عمرانی عفریت ایک آئیڈیا ہے، وہ ایک بیمار خواب اور نظریاتی بساندھ ہے، وہ ہماری تاریک پرچھائیں ہے جسے ہم نے برسوں پال کر ہر طرف پھیلا دیا ہے۔ یوول نوح ہراری نے اپنی کتاب سیپیئنز میں جو چند ایک خوب صورت باتیں کہی ہیں اُن میں سے ایک ’’آئیڈیا‘‘ کے بارے میں ہے۔ اگر مرسیڈیز یا بی ایم ڈبلیو کو ختم کرنا ہو اور اُس کی تمام فیکٹریوں اور دفاتر کو ملیامیٹ کر دیا جائے، تب بھی وہ ختم نہیں ہو گی۔ اگر اُس کی بنائی ہوئی تمام گاڑیوں اور چیزوں کو فنا کر دیا جائے، تب بھی بی ایم ڈبلیو یا مرسیڈیز کا وجود قائم رہے گا۔ کمپنی کا وجود فیکٹریاں مسمار کرنے سے نہیں اُس کا رجسٹریشن ڈاکومنٹ منسوخ کرنے سے ختم ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر ایک ایک یوتھیے کو جیل میں ڈال دیا جائے، پی ٹی آئی کے تمام جھنڈے بھٹی میں جھونک دیے جائیں، ہر پی ٹی آئی کی تشہیر والا ویڈیو کلپ نیٹ سے ڈیلیٹ کروا دیا جائے، تب بھی عمران خان موجود رہے گا۔ عمران ’’ہم‘‘ ہے۔ آپ بوٹ پہننے سے پڑنے والے آبلوں کو پھوڑ کر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اُن کی جگہ نئے آبلے مزید بن چکے ہوتے ہیں۔ آج عمران کو سزا ہوئی ہے تو کل نواز شریف اور زرداری کو بھی ہوئی تھی۔ کیا وہ دوبارہ مقبولیت کا لبادہ اوڑھ کر نہیں پھرے؟ عمران بھی زندہ رہا تو مزید بڑا لیڈر بنے گا۔ وہ اثاثہ ہے جسے شاید ضائع کبھی نہیں کیا جائے گا۔

سزاؤں پر خوش ہونے کے سفلہ پن اور آئین کی پاس داری یا قانون کی بالادستی جیسے ڈھکوسلوں سے بچنا بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم ایسے ہیں، نئے سے نئے عمران جنم لیتے رہیں گے۔ مطالعہ پاکستانی ذہنیت اِن کی نرسری ہے۔ یہ عمرانی اور دیگر کمپنیوں کا رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں