پاکستان کی قومی شاہراہوں کی لمبائی اب جاکر 10 ہزار کلومیٹر ہوئی ہے جب کہ ہمارے پاس دریائے سندھ ، معاون دریاؤں، رابطہ نہروں اور بڑی نہروں کی لمبائی نصف صدی سے زیادہ عرصہ پہلے سے ہی 30 ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے جسے ہم آمدورفت کے لئے استعمال نہیں کرتے۔
ہالینڈ میں بحری ٹریفک کے لئے استعمال ہونے والی آبی راستوں کی لمبائی 6,000 کلومیٹر ہے جو کہ اس ملک کی چوڑائی کا 48 گُنا بنتی ہے۔مغربی یورپ کی ساری بحری تجارت ہالینڈ کی روٹرڈیم بندرگاہ سے ہوتی ہے جہاں رائین دریا کے راستے جرمنی، فرانس ، سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا سے سامان اور مسافروں کی نقل وحمل ہوتی ہے۔ انڈیا کے راستوں کی لمبائی 14,500 کلومیٹر بنتی ہے۔
زمینی نقل وحمل کے ذرائع میں سب سے محفوظ، کم خرچ ، زیادہ ماحول دوست اور زیادہ کیپیسٹی والا ذریعہ بحری ٹریفک ہے۔
لیکن پاکستان میں ابھی تک سڑک کے ذریعے ملک کے 90% فیصد سے زیادہ مسافرسفر کرتے ہیں اور مال برداری ہوتی ہے۔ اس وقت قومی شاہراہوں پر مال برداری کی شدت 170 ارب ٹن فی کلومیٹر ہے جو عالمی معیار کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کی قومی شاہراہوں پر مسافر سالانہ 240 ارب کلومیٹر سفر سڑکے کے ذریعے کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں گندم، چاول، چینی، کپاس، کوئلہ، لوہا، کھادیں اور ریت بجری کو بحری جہاز سے ٹرانسپورٹ کرنا سب سے بہترین حل ہو سکتا ہے جس سے سڑکوں کی توڑ پھوڑ کم ہوگی۔
صرف 1 مال بردار کشتی (بجر) 1750 ٹن وزن اُٹھا سکتی ہے کہ جسے اٹھانے کے لئے ریلوے کی 16 بوگیوں کی ضرورت پڑے گی اور 70 ٹرک اس وزن کو سڑک کے ذریعے لے جانے کے لئے درکار ہوں گے۔
ایندھن کا حساب لگائیں تو جتنے ایندھن میں ٹرک ایک ٹن وزن کو 1 کلومیٹر تک لے جاتے ہیں اتنے ایندھن میں مال بردار کشتی ایک ٹن وزن کو 8 کلومیٹر تک لے جاتی ہے۔ بحری ٹریفک کے حادثات کی شرح سڑک پر ہونے والے حادثات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابرہے۔ سڑک کے ذریعے حادثات بحری حادثات سے سات سو گنا زیادہ ہیں۔
پاکستان بحری ٹریفک کے ذریعے نہ صرف اپنے میٹروپولیٹن شہروں، صنعتی اور زرعی پیداوار کے علاقوں کو سمندر سے ملا سکتا ہے بلکہ افغانستان کو دریائے کابل کے ذریعے اور انڈین پنجاب کو مشرقی دریاؤں کے ذریعے بھی سمندر تک رسائی دے سکتا ہے۔ یہ واٹرویز خطے میں نہ صرف علاقائی اور پرامن بقائے باہمی کی بنیاد بن سکتی ہیں بلکہ دریاؤں کے بہاؤ کو بہتر بناکر اور فوسل فیول کا استعمال کم کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثر کو بھی کم کرسکتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس سب میں نہ تو اضافی زمین چاہئے اور نہ ہی آبادیوں کی اکھاڑ پچھاڑ۔
پاکستان میں دریاؤں اور نہروں کا بطور آبی گزرگاہوں کے استعمال و مناسبت کاجائزہ لینے کے لئے پچاس سے زائد اسٹڈیز ہوچکی ہیں اور ہر ایک میں اس کوقابلِ عمل کہا گیا ہے ۔ تازہ ترین اسٹڈی ورلڈ بینک نے کی ہے لیکن پھر بھی ہمارا سڑکیں بنانے اور مرمت کرنے پر زور ہے۔
آج سے دس سال پہلے پنجاب حکومت نے اس پر اس پر عملی کام شروع بھی کیا تھا جس کے تحت ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ ڈویلپمنٹ کمپنی قائم کی گئی تھی جس نے پہلے مرحلے میں اٹک سے کالاباغ تک دریائے سندھ میں پسینجر ٹریفک اور مال برداری کے لئے کشتیاں چلانی تھیں۔ اس کمپنی نے شروع میں بہت پرجوش کام کیا لیکن غیر یقینی سیاسی ماحول اور ٹرانسپورٹ مافیا کی وجہ سے یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔
دریائے سندھ کے نظام کے تحت بننے والی پانی کی گزرگاہیں پاکستان کے لئے قدرت کا انمول عطیہ ہیں جن کے ذریعے پانچ ہزار سال پہلے زراعت دجلہ وفرات سے وادی سندھ تک پہنچی تھی۔ ہمیں ان بھلائے گئے راستوں کے قدرتی پوٹینشیئل کو ضرور بروئے کار لانا چاہئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں