سردی کا سہانا موسم نوجوانوں اور صحت مند انسانوں کے لئے ہی رومانی ہوتا ہے ورنہ سردی کسی کہاوت میں موت ہی کا دوسرا نام ہے۔
کوئی وفات پا جائے تو ہم سنتے ہیں اس کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ،سرد ہو گیا ۔
اس کے مطابق سردی اور موت کا گہرا رشتہ ہے۔
کہاوتوں کا کیا ہے یہ تو انسان نے اپنے آپ اور سماج کو تسلی دینے کے لئے بنا رکھی ہیں، وہاں یہ ایک پوری نفسیات کی ترجمان بھی ہوتی ہیں اور اس معاشرے کی ترجمان بھی ہوتی ہیں جس میں یہ بولی جاتی ہیں۔
ہر زبان کی الگ کہاوتیں ہوتی ہیں۔ ان سے ہی ان کی سماجی نفسیات کو سمجھا جاتا ہے ۔ ایسی ہی ایک فرسودہ قسم کی کہاوت کچھ دنوں قبل ہماری سماعتوں کے گوش گزار ہوئی تو دل اس نفسیات اور کم فہمی پہ دہل سا گیا اور چاہا کہ یا اللہ پناہ مانگتی ہوں۔۔
بیٹیاں جنازوں کی زینت ہوتی ہیں۔”
بیٹیوں سے جنازے سجتے ہیں۔
اگر یہ جملے ایک بیٹی خود کہہ رہی ہو تو اسے سمجھنا چاہیے کہ وہ بھی صرف اپنے بزرگوں و گھر والوں کے جنازوں کی زینت ہے ؟ جنازے کی رونق ہے ؟ کوئی رودالی ہے؟ اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ اور پھر اگر ایسا بھی ہے تو بد نصیب ہو نگے وہ بزرگ جن کی بیٹیاں ان کے جنازوں پہ رودالی کا کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔
(رودالی کو سمجھنے کے لئے گلزار صاحب کی فلم رودالی دیکھ لیجئے یا لغت سے دیکھ لیجیے گا)
اس کہاوت کے پیچھے ایک پوری سماجی نفسیات ہے۔ بیٹی جب پیدا ہوتی ہے تو کوئی سماج اسے قبول نہیں کرتا۔ کوئی گھر اسے قبول نہیں کرتا۔ اس کو قبول کرنے کا ایک جواز دے دیا گیا کہ بیٹے تو میت پہ بین نہیں کریں گے ان کو سماج نے رونا منع کیا ہوا ہے۔
مرد رو نہیں سکتا ،والی نفسیات، مرد کو درد نہیں ہوتا، والی ایک جابر کہاوت اس کے بعد مرد جلاد اور ظالم ہی بنے گا۔
بات کریں بطور مسلم تو میت پہ بین ،رونا ،ماتم کی گنجائش نہیں ہے۔ مرنے والے کو تکلیف پہنچتی ہے۔ صدمے سے آنسو بہہ جانا ایک فطری عمل ہے مگر وہ تو غیروں کے بھی بہہ جاتے ہیں اگر ان کے سینے میں دل ہو۔
وہ تو غیر بھی رو پڑتے ہیں اگر دنیا سے جانے والے کی زندگی اس کی موت کا خلاصہ تھی۔
ایک اورطویل حدیث مبارکہ ص کا مفہوم و خلاصہ و تشریح ہے کہ جسے رب چاہتا ہے اس کی محبت وہ مخلوق کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
گویا کہاوتوں سے ذہن سازی کا کام لیا جاتا ہے اور ہم اسے سچ سمجھ لیتے ہیں کیونکہ ہم کبھی کوشش نہیں کرتے کہ کوئی مآخذ ہم پہ کھل جائے۔ کوئی جادو گری ، کوئی سحر آسیب بن جائے۔
قرآن کہتا ہے بیٹے دنیا کی زینت ہیں۔ اس کے مقابل یہ کہنا کہ بیٹیاں جنازوں کی زینت ہیں۔۔۔
جب کہ اسلام بیٹی کو جنازے کی زینت نہیں کہہ رہا ۔ اسلام میں بیٹی رحمت ہے ۔ جب وہ پیدا ہوتی ہے تو اللہ اس کے باپ کا ساتھ دینے کے لئےفرشتے اُتارتا ہے۔
کسی بھی مذہب میں ایسا نہیں کہا گیا کہ بیٹیوں سے جنازے سجتے ہیں۔
کیا ہم انبیاء کی بیٹیوں کو بھی اسی مقام پہ رکھیں گے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو مریم کا مقام کیا ہو گا؟اور باقی سب درجہ اوّل کی بنت حوّا کا کیا مقام رہے گا؟
یہ جملہ عورت کی پوری حیثیت کی نفی کرتا ہے۔
اگر اسلام کی بات کی جائے تو ایک حدیث مبارکہ ص کے مطابق “موت انسان کی زندگی کا پتا دیتی ہے”
یعنی انسان نے زندگی کیسے گزاری ہے اس کا تعین موت کرتی ہے۔
اس کو مزید وسعت سے سوچیں تو موت مکافات عمل ہوئی
اب یہ بھی کہاوت میں شمار ہے کہ موت انسان کی زندگی بتاتی ہے۔ مگر یہ حدیث ہے اس کا بہت کم مسلمانوں کو علم ہو گا ۔ وہی آدھے ادھورے زمین پہ پیشانی مارتے ہم مسلمان جن کوقر آن میں بار بار کہا گیا غور فکر کرو۔
مگر اس نے یہ سمجھ لیا کہ دوسروں پہ ، رشتہ داروں ، محلے والوں پہ ، دوست احباب پہ ہی غورو فکر کرنا ہے۔
قرآن نے غور وفکر کی حدود متعین نہیں کیں بلکہ یہ لا متناہی سفر ہے جس کو انسان نے اپنے شوق ، ذوق اور ظرف کے مطابق خود ہی متعین کرنا ہے۔
کاش ہم مسلمان ایک بار صرف قرآن کا ترجمہ اپنی زبان میں پڑھ لیں تو کوئی چار اطوار زندگی کے ہمیں آ جائیں گے مگر ہم اپنی زندگی آخرت کے نام پہ دنیا کی مشقت میں گزار رہے ہیں اور جہاں جب بیٹھے ہیں ایک دوسرے کو موت کا خوف دیتے ہیں آخرت کا ڈر دیتے ہیں
یہ ڈر ہم کیوں بانٹ رہے ہیں؟
سوچیں اگر آپ نے سارا سال پڑھا ہے کسی مضمون کی مکمل تیاری کی ہوئی ہے تو ہمیں امتحان دینے سے ڈر لگے گا ؟
نہیں ناں
کیونکہ ہم نے تیاری کی ہوئی ہے ہمیں یقین ہے ہم پاس تو ہو ہی جائیں گے چاہے کم نمبروں میں پاس ہوں۔
یہی حال زندگی کا ہے اگر اعمال سے تیاری کی ہوئی ہے تو ہمیں موت سے ڈر نہیں لگے گا ۔ اگر صرف عبادت کی گنتی کی ہوئی ہے تو ہم ڈرے ہونگے ۔
عبادت کا فلسفہ ہی ڈر ہے۔
ہمارے پاس جو ہوتا ہے ہم وہی بانٹتے ہیں۔
قرآن رشتہ داروں کے حقوق کو سادہ لفظوں میں کہتا ہے کہ نبھانا ہے یہ امتحان ہے کہ نبھانا ہے اور یہ رشتہ دار واحباب کسی کی موت کا کاندھا ہوتے ہیں۔ کاندھا مشکل وقت میں دیا جاتا ہے ۔
اس کو زینت کہہ لیجیے یا جمال یہ اپنی سوچ و اپنے ظرف پہ ہے۔

اللہ پاک ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آسان اور حسین موت نصیب فرمائے، کسی ایسی آزمائش میں نہ ڈالے کہ ہمارے مرنے کے بعد دنیا والوں کوکہاوتوں کے کندھے کی ضرورت پڑے آمین۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں