ووٹ کسے دینا چاہیے؟/آغر ندیم سحرؔ

آٹھ فروری ،ہماری چھہتر سالہ تاریخ کا اہم ترین دن،اس دن ہم نے اپنے ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ دینا ہے کہ ہمیں اپنی نسلوں کے لیے کیسا پاکستان چاہیے ،ہمیں آج ہی کے دن یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس پس ماندہ ملک کو کیسی قیادت کی ضرورت ہے ،یہ غربت کی چکی میں پستے عوام کو کیسا حکمران چاہیے،کیسا وزیر اعظم چاہیے،کون سی پارٹی وطن عزیز کے لیے ناگزیر ہے،یہ دن ہمارے لیے انتہائی اہم ہے کیوں کہ آٹھ فروری کا دن اگر ہم نے موروثی سیاست کی نذر کر دیا ،آٹھ فروری ہم نے ذاتی نمود و نمائش اور دو چار نعروں سے متاثر ہو کر اگر اپنا ووٹ ضائع کر دیا تو یاد رکھیں ہمیں بالکل بھی یہ حق نہیں ہوگا کہ کل ہم پاکستان کے مستقبل کے بارے پریشان ہوں یا نادم۔یہ دن نعروں اور اشتہاروں سے بالاتر ہو کر گزاریں،آپ کی برادری،آپ کے دوست اور آپ کے عزیز و اقارب اہم ہوں گے مگر ووٹ ایک قومی ذمہ داری ہے،آپ کا ایک ووٹ پورے ملک کی قسمت بنا رہا ہوتا ہے،یہ مت سوچیں کہ میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگایا اگر میں نے ووٹ نہ بھی دیا تو کون سی قیامت آ جائے گا،آپ کا ایک ایک ووٹ آپ کی نسلوں کا مستقبل لکھ رہا ہوتا ہے لہٰذا اس قومی فریضے میں سستی اور نااہلی کا مظاہرہ مت کریں،گھروں سے نکلیں اور ووٹ دیں،اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کریں اور خدارا اس فریضے کو اتنا ہی ضروری سمجھیں جتنا آپ کے لیے سونا جاگنا،کھانا پینا اور نوکری پر جانا اہم ہے۔

ہم چھہتر سالوں سے اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ایک تماشا دیکھ رہے ہیں،آمریت نما جمہوریت نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے،ہر الیکشن یا تو سلیکشن ہوتا ہے یا پھر کٹھ پتلی کی تبدیلی کا دن،کیا ہم ایک مرتبہ ،صرف ایک مرتبہ اس دن کو حقیقی جمہوریت کے لیے اپنی آواز نہیں بلند کر سکتے،ہم الیکشن کے دن ہمیشہ موروثی سیاست اور برادری ازم کی نذر کر دیتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال چیخ و پکار میں گزار دیتے ہیں،ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں،جب خدا ہمیں موقع دیتا ہے کہ اپنی قسمت بدلو،اپنی تقدیر خود لکھو،اس دن ہم نعروں اور ذاتی تعلقات کی چال میں آ کر اپنا حق رائے دہی ضائع کر دیتے ہیں اور جب ہم پر ایک کٹھ پتلی یا ایک نااہل شخص مسلط کر دیا جاتا ہے،اس وقت ہم روتے ہیں،گالیاں دیتے ہیں،خود کو کوستے ہیں یاپھر اسٹیبلشمنٹ اور طاقت ور ادارو ں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟کیا ہمارے پاس اختیار نہیں کہ ہم اپنا نمائندہ اور اپنی قیادت اپنی مرضی سے منتخب کریں،اگر ہم اپنے اختیار کا غلط استعمال کر رہے ہیں تو ہمیں شور شرابے کا بھی کوئی حق نہیں۔

آپ اسے پاکستان کی بدقسمتی سمجھ لیں کہ یہ قوم چھہتر سالوں میں یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ اسے کیسا پاکستان چاہیے،یہ قوم ہر پانچ سال بعد ٹریپ ہو جاتی ہے،کبھی وہ ٹریپ کر لیتے ہیں جن پر اندھا اعتماد ہوتا ہے اور کبھی ہمارے بڑے ہمیں پٹری سے اتار دیتے ہیں،ہم چھہتر سال میں اپنا فیصلہ نہیں دے سکے،آپ اسے اپنی نااہلی سمجھیں یا بدبختی مگر یہ سچ ہے کہ ہم ایک نااہل اور نکمی قوم ہیں،جب ہمیں اختیار دیا جاتا ہے کہ آپ فیصلہ دیں ،اس وقت یا ہم گھروں سے نہیں نکلتے کہ ہمارے ایک ووٹ سے کیا ہوگا یا پھر ہم بریانی کی ایک پلیٹ،فلیکس پر لگی اپنی تصویر اور دو چار ہزار میں بلیک میل ہو جاتے ہیں اور اپنا ووٹ ایک نااہل شخص کے ڈبے میں ڈال آتے ہیں،یہ کھیل چھہتر برس سے جاری ہے اوتر جانے کب تک ایسا ہی رہے۔

میری قوم کی ایک اور بھی تشویش ہے،یہ ووٹ جس ڈبے میں ڈالتے ہیں،اگلے دن وہ کسی اور ڈبے سے نکلتا ہے،جادوئی طاقتیں اس بے چاری قوم کے ساتھ یہ مذاق بھی چھہتر برسوں سے کر رہی ہیں،ایسا کیوں ہے؟کیا اب ہمیں اپنی قوم کو یہ اختیار نہیں دینا چاہیے کہ ووٹ جسے دیں،وہی قیادت آگے آنی چاہیے؟ہم نے گزشتہ تین سے چار جنرل الیکشن میں دیکھا،لوگ جسے چاہ رہے ہوتے ہیں،وہ وزیر اعظم بننے کی بجائے جیل کا مستقل قیدی بن جاتا ہے اور لوگ جس سے جان چھڑوا رہے ہوتے ہیں،وہ وزیر اعظم ،یہ تماشا بھی ختم ہونا چاہیے،اگر آپ الیکشن جمہوری انداز میں کروانا چاہتے تو عوام کو حق دیں کہ وہ اپنا نمائندہ خود منتخب کریں اور اگر ایسا نہیں تو چھہتر برسوں سے جاری یہ تماشا بند ہونا چاہیے،قوم کا اربوں روپیہ لگا کر بھی اگر الیکشن کی جگہ سلیکشن ہونی ہے تو پھر اتنی زحمت کیوں،قرعہ اندازی کریں اور ایک کٹھ پتلی منتخب کر لیں اور اسے نچائیں جب تک ناچتی ہے،جب وہ کٹھ پتلی آنکھیں نکالنے لگے،اسے گھر بھیجیں او ر کوئی نیا وزیر اعظم بٹھا لیں۔یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے اور دکھ تو یہ ہے کہ شاید اگلی کئی دہائیاں یہ ایسا ہی چلتا رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے پاکستانیو! آٹھ فروری کا دن انتہائی اہم ہے،آپ کی تشویش اور آپ کا دکھ بہت اہم سہی مگر پھر بھی ووٹ ڈالیں،شکوہ ظلمت شب سے یہ بہتر ہے کہ آپ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں اور پوری دنیا کو بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔الیکشن سے قبل ہونے والے ننانوے فیصدسروے بتا رہے ہیں کہ یہ قوم کیا چاہتے ہیں اور میں سو فیصدیقین سے کہتا ہوں کہ آپ کی کوششیں اور جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔میری تمام طاقتوں سے گزارش ہے کہ یہ ملک تباہی کے جس دہانے پر پہنچ چکا ہے،اسے صرف ایک مرتبہ حقیقی جمہوری حکومت سے نواز دیں،آپ کا یہ احسان ہماری نسلیں بھی یاد رکھیں گی،ہم واقعی تھک چکے ہیں،یہ لوگ اب ناامید ہو چکے ہیں،یہ اسی لیے گھروں سے نہیں نکل رہے کہ ان کا ووٹ کسی اور ڈبے سے نکل آتا ہے،اس قوم کو ایک مرتبہ اعتماد دیں کہ وہی ہوگا جو آپ چاہیں گے،آپ یقین رکھیں یہ قوم اپنے طاقت ور اداروں کی بہت عزت کرتی ہے،اسے کوئی ٹریپ نہیں کر سکتا ،آپ اس قوم کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے دیں اور انھیں موقع دیں کہ یہ ایک نئے پاکستان کی جانب بڑھیں،دکھوں کی ماری قوم کو زندگی کی امید دلائیں ،کیا پتا ایسے میں یہ ملک بہتر ہو جائے۔آٹھ فروری کا دن اس ملک کی قسمت بدلنے کا دن ہے،کوئی بھی شخص جس کا ووٹ موجود ہے،وہ خود بھی گھر سے نکلے اور ارد گرد بھی سب کو گھروں سے نکالے،ہم نے آٹھ فروری کے دن ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے،مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم ایڑیا رگڑتے رہے تو چشمہ یہیں سے نکلے گا،نو فروری کا دن ہم ایک نیا سورج دیکھیں گے،اپنی آزادی کا سورج،انشاء اللہ۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply