شاخ در شاخ پھیلتے علم نے بالآخر ہماری توجہ فرد کی گھمبیر داخلیت کی جانب پھیر دی ہے۔ انسانی D.N.A. ڈی کوڈ کیا جاچکا اور اب جنیٹنک انجینئرنگ اور کلوننگ جیسے ناقابلِ یقین معاملات انسان کی دسترس میں ہیں۔نفسیات کی گتھیاں سائنسی بنیادوں پر سلجھانے کی راہ فرائڈ نے کھول دی تھی جس پر خاصا سفر طے ہو چکا لیکن یہ معاملہ بہرصورت انسانی بدن کی مکینیکل تفہیم کے مقابلے میں تہہ در تہہ پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ انسان اور اسکا ماحول ایک دوسرے پر اثر انداز ہوکر دونوں کو ایک مسلسل تبدیلی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ تبدیلی کی یہ رفتار اجتماعی انسانی سماج کے کسی حصے میں بہت تیز ہے تو کہیں قدرے سست۔
جن سوسائٹیوں میں نیا علم جنم لیتا ہے وہاں تبدیلی clarity اور ترقی کا باعث بنتی ہے لیکن جو قومیں اس پراسیس سے باہر ہوتی ہیں وہاں یہ علم کنفیوژن اور ردِعمل کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ بّرِصغیر کی مسلم سوسائٹی گزشتہ اڑھائی صدیوں سے کم و بیش اسی صورتحال سے گزررہی ہے۔ہر نیا انکشاف پہلے سے بنی سوچ میں ہلچل برپا کردیتا ہے اور اگر یہ سوچ کسی عقیدے پر مبنی ہو تو یہ ہلچل بھونچال میں بھی بدل جاتی ہے۔
عقائد پر استوار نفسیات کے حامل گروہوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فہم کی ناکامی کو تسلیم کرنے کی بجائے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ گاہے چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں تعقل اور غوروفکر کا مادہ تو ہوتا ہے لیکن بچپن کے لاشعوری دور میں بنی نفسیات انہیں خالص علمی بنیاد پر آزاد فیصلوں کی اجازت نہیں دیتی۔ہمارے ہاں کے ’جدید‘ مذہبی سکالرز اپنی ساری عقل اس کوشش کی بھٹی میں جھونک میں لگیہیں کہ کسی نہ کسی طرح آج کے مسائل کا عرب کے قبائلی دور میں پنپنے والی دانش سے معانقہ کروادیا جائے۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ ایک بہتے دریا میں دوبار قدم نہیں رکھا جاسکتا لیکن انکے خیال میں معیشت اور انسانی تعلقات آج بھی اپنی ماہیت کے اعتبار سے ویسے ہی ہیں جیسے قدیم ماضی میں تھے اور دو ڈیڑھ دو ہزار برس قدیم الہامی دانش انکو جدید علم کے مقابلے میں کہیں زیادہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مزید حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اس دعوے کو قیامت کے نادیدہ دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ مغربی علوم کے ساتھ انکا رشتہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر جیسا ہے جسے نہ تو یہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اُگل سکتے ہیں۔
’مذہب‘ کے بنیادی احکامات سے چمٹے رہنا انکا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ مسلم امہ کے اجتماعی اخلاقی دیوالیہ پن کے باوجود بھی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اخلاقیات پر اجارہ داری کے بلند بانگ دعوے کیے چلے جاتے ہیں۔ الفاظ کے ہیر پھیر سے دو متضاد تصورات کو ہم آہنگ دکھانے میں انہیں کمال حاصل ہے۔عورت پر مرد کی مسلمہ اور تاقیامت سیادت کو انسانی مساوات کے عین مطابق ثابت کرنا انہی نابغوں کا کام ہے۔صدیوں پہلے جس فیوڈل دورکی معیشت نے عورت اور مرد کو جو کردار تفویض کیے تھے انکا ماڈل کبھی کا متروک ہو چکا مگر انکے دماغوں میں مرد کی آمریت کا جو خمار چڑھا ہے وہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ انہیں معلوم بھی ہے کہ بادشاہت اب چند ملکوں میں آخری سانس لے رہی ہے۔ کیپٹل ازم کے بطن سے جمہوریت جنم لے چکی ہے جو بلا تخصیص رنگ نسل اور صنف کے فرد کی رائے کی برابری کے اصول پر استوار ہورہی ہے، مگر یہ پھر بھی اس کوشش میں لگے ہیں کہ جدید جمہوریت اور معاشی نظام میں فیوڈل سوچ کی پیوند کاری کرکے اسے ہائی جیک کرلیں۔فیوڈل دور کی وہ معیشت جسکے بل پرعورت اور مرد کے درمیان صنفی تفاوت کو ہمیشگی عطا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، کیونکر انسانی اختیار سے باہر سمجھی گئی اور اس بنیاد پر انسانوں کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ یہ تحریر اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔
ہم نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ تمام الہامی کتب کاموں کی درجہ بندی اور انکے معاوضے کے باب میں مکمل خاموش ہیں۔بغور جائزہ لیں تو معلوم پڑے گا کہ کسی بھی کام کا معاوضہ کوئی مافوق الفطرت قوت نہیں بلکہ معاشی ذرائع پر قابض طبقے طے کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان طبقوں کا کام صرف ایسے طریقے تلاش کرنا ہوتا ہے جنکے ذریعے بنا ہاتھ پاؤں ہلائے کام کرنے والے طبقوں کی محنت چرائی جاسکے۔اس چوری یا ڈاکے کو تقدس عطا کرنے کے لیے ایک ایسے دیوتا یا خدا کا پراپیگنڈا بہت کام آتا ہے جسے رزق کی اندھی کانی اور بے اصول تقسیم کا ذمہ دار بتا کر محنت کش طبقوں کو راضی برضا ہونے کی طرف مائل کیا جاسکے۔اب جبکہ صدیوں کے مسلسل پراپیگنڈے کے زور پر یہ بات انسانی نفسیات میں راسخ کی جا چکی کہ خدا کی مرضی کے بغیر پتا تک نہیں ہل سکتا تو رزق کی اس بے سر پیری تقسیم کو چیلنج کرنے کی جرأت کون کرے۔
انسانی زندگی میں ایک طویل دور ایسا بھی گزرا ہے جب نہ تو بارٹر سسٹم تھا اور نہ ہی کرنسی وجود میں آئی تھی۔ حضرتِ انسان پہلے جنگلی پھلوں اور پھر کچے گوشت پر گزارا کرنے پر مجبور تھا کیونکہ ابھی آگ دریافت نہیں ہوئی تھی۔ضرورت تھی تو محض اتنی کہ بدن کو بھوک اور قدرتی آفات کے عذاب سے کیسے بچایا جائے۔ یہ آج کی تہذیب تقسیمِ کار کے جس پیچیدہ نظام پہ کھڑی ہے اس کا تو سرے سے کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
ایک طویل دور ایسا بھی گزرا جب زندگی کی ضرورتوں کا غالب حصہ فصلوں کی پیداوار پر منحصر تھا ۔ آبپائشی کے ذرائع محدود تھے سو زمین کی زرخیزی آسمان کی مہربانی سے مشروط تھی۔انسان کا پختہ یقین تھا کہ آسمان پر ایسے دیوتا مقیم ہیں جو اسکی خوشحالی اور بدحالی دونوں پر قادر ہیں۔ قدرتی مظاہر کسی طلسمِ ہوشربا سے کم نہیں تھے۔ فطرت کے قوانین ابھی انسانی علم کی گرفت میں نہیں آئے تھے سو وہ ان سے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے مکمل طور پر انکے رحم وکرم پر تھا۔ان حالات میں یہ یقین ناگزیر تھا کہ آسمانوں میں کوئی ہے جو رزق میں کمی بیشی پر قادر ہے۔
دیوتا تو آسمان پر مقیم تھے مگر انکی موجودگی سے زمین محروم تھی۔ اس محرومی کو دور کرنے کیلئے دیوتا تو زمین پر نہیں اترے ہاں البتہ انسانی شکل میں انکے اوتاروں نے اس کمی کو خوب پورا کیا۔ دیوتاؤں کے خوف سے سہمے انسانوں نے جب اپنے ہی کچھ ہم جنسوں کو دیوتاؤں کا اوتار مان لیا تو ان اوتاروں کا یہ حق بھی بلا چون وچرا تسلیم کرلیا کہ انہیں دیوتاؤں کا دیا ہوا رزق واپس لینے کا بھی حق ہے۔ایسی صورت میں بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ملکیت اور عدم ملکیت کی بنیاد پر طبقات وجود میں نہ آتے۔
مذکورہ تقسیم نے نہ صرف انسانوں کی درجہ بندی کی بلکہ اس تقسیم کو عورت اور مرد کے رشتے تک پھیلا دیا۔ایک دور وہ بھی تھا جب عورتیں ایسے ہی بچے جنتی اور پالتی تھیں جیسے بن مانس کی مادہ ۔ نہ کوئی کسی کی بیوی تھی نہ کوئی کسی کا شوہر اور نہ ہی ابھی کوئی بہشتی زیور وجود میں آیا تھا جو یہ بتاتا کہ ایک لڑکی نے خود کو ’’اچھی اور سگھڑ بیوی‘‘ میں کیسے بدلنا ہے۔ سماجی ذمہ داری کا کوئی تصور نہیں تھا۔ عورت اور مرد کا رشتہ غالب حد تک محض جنسی ملاپ کے وقتی مزے تک محدود تھا۔ عورت ابھی بیٹی بہن بیوی اور ماں کے رشتوں میں نہیں ڈھلی تھی اور بچوں کو ابھی اولاد کا سٹیٹس نصیب نہیں ہوا تھا۔ گھر کا ’بانس‘ ہی نہیں تھا جو ذمہ داریوں کی بانسری بجانی پڑتی۔ بچے کی پیدائش عورت کی چوائس نہیں مجبوری تھی جو محض بدن میں وقتاََ فوقتاََ جاگنے والی جبلی بے چینی کو تسکین دینے کا نتیجہ تھی۔ اسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اس بچے کو وجود میں لانے کا اسکے علاوہ کوئی اور بھی ذمہ دار ہے۔ زندگی ابھی جبلتوں کی سادہ ترین سطح پر تسکین کے دائرے سے باہر نہیں نکلی تھی اور شعور اور سماج ابھی محض ایک امکان کا درجہ رکھتے تھے۔ حمل کی مجبوری نے عورت اور مرد کا دائرہ شکاری دور میں کسی حد تک مختلف کردیا تھا لیکن یہ اختلاف ایسا نہیں تھا کہ عورت کے استحصال کی بنیادبن جاتا۔
یہ فیوڈل دور تھا جب کام زنانہ اور مردانہ خانوں میں تقسیم ہوئے۔ قدرتی تقسیم تو صرف اتنی تھی کہ بچہ جننا اور اسے دودھ پلانا عورت کی مجبوری ہے ۔ اسکے علاوہ کونسا کام زنانہ ہے اور کونسا مردانہ یہ تو الہامی کتب بھی بتانے سے معذور ہیں۔ کام انسانی ضرورتوں کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں ۔ جوں جوں انسانی ضروریات کا دائرہ پھیلتا ہے اسی نسبت سے کاموں کی تعداد اور نوعیت میں پیچیدگی کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیپٹل ازم نے تو بنیادی انسانی ضرورتوں کے ایسے ایسے عمیق پہلو دریافت کرلیے ہیں جنکا تصور تک فیوڈل دور میں ممکن نہیں تھا۔مشین کی ایجاد نے مرد کی جسمانی طاقت کو ایک افسانے کی سطح تک گرادیا ہے۔
فیوڈل دور میں جب انسان کی روٹی روزی غالب حد تک زمین سے جڑی تھی ، مرد کا تخصص صرف حل چلانے تک محدود تھا ورنہ کھیت میں باقی کونسا ایسا کام تھا جس میں عورت شامل نہیں تھی۔ گھر ہمیشہ سے تھکے ہوئے مرد کی آرامگاہ سمجھا گیا ہے جسکے پس منظر میں یہ سوچ کارفرما نظر آتی ہے کہ مرد کا کام ہی اصل کام ہے اور عورت کا کام ، ’کام ‘کی تعریف سے باہر ہے، بھلے انکی نوعیت مرد کے کاموں جیسی ہی کیوں نہ ہو۔صفائی ستھرائی، کپڑوں کی دھلائی، سینا پرونااورکھانا پکانا، یہ سب زنانہ کام تصور ہوتے ہیں۔ مرد یہی کام کرے تو معاوضہ پائے اور عورت یہی کام کرے تو اسے سگھڑ کہہ کر بہلادیا جائے۔ یہ ہے مرد کی معاشی برتری کا کُل افسانہ جسے بڑی محنت کیساتھ ایک ’ابدی‘ مذہبی حقیقت کے طور پر راسخ کردیا گیا اور پھر اس غیر قدرتی بنیاد پر مرد کے عورت پر ایک درجہ افضل ہونے کے تصور کو پختگی بخشی گئی۔ کہا گیا کہ مرد چونکہ معاشی کفیل ہے سو گھر کی سربراہی بھی اسے ہی شوبھادیتی ہے۔عورت تو بس ایک مجہول اور مفعول کھیتی ہے جس میں مرد جیسے چاہے اپنی فعالیت کا حل چلائے اور اگر کبھی وہ بھولے سے ایک زندہ انسان کی طرح ری ایکٹ کرنے کی کوشش کرے تو اس پر ہاتھ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ تادیب اور بسترالگ کرنیسے لیکر طلاق دینے تک کے جملہ حقوق ہمیشہ کیلئے بحقِ مرد محفوظ کردئیے گئے۔
آج کے معاشی نظام کی تمام پیچیدگی کے باوجود ہر شخص اس حقیقت سے کم و بیش آشناہے کہ رزق کے کتنے ذرائع اب قدرت کی دسترس میں ہیں اور انسانوں کا اختیار کہاں تک جا پہنچا ہے۔کس کا رزق کون کس ہوشیاری سے ہتھیا رہا ہے اور کون کس کے وسائل پر کن حربوں کیساتھ قابض ہے۔ تیل اور بجلی میں اضافے کے احکامات آسمان سے نہیں اترتے بلکہ زمین پر ہی طے ہوتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز گندم ہتھیانے اور اسکی من مرضی کی قیمت وصول کنے کیلئے کسی خدا سے اجازت نہیں لیتے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بالائی طبقوں کی ذرا سی حرکت کس طرح محروم طبقوں کے چولہے بجھا دیتی ہے۔سورج کی طرح روشن ان حقائق کی موجودگی میں یہ ماننا کہ طبقات کسی ان دیکھی طاقت کی مرضی کا نتیجہ ہیں دن کے وقت آنکھیں موندنے کے مترادف ہے۔انسانی شعور معیشت کی اس تقسیم کو قدرتی ماننے سے صاف انکاری ہے چنانچہ اس مصنوئی تقسیم کے نتیجے میں جنم لینے والا عورت اور مرد کا اونچ نیچ والا رشتہ بھی غیر فطری اور غیر انسانی ہی ٹھہرے گا۔
ہمارے ہاں شہروں میں بسی ایک محدود سی مڈل کلاس کو چھوڑ کر ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد ایسے ازواج کی ہے جہاں بچوں کی تعداد طے کرنے میں عورت کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حمل سے لیکر بچہ پیدا کرنے تک ساری تکلیف عورت سہے اور خاندان کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ مرد کی مرضی سے طے ہو۔ اور پھر مرد جب چاہے اس عورت پر کئی بچوں کا بوجھ لاد کر اسے طلاق کا ٹھینگا دکھادے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ مرد کا درجہ اس بنا پر بیوی سے افضل ہے کہ وہ کماتا ہے لیکن اگر یہ صورت اُلٹ جائے تو پھر افضلیت کا تاج عورت کے سر پر رکھنے میں کونسی دلیل مانع ہے۔ کیا ہماری سوسائٹی میں روز بروز ایسے خاندانوں کی تعداد بڑھتی نہیں جارہی جہاں بیوی اور بیٹیاں ملکر ایک ناکارہ مگر نام نہاد سربراہِ خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔کیا ہمارے پاس کوئی ایسا مذہبی حکم بھی ہے جو ایسی صورت میں مرد کو خاندان کی سربراہی کے منصب سے معزول کرتا ہو؟ اب تو دنیا میں ایسی ریاستیں وجود میں آچکیں جہاںحکومت اپنے شہریوں کو نوکری نہ دینے کی صورت میں نہ صرف انکے نان نفقے کی ذمہ دار ہے بلکہ بچے کی پیدائش سے خاندان کو کئی طرح کی مالی مراعات حاصل ہو جاتی ہیں۔
ہم آج جس دور میں داخل ہوچکے ہیں وہاں فیوڈل دور کی سیدھی سادی اور یک سطحی دانش سے بلا سوچے چمٹے رہنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے مذہبی نابغے ابھی تک سماجی مسائل کا درست ادراک کرنے میں ناکام ہیں مگر پھر بھی اس بات پر مصر ہیں کہ وہ آج کے مسائل کا فیوڈل دور میں پنپنے والی دانش سے معانقہ کرواکے ہی دم لیں گے۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں