُن لیا جائے گا۔
آج شام حضرت کا میسج آیا کہ کراچی پہنچ گیا ہوں کل ملاقات کر لیتے ہیں ، ہم نے استدعا کی کہ اگر آج ہی ممکن ہو تو؟
ان کا بڑا پن کہ ہماری دعوت قبول کی اور یوں ہم دیدہ و دل فراشِ راہ کئے ان کے منتظر ہو گئے۔
شام سات بجے کے قریب محترم کی آمد ہوئی ، ہم نے بجائے کسی ہوٹل یا ڈھابے کے انتخاب کے “پیپلز اسکوائر” کی کھلی فضا کا انتخاب کیا اور پھر پیپلز اسکوائر کی رنگینیوں میں بلوچستان کے اندھیروں کا تذکرہ ہونے لگا ، کبھی بات ذخائر سے نکل کر خطے کی پستی تک پہنچی تو کبھی بات کا رخ سنگلاخ پہاڑوں سے ہوتا ہوا بارڈر پار مقیم بلوچوں تک پہنچا ، پھر کبھی ماضی کے جھروکوں سے کچھ کڑوی یادوں کا تذکرہ ہوا تو کبھی حالاتِ حاضرہ کے مارچوں پر گفت و شنید ہوئی ، کچھ اسباب پر زبانی خرچ کیا تو کچھ نتائج کے حوالے سے آگاہی ملی۔
مدنی صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جن کا دل اپنی قوم کیلئے دھڑکتا ضرور ہے ، لیکن وہ خود کی غلطیوں سے بھی انکاری نہیں ، اگر وہ حقوق کی جنگ میں حصہ لینے کے داعی ہیں تو بغاوت کے بھی سخت مخالف ہیں ، علیحدگی پسند لوگوں سے حضرت کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا علیحدگی پسندوں کا حقیقی بلوچوں سے ، آپ ایک سچے پاکستانی کا دل رکھتے ہیں ، بس اس دل کو سچا کرنے میں کبھی کبھار چوک جاتے ہیں۔
ایک اچھی مجلس رہی ، جس میں کم از کم میرے لئے تو یہ بات واضح ہوئی کہ سارے ہی تعصب یا قومیت کے نشے میں نہیں ڈوبے ہوئے ، بلکہ ابھی کچھ لوگ ہیں جو حقوق مانگنے سے بڑھ کر اپنا کوئی حق نہیں سمجھتے ، اتنا حق تو پھر ہم بھی ان کا سمجھتے ہی ہیں!
آخر میں چائے پینے کیلئے کسی “کوئٹہ” ہوٹل کی راہ لی ، اور یوں ہم لوگ آپس میں بہت سی باتوں پر ایک دوسرے کو قائل کر گئے ، گویا کہ کہہ رہے ہوں۔۔۔
تُو جیسا بھی لہجہ روا رکھ مجھ سے
مجھے اچھا لگتا ہے تُجھ سے بات کر کے
یوں تو جیت سکتا ہوں تیرا دل بھی میں
فقط چاۓ پر ایک ملاقات کر کے
ارے یاد آیا ، ہمارے ساتھ محترم مکرم ، جن کے بغیر مجلسیں پھیکی اور محفلیں ویران لگتی ہیں جناب فہیم احمد بھی موجود تھے ، جن کی عمدہ شراکت نے مجلس کو کئی اہم نقاط پر بات کرنے کا موقع فراہم کیا ، اور ساتھ ساتھ سوچنے کی نئی جہتوں سے بھی متعارف کروایا۔
مختصر لیکن ایک یادگار محفل کیلئے دونوں ہی ساتھیوں کا شکریہ!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں