مجھے فخر ہے! کس بات پر؟

مجھے فخر ہے! کس بات پر؟
استاد محترم مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب سے یہ واقعہ بارہا برائے راست سنا. آپ بیتی سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ہم نئے نئے فارغ التحصیل ہوئے تو اک جوش و ولولہ تھا اور ہر کام میں سبقت لے جانے کی دھن سوار رہتی تھی. مختلف ضروریات کے پیش نظر ہم نے اپنے نام کا لیٹر پیڈ بھی چھپوا لیا تھا جس پر نام “محمد رفیع دیوبندی”لکھوایا تھا. کیونکہ دیوبند ہمارا اصل وطن تھا، ہماری پیدائش وہیں ہوئی اور وہیں بچپن گزرا اس لیے دیوبندی لکھوانے میں کوئی مضائقہ بظاہر نہیں تھا لیکن جب والد صاحب مرحوم (حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ) کو علم ہوا تو انہوں نے ہمیں “دیوبندی”; لکھنے سے منع فرمایا اور فرمایا “مجھے اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے” اللہ تعالی ٰان جیسے حضرات کی کثرت فرمائے اور عمریں بعافیت دراز کرے. اس سے جہاں تعصب سے بیزاری عیاں ہے وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سنجیدہ اور دردمند علماء فرقہ واریت کے بارے میں کس قدر محتاط رہتے تھے. سو آپ دیوبندی ہوں یا بریلوی یا پھر کوئی اور حقیقت پسند اور متحمل مزاج بنیں اور تعصب و جذباتیت سے دور رہیں، ایک دوسرے کی پیروی بے شک نہ کریں لیکن برداشت کریں اور تحمل سے کام لیں. ہم بعض اوقات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ جاننے اور سمجھنے کے باوجود حقائق سے صرف نظر کرنے لگتے ہیں، پھر بات محض انتقام تک رہتی ہے حقیقت کچھ بھی ہو.
دیوبندی ہونے پر فخر ہے! مجھے بریلوی ہونے پر فخر ہے! مجھے فلاں، میں فلاں . . . کیوں بھئی!
کیا دیوبندی،بریلوی یا کوئی تیسرا ہونے پر آپ کو جنت کی ٹکٹ آفر ہوئی ہے یا پھر روز محشر آپ کو خصوصی پروٹوکول دیا جائے گا اور آپ حساب و کتاب سے مبرا ہوں گے؟اگر ایسا نہیں تو پھر فخر کس بات کا؟ کوئی بھی اگر صحیح راستے پر ہے تو بھی اترانا کس بات پر توفیق تو آسمانوں سے آتی ہے. لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، اچھائی کرنے کی توفیق اور برائی سے بچنے کا حوصلہ تو اس کی عنایت ہے. صحابہ کرام کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی لیکن پھر بھی ہر وقت آخرت کی فکر دامن گیر رہتی، ہنستے کم اور خوف خدا سے روتے زیادہ تھے، جنت کی بشارت اور نبی کی معیت یقینی ہے پھر بھی روتے اور فرماتے کاش میں کوئی تنکا ہوتا! کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا!کبھی فخر نہیں کیا اور ہر لمحہ اللہ کا خوف سوار رہتا تھا. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ آپ اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں جائیں گے یا اللہ کے فضل و کرم سے؟ اللہ کے نبی جواب دیتے ہیں “میں بھی اللہ کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا”. سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ سلم بھی اللہ کے فضل و کرم . . . .تو جناب میری اور آپ کی کیا اوقات ہیں،ہم تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے. سو یاد رکھیئے اللہ کے فضل کے متلاشی کبھی اتراتے نہیں اور جنگ و جدل سے تو کوسوں دور رہتے ہیں۔
ہر شخص اپنے نظریے اور مسلک کے دفاع میں اپنے آپ کو خالد بن ولید، حیدر کرار، طارق بن زیاد اور نہ جانے کیا کیا بتلاتا ہے. چلو مان لیتے ہیں آپ سوا سیر ہیں لیکن اپنوں کے لیے۔اگر خالد بن ولید بننا ہو تو اس کے لیے میدان بھی وہی چنیں، ان کی تلوار کبھی مسلمانوں میں پھوٹ کا سبب بنی اور نہ ہی زبان.سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں، حیات صحابہ کا مطالعہ کریں، یہ ہستیاں دین کی اصل روح کی عکاس ہیں، ان کی زندگیاں پڑھے اور سمجھے بغیر دین کو مکمل طور پر سمجھنا ناممکن ہے. وه تو آپس میں بھائی اور دشمن کے لیے دو دھاری تلوار تھے. اللہ تعالی ٰکو ان کی یہ صفت نہایت محبوب تھی جیسا کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم.
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن.
لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے، اسلام اور مسلمان دشمن ایجنسیوں سے دیہاڑی لیتے ہیں اور نہتے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے. کرتا کوئی اور ہے بھرتا کوئی اور، پھر سیکورٹی کی آڑ میں پرامن شہریوں کو اذیتیں دی جاتی ہیں.خوب یاد رکھیئے! اگر کوئی عوام کو اختلافی اور غیر ضروری مسائل میں الجھا کر ان کی عملی دینی زندگی متاثر کر رہا ہے اور ان کے درمیان نفرت اور پھوٹ کا سبب بن رہا ہے تو اللہ کی عدالت میں اس کا کڑا مؤاخذہ ہو گا.
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلک اور نظریاتی اختلاف ختم نہیں کر سکتے پر اسے ہوا نہ دیں. جتنی ضرورت ہے اسی درجے میں رہنے دیں اسے دھندہ نہ بنائیں. نیز یہ علمی اختلاف ہے تو اسے علم کی بنیاد پر دلائل سے حل کریں، اسے کسی اکھاڑے میں کشتی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا.
آخر میں ان لوگوں سے التجا ہے جنہیں ان مسائل کی الف ب بھی معلوم نہیں، اورمحض تفریح کی غرض سے دنگل کرانے آتے ہیں. خدارا عملی مسائل سیکھیں اور اپنی عملی زندگی سنوارنے کی کوشش کریں. اپنی توانائیاں بیجا صرف نہ کریں اور نہ خود غلط استعمال ہوں.

Facebook Comments

عبدالقدوس قاضی
اپنا لکھا مجھے معیوب لگے ۔ ۔ ۔ ۔ وقت لکھے گا تعارف میرا ۔ ۔ ۔ !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply