ہمارے بچے کیا کھا رہے ہیں؟-قمر رحیم

ماں کی مار، باپ کے پیار، دادی دادا کے لاڈ کے علاوہ ہمارے بچے جو کھا رہے ہیں سب ناخالص ہے۔ہم نے ابھی تک گھر میں بھینسیں اور گائے وغیرہ رکھی ہوئی ہیں۔ ان کے کٹے کٹیوں اور بچھے بچھیوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کتنے خوش قسمت ہیں ہمارے بچوں سے زیادہ اچھی اور خالص خوراک کھا رہے ہیں۔ 1999ء میں میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ چارمہینے کا سفر کیا۔ منڈی بہاؤالدین میں ہماری تشکیل تھی۔ شب جمعہ کے اجتماع میں ایک آدمی کا بیان تھا جو پاکستان سے امریکہ جانے والی پہلی جماعت میں شامل تھا۔ نیوی کا ریٹائر ڈافسرتھا اوراب اس کا ایک ہی کام تھا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا۔ اس نے کہا اللہ کے راستے میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس لیے خوب مانگا کرو۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا مانگو گے؟ کٹی کٹا مانگو یا ہدایت ، یہ تم پر ہے۔ کہا ، رزق کے معاملے میں زیادہ سیانے نہ بنو۔ کوّا سب سے سیانا جانورہے مگر اپنی عقل کی بدولت گندگی کھاتا ہے۔ کٹّا سب سے زیادہ سادہ لوح جانور ہے۔ لیکن اللہ اُسے زبردستی اطیب رزق عطا کرتا ہے۔یہاں پر انہوں نے رزق کی قسمیں بھی بیان کیں اور بتایا کہ اطیب رزق سب سے پاک اور اعلیٰ درجہ کا رزق ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ بچوں کے کھانے پینے کے معاملے میں ہم بہت سیانے ہو گئے ہیں۔

میرے ایک دوست نے گھر کے پاس ہی دکان کھولی۔ ایک دن میں ا س کے پاس بیٹھا تھا۔ تقریباً بیس منٹ میں اس کا بچہ جب پاپڑ کا چوتھا پیکٹ اٹھانے لگا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔وہ زارو قطار رونے لگااور اس نے پاپڑ نہ چھوڑا۔میں نے دوست کو کہاتمہارا بچہ اگر اسی طرح یہ چیزیں کھاتا رہا تو یہ بیمار ہو جائے گا۔ایک ہی سال گزرا ہو گا کہ وہ بچہ بیمار ہو گیا۔اس کی پیشاب کی نالی اور مثانے میں ان فیکشن ہو گیا۔ وہ مرتے مرتے بچا اور ایک سال تک اس کا علاج چلتا رہا۔چند دن پہلے ایک دوست ملا۔ اس کے بیٹے کا جگر خراب ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بازار کی چیزیں کھانے کی وجہ سے یہ مسئلہ ہوا ہے۔ ایسے اور کتنے کیس ہوں گے۔ یہ ڈاکٹر لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔

میں نے ایک دن فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ بازار کی چیزیں بہت نقصان دہ ہیں ۔ اس لیے بچوں کا جیب خرچ بند کر دیا جائے۔ ایک دوست نے کہا، یہ تمہارا ہمارا دور نہیں ہے۔ بچے 50 روپے لیے بغیر سکول نہیں جاتے۔ میرے والد 1975 ء میں دبئی چلے گئے تھے۔ لیکن ہم ایک مدت تک پیسوں کی شکل سے بھی واقف نہ تھے۔ ہائی سکول دریک میں ایک کینٹین تھی جس پر سینئر کلاسوں کے لڑکے چائے بھی پیتے تھے اور باقر خانی بھی کھاتے تھے۔ غالباً  چار آٹھ آنے کی چائے تھی اور اتنے ہی کی باقر خانی ۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے آٹھویں تک ایک دن بھی اتنی عیاشی کی ہو۔صبح مکئی کی روٹی دہی میں مروڑ کر کھا لیتے تھے اور سکول سے واپسی پر نچلے طاق میں رکھی “گلنی” کی لسّی ،مکئی کی روٹی “پلوٹی” پر بچی کھچی چٹنی کے ساتھ کھا کر ڈکار مارتے ہوئے بھینسیں چرانے چلے جاتے تھے۔ سکول میں ہم نے کتابوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ پڑھتے تو سیکھتے۔ جو سیکھا، اساتذہ اور والدہ کی مار ، جانوروں کی کمپنی اور اسُوج کے کام سے سیکھا۔یہ سیکھا ہوا اتنا کام آیا کہ پروفیشنل لائف کی بڑی سے بڑی مشکلات مجھے اسُوج کے کام سے زیادہ مشکل نہیں لگیں۔مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آئی، میں نے کی بورڈ کو درانتی اور سکرین کو کھیت سمجھ کر کام کیا۔ اعتماد ایسی طاقت ہے، اگر آپ اس کو ساتھ لے کر حسین کوٹ کےپہاڑ کو جپھّی دے دیں تو اسے اٹھا کر پونچھ شہر کے دروازے پر چھوڑ آئیں۔ اعتماد کی یہی کمی ہماری آزادی کی راہ میں حائل ہے۔دوسری چیز جو کامیابی کی ضامن ہے وہ اخلاص ہے۔ آپ کوئی بھی کام کریں اس میں سے اپنی ذات کو نفی کرلیں۔ کام ہو جائے گا۔

راولاکوٹ نے انگڑائی لے لی ہے۔ لوگوں نے اپنے شہر کو صاف کرنے کے لیے کچرے اور گندگی پر یوں ہلّہ بول دیا ہے جیسے پاگل کُتے پر ٹوٹ پڑے ہوں۔ وہ پر اعتماد ہیں کہ وہ اس شہر کو صاف ستھرا، خوبصورت، سیلف ڈسپلنڈ اور معاشی طور پر خود کفیل شہر بنا کر دم لیں گے۔اس اعتماد کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ بتدریج اپنے ا ہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بچوں کے کھانے پینے کے معاملے میں ہمیں سیانا بننے کی بجائے سادگی پر آنا پڑے گا۔ بچے اگر بازار میں چمکتے ریپرز کو دیکھ کر ترستے ہیں تو انہیں ترسنے دیں۔ بس انہیں یہ سمجھانے کی دیر ہے کہ چمکتے ہوئے ان ریپرز کے اندر ذائقہ دار زہر بھرا ہوا ہے۔ جو آپ کو آہستہ آہستہ کئی ایک مہلک بیماریوں کی طرف دھکیل رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سوشل میڈیا پر ان ناقص اور نقصان دہ چیزوں کے خلاف ایک آگاہی مہم شروع کر رہے ہیں۔ عوام الناس سے ہماری اپیل ہے کہ بچوں کو لنچ گھر سے بنا کر دیں اوران کا جیب خرچ بند کر دیں۔ اساتذہ بھی اس ضمن میں ڈسپلن بنائیں۔ جس بچے کی جیب سے پیسے ملیں ا س کے والدین پہ جرمانہ کریں، وغیرہ وغیرہ۔آئیے ہم مل کر جسمانی و ذہنی طور پر ایک صحت مند اور حقیقی معنوں میں ایک باشعور نسل تیار کریں۔ جو ملک وو قوم نہ سہی، اپنے والدین کو تو سنبھال سکے۔ خود ایک صحت مند زندگی گزار سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply