اسٹبلشمنٹ کی ایما پرعام الیکشن سے محض 5 دن قبل صرف ایک ہفتے کے اندر عمران خان کو 31 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ان مقدمات میں سے اگر ایک کیس بھی ڈھنگ کا ہوتا تو کم ازکم کم نظامِ انصاف یوں سرِبازار رُسوا نہ ہوتا۔
ریاست کے بزرجمہروں کی عقل گھاس چرنے گئی ہے کہ ایک سابق شوہر اور گھر کے ملازمین کی گواہی پر ایک عورت کو سات برس کی قید کی سزاسنادی۔ ایک عورت سے اس کے نجی معاملات بارے ایسے ایسے واہیات سوالات کیے گئے کہ جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ کیا یہ فیصلہ تمام سابق شوہروں اور ان کے ملازمین کو یہ حق نہیں دے گا کہ وہ طلاق شدہ عورت کی دوسری شادی بارے سوال اٹھائیں۔؟
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف قائم تمام تر مقدمات کا محرک سیاسی انتقام اور اپنی چودھراہٹ کو برقرار رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا کوئی اور اخلاقی جواز نظر نہیں آتا۔
اس سارے کھیل کی اگلی قسط یہ ہوگی کہ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے آزاد امیدواران پر ریاستی قہر ٹوٹے گا۔ انہیں گھیر گھار کر میاں نوازشریف کے قدموں میں ڈھیر کیا جائے گا۔ پھر نون لیگ کی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا جائے گا۔
الیکشن کا ڈرامہ پہلے ہی فلاپ ہوچکا ہے۔ اندھے سے اندھا اور متعصب سے متعصب شخص بھی آٹھ فروری کے الیکشن کو الیکشن نہیں زیادہ سے زیادہ ’’یوم رسم تاج پوشی شریف برادران‘‘ کہہ سکتاہے۔
عام الیکشن میں جو پارلیمنٹ منتخب ہوگی، اسے عوامی حمایت حاصل ہوگی اور نہ ان کی کوئی سیاسی اور اخلاقی ساکھ ہوگی۔
عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود پہلے سے زیادہ مقبول اور طاقت ور ہوگا۔ اس کی سیاسی غلطیاں لوگ فراموش کردیں گے۔۔ وہ ایک مظلوم اور بہادر لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جس نے سخت ترین حالات برداشت کیے، طاقت ور لوگوں نے اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن وہ ملک سے فرار ہوا اور نہ کوئی سودے بازی کی۔
یہ مت بھولیں کہ پاکستانی اسٹبشلمنٹ کی پالیسیوں میں کبھی بھی کوئی تسلسل اور گہرائی نہیں ہوتی۔ وقت اور حالات کے ساتھ وہ نوے ڈگری کا یون ٹرن لیتے رہتے ہیں۔ عمومی طور پر عسکری لیڈرشپ کے بدلنے سے پالیسیاں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ معروضی حالات کے بدلنے سے بھی ان کی پالیسیوں میں تبدیلی آجاتی ہے۔ فوج آبادی کے ایک بہت بڑے اور موثر حصّے کی سوچ اور رجحان کو زیادہ عرصے تک نظر انداز نہیں کرسکے گی۔ اس کے اندر سے عمران خان کے حق میں آوازیں اُبھریں گی۔
عمران خان ثابت قدم ہے اور رہے گا تو اس کی عوامی حمایت تحلیل نہیں ہوگی۔ کیونکہ نون لیگ اور پی پی پی سے مایوس ہوکر اکثر لوگوں نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کیں تھیں۔ جب کوئی لیڈر مشکلات کا بہادری اور استقامت سے مقابلہ کرتاہے تو اس کے لیے عوامی ہمدردی کی لہر مخالفیں کے آنگن سے بھی اٹھتی ہے۔ دشمن میں اس کی تعریف پر مجبور ہوجاتاہے۔
نون لیگ اور اسٹبشلمنٹ کا ہنی مون سال دوسال کا کھیل ہے۔ جلد ہی شکوے شروع ہوجائیں گے۔ شکوے شکایات میں تبدیل ہوں گے۔اور پھر رسہ کشی شروع ہوجائے گی۔
اسٹبشلمنٹ کی شرست میں نہیں کہ وہ زیادہ دیر کسی سیاست دان کو برداشت کرسکے، بلکہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ چلنے کی استعداد ہی نہیں رکھتی۔ اسٹبشلمنٹ ملکی فیصلہ سازی کے امورپر اپنی بالادستی سے دست کش ہونے کو کسی صورت تیار نہیں ہوتی۔ معاملہ محض اب دفاعی پالیسیوں پر غلبے یا پھر خارجہ امور تک محدود نہیں رہا۔ اب ملک کی معاشی پالیسی اور تجارتی امور پر بھی اسٹبشلمنٹ نہ صرف ایک فیصلہ ساز قوت بن چکی ہے بلکہ وہ خود ملک کے سب سے بڑے کارپوریٹ سیکٹر کی مالک ہے۔ ظاہر ہے کہ دفاعی امور، خارجہ معاملات اور سب سے بڑھ کر اسٹبلشمنٹ اور شریف خاندان کے کاروباری معاملات پر مفادات کا ٹکراؤ چند ماہ میں متشکل ہونا شروع ہوجائے گا۔ رفتہ رفتہ کانا پھوسی سے شروع ہونے والا یہ کھیل ایک بار پھر نون لیگ اور اسٹبشلمنٹ کو آمنے سامنے لا کھڑ ا کردے گا۔ نوازشریف کو پورا احساس ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ان کے خلاف کھیلنے کے لیے کوئی پتہ نہیں۔ نوازشریف اپنی من مانی سے باز آنےوالے نہیں اور اسٹبلشمنٹ اپنی وضع کیوں چھوڑے۔ بقول شاعر
روز نہ صنم تراشتاہوں
تراشتاہوں، پوجتاہوں
ہوتے ہیں صنم جب پرانے توڑدیتاہوں
روز نہ صنم تراشتاہوں
یہ وہ مقام ہوگا جہاں سے پی ٹی آئی کے لیے سیاست میں گنجائش نکلنے شروع ہوگی خاص طور پر پنجاب کی سیاست میں۔ اسی اثنا میں موجودہ عسکری لیڈرشپ میں سے پہلے سارے لوگ ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ نئے آنے والے کم ہی پرانی دوستیاں اور دشمنیاں نبھاتے ہیں۔ ہر ایک اپنی راہ خود بناتاہے۔

بے عقل لوگوںکو احساس نہیں کہ بے مقصد مقدمات میں عمران خان کو سزائیں سنا کر اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ عدت جیسے نامعقول مقدمات پر عمران خان کو سزا دینے سے طاقت ور لوگوں نے یہ بات ایک بارپھر ثابت کی کہ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کی کوئی ٹھوس قانونی اور اخلاقی بنیاد نہیں۔ بلکہ ان کا مقصد عمران خان کو ذلیل کرنا اور اس کو ذہنی اذیت دینا ہے۔اسی وجہ سے عمران خان کے مخالفین ان فیصلوں پر نادم اور شرمندہ ہیں۔ انہیں کوئی سیاسی اور سماجی حمایت نہیں ملی۔ پورے ملک میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر ان فیصلوں کومسترد کیا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ پاکستان میں ابھی لوگوں کا ضمیر زندہ ہے۔ ہر کوئی بھاڑے کا ٹٹو نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں