قدرت کے ڈھیروں رنگ ہیں۔ یہاں موسموں کی فراوانی ہے اور یہ بدلتے موسم ہی دراصل قلم کو سیاہی فراہم کرتے ہیں اور وہ سیاہی پھر قلم کی نوک مطلب بیرونی دروازے سے باہر نکلتے ہی طرح طرح کے رنگ بکھیرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ سیاہی ہی ہے جو برف کی سفیدی لکھتی ہے۔ یہ سیاہی ہی ہے جو مٹیالے رنگ میں بدل سکتی ہے۔ یہ سیاہی ہی ہے جو مختلف اوقات کو سمیٹ لیتی ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کی ترجمانی کرتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے، اسے دہراتی بھی یہی ہے اور مستقبل کے حوالے سے تجزیے کرتی ہے۔ قلم ہی ذہن میں ابھرتی ہوئی سوچوں اور خیالوں کی ترجمانی کرسکتی ہے۔ یہ قلم دل اور دماغ دونوں سے سوچ سکتی ہے۔ سردی گرمی بہار خزاں یہ بیش بہا رنگوں سے متعلق ہی موضوعات ہیں لیکن قلم ہے جو ان موضوعات پہ بات کرتی ہے۔ یہ کام زبان بھی سر انجام دے سکتی ہے لیکن قلم کی دل و دماغ سے رہنمائی زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ برف پہ ٹہلتے ہوئے پیدا ہونے والی آواز مایوسی کے زمرے میں آتی ہے یا امید کی کرن سے متعلق ہے زبان سے زیادہ قلم یہ معلومات زیادہ موثر انداز میں دماغ سے حاصل کر سکتی ہے۔ بہار کے رنگوں میں جہاں امید کا پیغام ملتا ہے وہیں سردیاں اور خاص طور طوفانی برفباری ہمت حوصلے اور جانفشانی سے متعلق ہے۔ مجھے برف میں ٹہلنے کا ضرورت کے مطابق اچھا خاصا تجربہ ہے۔ جہاں تپتی دھوپ ایک تجربہ اور احساس ہے، وہیں ٹھنڈی دھوپ بھی ایک تجربہ ہے۔ جہاں صحراؤں اور سرخ مٹی کی آندھیاں ایک تجربہ ہے وہیں برف باری اور برف سے ہونے والے اثرات بھی ایک تجربہ ہے۔ برف ہورہی ہے ایک احساس ہے اور برف پڑ چکی ہے دوسرا احساس ہے اور برف سخت ہو چکی ہے ایک تیسرا احساس ہے اور برف کے بعد موسم کا رخ بدل جانا ایک چوتھا احساس ہے۔ دھوپ کا نکلنا بھی ایک احساس ہے اور دھوپ سے برف کا پگھل سڑ جانا بھی ایک احساس ہے۔ طوفان میں ہوا چلنا اور سیٹی بجانا بھی منظم حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں