قصّہ پاکستان یاترا کا/نِگی طاہر عباسی

دسمبر 24 -2023 کو تقریباً سوا سال بعد پاکستان جانا ہوا۔ زندگی کا تقریباً سارا حصہ پاکستان میں گزار کے سن 2022 ستمبر میں مجھے بہت ہی نجی نوعیت کی مجبوری کے باعث پاکستان سے مستقل ہجرت کرنی پڑی, نہ چاہتے ہوئے. کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو گھر تو آخر اپنا ہے پر اندھا یقین رکھتے ہیں مگر شو مئی قسمت کہ گھر، ملک خاندان، ماں باپ، بھائی، دوست احباب سب چھوڑنا پڑا۔ انگلستان کی زندگی ایک مشین کے انداز میں چلتی ہے مگر چونکہ ہر ایک ادارہ اپنی نپی تلی جگہ پر کام کر رہا ہے اس لیے وہ مشکلات جو بحیثیت ایک عام آدمی ہم پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر جھیلتے ہیں وہ یہاں مفقود ہیں۔ مثلاً  سرکاری ہسپتال میں معائنہ کے لیے آپ کو کسی جان پہچان کے بغیر ہی اچھے سے دیکھ لیں گے۔ گیس بجلی اور دیگر سروسز کے لیے آپ کو کسی جاننے والے کی سفارش کی ضرورت نہیں حتیٰ کہ  پاسپورٹ، بی آر پی وغیرہ وغیرہ آپ کے گھر بیٹھے مہیا  ہو جائیں گے، ہاں اگر آپ کو پاکستان کی ان چیزوں کی یاد ستا رہی ہے تو آپ کسی ضروری کام سلسلے میں پاکستانی ہائی کمیشن لندن کا چکر لگا لیں چاہے نادرا کا کارڈ ہو یا پاسپورٹ کا renewal آپ کو لگ پتہ جائے گا۔

تو خیر ذکر ہو رہا تھا محض سوا سال کی جدائی کے بعد پاکستان یاترا کا، یہ قیام محض بارہ دن کا تھا مگر کچھ نجی وجوہات کی بنا پر تھوڑا طویل ہو گیا اور تقریباً 21 دن تک ہم پاکستان رہے 14 جنوری علی الصبح ہم British airways کے ذریعے واپس انگلستان کی یخ بستہ ہواؤں میں پہنچ گئے۔
بیرون ملک رہنے والے تارکین وطن تین یا چار طرح کے ہوتے ہیں

ایک وہ جو اوائل عمری میں وطن کو خیر باد کہہ کر دیارِ غیر میں آباد ہوتے ہیں وہ اپنے آبائی ملک کی dynamic کو ایک خاص قسم کی آنکھ سے دیکھتے اور سماعت سے سنتے ہیں دوسرے وہ جوعارضی طور پر رہائش پذیر ہوتے ہیں طالب علم وغیرہ یا ملازمت کے سلسلے میں آئے ہوئے  لوگ جنہوں نے واپس لوٹنا ہوتا ہے یہ یا تو وقت گزاری کرتے ہیں یا خوب دولت سمیٹ کر واپس جاتے ہیں یا بھرپور لطف اندوز ہوتے ہوئے وقت گزارتے ہیں۔ تیسرے وہ تارکین وطن ہیں جو اپنے شریکِ حیات کے dependent کے طور پر یہاں آباد ہوتے ہیں مگر کم عمری میں زیادہ تر خواتین اور بہت کم مرد حضرات یا  اکثریت کم تعلیم یافتہ ہوتی ہے اور پاکستان کے گاؤں دیہات سے آئی ہوتی ہے یہ لوگ بھی آہستہ آہستہ خود کو یہاں کی زندگی کا عادی کر لیتے ہیں چوتھی وہ قسم ہے جس سے ہم تعلق رکھتے ہیں جو زندگی کے 38، 40 سال تو پاکستان میں گزارتے ہیں اور اس ادھیڑ عمری میں وطن کو چھوڑتے ہیں۔ تعلیم ، کاروبار، روزگار، شادی بچے ہر طرح کے تجربات سے اپنے ملک میں گزر کے آئے ہوتے ہیں ان سب کے لیے اس معاشرت کو دیکھنے کا ایک الگ نظریہ اور سوچ ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے ملک کے لیے جو دردِ دل رکھتے ہیں وہ ان تجربات کی روشنی میں کرتے جن سے وہ بذاتِ خود ان پر گزرے ہوتے ہیں نہ کہ سنی سنائی بات پر، یہ لوگ کڑھتے  ہیں، بات کرتے ہیں اور ان تمام وجوہات پر کھل کر بات کرتے ہیں، جو ان کے ملک کو اس نہج پر لا کھڑا کرتی ہیں جو سراسر غلط ہے۔

بہرحال اس مضمون پر کبھی تفصیل سے بات ہو گی۔ مگر آج میں یہ بتانا چاہوں گی کہ سوا سال سے پہلے اور سوا سال کے بعد کے پاکستان کو کیسا پایا؟؟

سب سےپہلا شاک تھا اسلام آباد کا خشک اور سرد موسم۔ اتنا خشک اور سرد کہ  انگلستان کی یاد دلاتا رہا۔ اس قدر دھول اور مٹی کہ  شاید ہی کبھی اسلام آباد میں ایسا دیکھا ہو۔ شاید پچھلے برس بارہ کہو بائے پاس کی تعمیر ہوئی تھی مگر جیسے ہمارے ہاں مہمان خانے کو اچھے سے سجا کر سارا کوڑا کرکٹ گھر کے اَن دیکھے کونوں کھدروں میں ڈالا جاتا ہے ٹھیک عین اسی طرح بارہ کہو کے بائے پاس کے علاوہ سارے علاقے کا ستیاناس کر دیا گیا ہے۔ سڑک  کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور ہماری چھتر کھانے کی عادی عوام ان گڑھوں   میں روز بلا چون و  چراں محوِ سفر ہے۔ مجال ہے کہ احتجاج کرے یا آنے والے الیکشن کے ووٹ کے لالچ میں ہی کسی عوامی نمائندے کی توجہ دلائے۔

میری رہائش بھائی کے گھر تھی یہ سوسائٹی بارہ کہو کو کراس کر کے سترہ میل کے قریب ہے سر سبز ہے اور مارگلہ کے شمال مشرقی پہاڑوں میں گھری ہے مگر دھول مٹی اور بارش نہ ہونے کے سبب سبز کم اور مٹیالی زیادہ تھی۔

ایک دو بار بھائی کے ہمراہ گھر کی عام خریداری کرنے کا اتفاق ہوا تو معلوم پڑا کہ گھر کا جو سامان تین ہزار میں بآسانی آیا کرتا تھا وہ اب دس ہزار کا ہے۔ جیسے مہینے کا آخر تھا تو چند ضرورت کی اشیاء ختم ہو گئیں دس ہزار کا بل دیکھ کر میری تو آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ یہی حال دودھ، سبزی، پھل اور گوشت کے ہوشربا نرخوں کے ساتھ تھا۔

والد اور والدہ کی دوا لینے گئے تو پتہ چلا کہ یہاں تو سونے کا بھاؤ  چل رہا ہے اور خیر سے سونارکی دکان پر بھی جانا ہوا تو پتہ چلا سارا فساد  تو اس موئے سونے کی قیمتوں کا ہے۔

لوگوں کو مایوس دیکھا۔ بھکاریوں کی تعداد پہلے سے کہیں  زیادہ دیکھی، جو ریڑھی پر بھنے چنے بیس روپے کے آتے تھے وہ اب سو روپے میں بھی نہیں ملتے ۔عام اشیا میں مقدار کم کر دی گئی ہے جیسے بھنی دال نمکو، بسکٹ وغیرہ اور قیمت ڈبل۔

پنڈی چونکہ ہمارا دوسرا گھر ہے ہمیں یاد نہیں کب مری سے والدین ہمیں پنڈی لے آئے تھے ہوش سنبھالا تو خود کو پنڈی میں پایا، اس لیے پنڈی کا ایک چکر بنتا تھا، مگر بھائی بتا رہا تھا یہ وہ پنڈی نہیں ہے ۔اب کراچی  میں  موبائل چھینے کے واقعات عام ہیں، دن دیہاڑے فائرنگ قتل ڈاکے بھی عام ہیں اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ کمرشل مارکیٹ بھی بدلی بدلی لگی، موتی بازار اور راجہ بازار والا واہیات ہجوم وہاں دیکھ کر افسوس اور حیرت ہوئی، کیونکہ فیملیز کے لیے یہ ایک بہترین مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔

چونکہ پشاور میں عزیر از جان دوست و سہیلی بمعہ اہل و عیال رہتے ہیں جو سارے کا سارا خاندان بہت ہی اصرار سے بلا رہا تھا بہت بحث، ناراضگی طعنوں تشنوں کے بعد بذریعہ فیصل مورز ہمارا پشاور بھی جانا ہوا اور سارا راستہ افسوس کر تے رہے کہ اس ملک کے کرتا دھرتا لوگوں نے جن کو ان کے خلاف ایک لفظ سننا بھی گوارا نہیں ہے اس ملک کو تعمیرات و پراپرٹی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ ہکلہ، جنگ بہتر براہمہ کا تقریباً سارا زرعی علاقہ سوسائٹیوں کی نذر  ہو چکا تھا۔ کھیت کھلیان سب ختم تھے اور افسوس تب ہوا، جب صوابی مردان جیسا زرخیر علاقہ بھی اسی وباء  کی لپیٹ میں دیکھا۔ دھند پشاور اور کے پی میں بہت گہری اور خوفناک تھی مگر جو بات نہیں بدلی تھی تو وہ تھی پشاور کے پٹھانوں کی بے مثال مہمان نوازی، دنبے کے گوشت کی کڑاہی اور پشاوری قہوے کا ذائقہ۔ پشاور  میں بھی پلازہ بلند و بالا عمارات کی تعمیرات کی بھرمار تھی رنگ روڈ اسلام آباد یا کراچی کا سا منظر پیش کر رہی تھی بہت ہی اچھے مالز ، برینڈز ریستورانوں کا جم غفیر تھا اور پشاور کراچی کا سماں پیش کر رہا تھا شدید دھند کے باوجود عوام سڑکوں پر تھے۔

رات گئے حیات آباد سے بڈھ بیر واپسی کسی طور ایک ایڈونچر سے کم نہ تھی، بچوں سے بھری گاڑی میں سفید دھند میں ایک بالشت پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ہمارےدوست نے بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ ڈرائیونگ کا مظاہرہ کرکے ہم سب کو بخیریت گھر پہنچایا۔ یہ الگ بات ہے کہ راستے میں ایک پیازوں سے بھر ا ٹرک الٹا دیکھ کر سب کے اوسان ضرور خطا ہوئے تھے۔

بہت سی خوبصورت یادیں، تحائف دعائیں اور پیار سمیٹے ہم اسلام آباد روانہ ہوئے۔ باقی کے دن گھر میں ہی گزرے ۔والد اچانک علیل ہوئے ،ہسپتال میں رہے مگر اللّٰہ کا کرم ہوا جلد روبہ صحت ہوئے اور گھر واپس آئے۔

مگر ایک بات سے دل بہت کلبلایا وہ تھی پاکستان کی فضا میں مستقل اداسی۔۔ جو پہلے کبھی نہیں محسوس کی۔ بھائی بتا رہا تھا کہ ہماری air index بہت poor ہو چکی ہے مگر شاید ایک سوگواری سی طاری رہی چاہیے وہ اسلام آباد تھا پنڈی تھا یا پشاور۔ شاید ان کھیتوں، کھلیانوں پہاڑوں کو جیسے کچھ کہنا ہو جیسے کہہ رہے ہوں تم سب نے تو ہمیں سنبھال کے رکھنا تھا یہ کیا حال کر دیا ہمارا؟

اللّٰہ نہ کرے مگر یہ پراپرٹی ڈیلرز کے ان خوفناک منصوبوں نے پاکستان میں اگلے آنے والے سالوں میں خوراک کا بہت بڑا کرائسس پاکستان کو دینے کا سبب بننا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے گھروں میں بےشک چھتوں پر ہی سہی کچن گارڈننگ کا اہتمام کریں۔

واپسی پر ہماری پرواز via پشاور، سوات اور دیر کو عبور کرتے چترال سے واخان کوریڈور کی سمت میں وسط ایشیا سے ہوتی ہوئی یورپ میں داخل ہوئی۔ کوہ ہندوکش کے زیادہ تر چوٹیاں برف سے عاری تھیں گلیشئر  پِگلے ہوئے تھے اور برف بہت کم نظر آ رہی تھی یہ ایک بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلی کا باعث ہوگا؟؟ مگر کیا ہم بطور ملک اس بارے میں کچھ کر رہے ہیں؟؟ ہمیں تو بس ساری توانائیاں ایک آدمی کو اس کی پارٹی کو دیوار سے لگانے پر َصرف کرنی ہیں۔ صحافت non issues پر ہے، اس ملک پر مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کیسے اثر انداز ہوگی اس کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟؟ کچھ اتا پتا نہیں،نام نہاد سلیبرٹیز کی شادی یا طلاق ایک اہم مسئلہ ہے، اظہارِ رائے پر بدترین پابندیاں ہیں اور بہت کچھ ہے مگر کہنے کی اجازت نہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم نے اپنا سارا وقت توانائیاں صرف سیاست، مذہب اور کرکٹ کی بحث پر صرف کر رکھی ہیں جبکہ دنیا میں ان سب کے علاوہ بہت کچھ ہے۔ اور سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس ملک کو چلا کوئی اور رہا ہے سامنے کوئی اور ہے عوام بھی متذبذب ہے کہ اصل بادشاہ کون ہے۔ پتہ تو سب کو ہے مگر کہتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی اچانک دن دھاڑے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ ہیومن رائٹس واچ نے 2023 کو پاکستان کے 75 سالہ تاریخ کا بدترین سال قرار دیا ہے ہر حوالے سے, غریب ، مہنگائی، کرپشن، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، صحت، پینے کا صاف پانی ، روزگار ہر لحاظ سے یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سال تھا۔

اللّٰہ سے دعا ہے کہ دن بدلیں اور میری طرح کے وہ لوگ جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ انشاللہ دن بدلیں گے اور ہم واپس اپنے وطن پدھاریں گے ان کے خواب سچ ہوں آمین یارب العالمین۔

Advertisements
julia rana solicitors

وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
چکبست برج نرائن
(مکتوبِ برطانیہ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply