پانچواں باب،
مغالطے اور ازالے؛
اس باب میں کچھ مغالطوں کا ازالہ اور اعتراضات کا جواب کیا جائے گا۔
اگرچہ معمولی غوروفکر کرنے والا شخص بھی جان سکتا ہے کہ جمہوریت پر جتنے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہ صرف اور صرف مذہبی آمروں کی طرف سے سیاسی آمروں کو جواز فراہم کرنے کے لئے گھڑے گئے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف آمریت کے شجرہ خبیثہ کا تحفظ اور عام انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کے جواب بہت واضح ہیں اور ہمیں ان کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ احکامِ شریعت سے ناواقف لوگ یا غیر مسلم اقوام ان لاطائلات کو مسلم علما کے کھاتے میں ڈال دیں گے اور وہ یہ گمان کریں گے کہ ایسی چیزوں کے حوالے سے بھی شریعت میں اختلاف موجود ہے۔ مبادا اس کو بہانہ بنا کر وہ دین کے حوالے سے دشنام طرازی پر اُتر آئیں، اس لئے اس کتاب میں ہم ان میں سے چند بنیادی مغالطوں کو نقد کریں گے۔ اور باقی مغالطوں کے جواب میں اپنے قیمتی وقت کو ضائع نہیں کریں گے۔ ہوسکتا ہے راقم کبھی اس حوالے سے کوئی تحریر لکھنے کی کوشش کرے (1)۔
جیسا کہ گزشتہ بیانات سے واضح ہوچکا کہ حکومت اسی صورت میں عادلانہ ہوسکتی ہے جب اس کی بنیاد دو اصولوں پر رکھی جائے یعنی آزادی و برابری۔
نیز یہ کہ حکومت کے شورائی ہونے کے لئے آئین اور پارلیمنٹ ضروری ہے۔
اس لئے اب ہم وہ بنیادی مغالطے بیان کریں گے جن کا تعلق انہی چار چیزوں (آزادی، برابری، آئین، پارلیمنٹ) سے ہے۔
پہلا مغالطہ اور اس کا ازالہ:
اس باب میں مغالطوں کا باپ یہی مغالطہ ہے جو آزادی و حریت کے اصول کو نشانہ بناتا ہے۔ اور اس کا ازالہ سب سے اہم ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے باب میں بیان کرچکے ہیں کہ ملوکیت و آمریت دراصل ملت کو غلام بنا کر اپنی مانی کرنے کا نام ہے۔ اور یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ اسلام میں ملوکیت و آمریت کا آغاز کب ہوا تھا۔
جبکہ صحیح اسلامی حکومت وہ ہے جس کی بنیاد انسانوں کی آزادی پر قائم ہو۔
لہذا ملوکیت و آمریت کو ختم کرکے حکومت کی اسلامی شکل بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانوں کو اس غلامی سے آزادی دلائی جائے۔
یاد رہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی آمریت و ملوکیت کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں، وہ دراصل آزادی کے حصول کی خاطر ہی ہیں۔ ان تحریکوں کو دین کے خلاف نہیں سمجھنا چاہئے۔
چونکہ ہر قوم چاہے وہ دیندار ہو چاہے دہریوں کی قوم ہو، بہرحال آمریت سے آزادی چاہتی ہے۔اور آزادی کی اس خواہش کا مطلب دین سے آزادی نہیں بلکہ سیاسی آمروں کی غلامی سے آزادی ہے۔
یعنی کوئی بھی قوم اپنے مذہب سے آزادی نہیں چاہ رہی، بلکہ وہ صرف دین دشمن آمروں سے آزادی کے طلب گار ہیں جنہوں نے ان کے حقوق پر قبضہ جمارکھا ہے۔
بلکہ انبیاء الہی کا اپنے دور کے فرعونوں کے خلاف اور انبیاء کے پیروکاروں کا اپنے دور کے طاغوت(2) کے خلاف شدومد سے تحریک چلانے کا مقصد ملت کو اس عظیم نعمت الہی سے سرفراز کرنا تھا جس کا نام “آزادی” ہے۔
اسی وجہ سے آمریت پرستوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عام لوگ کبھی اس حقیقت کو سمجھ نہ سکیں اور ان کی آنکھوں پر عقیدت کے پردے پڑے رہیں۔
وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ آزادی جیسی عظیم نعمتِ الہی کو مسیحی اقوام کے مذہب و دین کے ساتھ جوڑتے ہوئے اسلام سے اس کی لاتعلقی ظاہر کریں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملت ایران پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ملامحراب حکیم جیسے صاحب علم و حکمت پر صرف اس لئے لعنت کی گئی کہ وہ واجب الوجود کے ایک ہونے کا قائل تھا، اور ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت موسی کلیم الله (ع) جیسے عظیم نبی سے صرف اس لئے برأت کا اظہار کرنے لگ گئے تھے کیونکہ وہ یہودیوں کے نبی تھے۔ اور عوام ایسی باتوں پر سر دھنتی تھی۔
یہاں تک کہ صرف نام کی مماثلت کی وجہ سے ساتویں امام یعنی امام موسی کاظم (ع) کی توہین کی جاتی رہی۔
لیکن اب وہ وقت گزر چکا ہے اور اب ملتِ ایران کو مزید بے وقوف بنانا ممکن نہیں۔ اب عام انسانوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھلا رکھنا سیکھ لیا ہے۔
اور وہ سمجھ سکتے ہیں کہ آزادی کی اہمیت و قدر وقیمت کیا ہے؟
علاوہ ان دلائل کے جو آزادی کے حق میں بیان کئے جاچکے ہیں اور ہم نے بتایا کہ انبیاء الہی نے انسانوں کی آزادی کو کتنی اہمیت دی ہے۔
یہ بات بھی آپ جان چکے ہیں کہ آمریت کا مطلب ہے حکومت پر غاصبانہ قبضہ کرنا۔ اور آئینی جمہوریت (مشروطہ) کا مطلب ہے اس قبضے کا خاتمہ کرنا۔
آمریت کے خلاف ہر مذہب و مسلک کے لوگ تحریک چلارہے ہیں،
اس لیے نظریات اور مذاہب کا اختلاف بالکل الگ چیز ہے۔ اس کا آمریت و جمہوریت کی بحث سے کوئی تعلق نہیں۔
مزید برآں ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے انسانوں نے آزادی کی اہمیت کو سمجھا اس وقت سے ہی مسیحی اقوام وسیع المشرب ہونے کے باوجود آزادی کی تحریک میں متحد ہیں۔ بلکہ وہ جماعتیں جو کسی دین ومذہب کی پابند نہیں اور انتہا درجے کی وسیع المشرب ہیں وہ سب آزادی کے حصول کے لئے آمریتوں سے جنگ کرتے رہے ہیں اور ہم مسلمانوں سے زیادہ اس راستے میں تکلیفیں اٹھاتے رہے ہیں۔
اور ہم سے کئی گنا زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھا کر انہوں نے آزادی جیسے سرمائے کو حاصل کیا ہے جو قوموں کی زندگی اور بقاء کا اصل راز ہے۔
یہ بات اندھا بھی سمجھ سکتا ہے کہ زار روس جیسے جابر و قاہر بادشاہوں کے خلاف روسی اقوام نے کتنی تکلیفیں اٹھائیں اور کس قدر قربانیاں دیں اگرچہ ابھی تک ان کو مطلوبہ کامیابی نہیں ملی (3) کیونکہ وہاں آمریت کے شکنجے بہت سخت ہیں۔
حالانکہ روسی قوم بڑی وسیع المشرب ہے اور دیگر مسیحی اقوام کے ساتھ مذہب میں متحد ہونے کی وجہ سےان کا طرز زندگی دیگر مسیحی اقوام جیسا ہے، اور مسیحیت کی ترویج میں ان کی کوشش و کاوش بھی دیگر مسیحی ممالک کی طرح ہے لیکن یورپی مسیحی اقوام آزادی کے اعلی درجے کو حاصل کرچکی ہیں۔ جبکہ روسی قوم ابھی اس حوالے سے پیچھے ہے اور وہ ابھی تک آمریت سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔
اس چیز کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آزادی کو مسیحی مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔
کیونکہ یہی اقوام پہلے بھی مسیحی تھیں اور اب بھی مسیحی ہیں، لیکن پہلے آمریت کے تابع تھیں اور اب آزادی کی نعمت سے سرفراز۔
اگر ان ساری باتوں سے چشم پوشی کرلی جائے تب بھی ان لوگوں کی مغالطہ سازی کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونگی۔ کیونکہ ملت اب بیدار ہوچکی ہے اور اپنے دین کے تقاضوں سے بھی آگاہ ہے۔
ملت اچھی طرح سمجھتی ہے کہ مسیحیت بطور مذہب، جوساری مسیحی اقوام میں مشترک ہے اور آمریت سے آزادی کی خواہش دو مختلف چیزیں ہیں۔
ملت ان مغالطوں اور افترا پردازیوں کی وجہ سے کبھی بھی دوبارہ آمریت و استبداد کو قبول نہیں کرے گی۔ اور خوارج کی طرح “لاحکم الا لله” کا نعرہ لگا کر اپنے زمانے کے امام (عج) کے خلاف تلوار نہیں اٹھائے گی نہ ہی اپنے دینی رہبروں سے بغاوت کرے گی۔
آمریت پرست اب صرف خوابوں میں ہی وہ دن دیکھ سکتے ہیں جب وہ آمریت سے آزادی کو الحاد و دہریت اور زندیقی قرار دیتے تھے۔ اور آمریت کو آئین میں پابند کردینے کو اسلام کے مقابلے میں ایک نیا دین قرار دیتے تھے۔ اور مسلمانوں کو اس غلامی میں رہنے پر آمادہ کرتے رہتے تھے۔ اور اس خدمت کے عوض شاہوں سے انعامات اور جاگیریں دریافت کرتے تھے۔
عرضِ مترجم:
ایران میں برپا ہونے والے ایشیا کے پہلے جمہوری انقلاب کی تحریک کے دوران کچھ لوگوں(شیخ فضل اللہ نوری و دیگر مخالفین) نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا تھا کہ آزادی کا تصور اسلام میں نہیں۔ اور یہ مسیحیت سے درآمد کیا گیا ہے۔ علامہ نائینی نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آمریت سے آزادی کی جدوجہد میں تمام اقوام شریک ہیں۔ چاہے وہ مذہب مسیحیت کی پابند ہوں۔ چاہے مذہب کے معاملے میں لاپرواہ۔ لیکن آزادی تمام اقوام کی مشترکہ آرزو رہی ہے۔ اور یہ کہ نہ صرف اسلام، آزادی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے بلکہ تمام انبیاء، انسانوں کو طاغوت سے آزادی کا راستہ ہی دکھاتے رہے ہیں۔ اس لئے اس کو مسیحی مذہب کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔ آزادی تمام انسانوں کی مشترکہ آرزو ہے۔)
دوسرا مغالطہ انسانوں کی برابری کے حوالے سے ہے:
جس طرح کسی نظام حکومت میں آمریت کا خاتمہ کرکے اس کو اسلامی رنگ میں ڈھالنا صرف آزادی کی بنیاد پر ممکن ہے۔ اسی لئے آزادی کے باب میں مغالطے پیش کئے گئے تاکہ لوگ آزادی سے نفرت اور آمریت سے محبت کرنا شروع کردیں۔
اسی طرح عادلانہ اور انصاف پر مبنی حکومت کے لئے ضروری ہے ملت کے تمام افراد کو برابری کا درجہ دیا جائے۔ اور اس باب میں حکمران اور رعیت میں کوئی فرق روا نہ رکھا جائےصرف اسی صورت میں کسی حکومت کو آمریت میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
جناب امیر (ع) کی ایک زیارت ہے جسے زیارت غدیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں ہم ایک جملہ پڑھتے ہیں۔”انت القاسم بالسویة و العادل فی الرعیة” (4)
ترجمہ: آپ لوگوں میں برابرتقسیم کرنے والے اور رعیت میں عدل کرنے والے ہیں۔
اس جملے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جناب سید الاوصیاء کے نزدیک مساوات و برابری حکومت کا بنیادی رکن ہے۔
کسی بھی قوم کی سعادت اور قومی زندگی “برابری” کے اصول سے قائم ہے۔ اسی اصول کی رو سے حکومتی عہدیداروں کو ذمہ دار اور اپنے اعمال کا جوابدہ بنایا جا سکتا ہے۔
شاید اسی وجہ سے آمریت پسندوں نے برابری کے اصول کو اتنا بگاڑ کر پیش کیا تاکہ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقوام بھی اس سے بیزار ہو جائیں۔
حالانکہ جو شخص بھی شریعت اسلام کو غور سے پڑھے گا وہ جان لے گا کہ شریعت میں مکلّفین (5) کے مختلف درجات ہیں۔ اور مختلف درجوں کے لئے شرعی احکام بھی مختلف ہیں۔ اور یہ چیز دین اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بلکہ ہر دین و مذہب میں ایسا ہی ہے۔ بلکہ یہ تو بشریت کے تقاضوں میں سے ہے۔ سو وہ جو کسی شریعت و مذہب کے قائل نہیں وہ بھی اس تقسیم کو قبول کرتے ہیں کیونکہ نہ تو عقل مند اور دیوانے پر ایک جیسا حکم لگتا ہے نہ مجبور اور خود مختار کا حکم برابر ہے۔
اور اس لحاظ سے انسانوں کے کئی درجے ہوتے ہیں۔ اور ہر درجے کا حکم بھی مختلف ہوتا ہے۔ درجات کا یہ اختلاف تمام اقوام میں موجود ہے۔
یہ اتنی واضح بات ہے کہ ایک نابالغ بچہ جو کسی حد تک سمجھ دار ہو، وہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے۔
لہذا دنیا بھر کے قوانین میں، چاہے ترقی یافتہ اقوام کا قانون ہو یا پس ماندہ اقوام کا- مختلف اصناف کے لئے شرعی یا قانونی احکام مختلف ہوتے ہیں۔ اور اس تفریق کو ختم کرنا خلافِ عقل اور جملہ اقوام کے قوانین کی تنسیخ کے برابر ہے۔
لہذا اس اختلاف وتفریق کو برابری کی نفی کی دلیل بنانا درست نہیں۔
برابری کا قانون اسلامی سیاست کا افضل ترین قانون ہے۔ جو عدالت کی بنیاد اور تمام قوانین کی اصل روح ہے۔
اسلام نے برابری کے اصول کو جتنی اہمیت دی ہے وہ ہم پہلے باب میں بیان کرچکے ہیں۔
ہمارے نزدیک برابری کی درست تشریح یہ ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلق جو قانون کلی شریعت نے پاس کیا وہ نفاذ کے مرحلے میں تمام افراد پر یکساں لاگو ہوگا۔ کسی فرد کو دوسرے فرد پر خصوصی امتیاز حاصل نہیں۔ چاہے کتنا بڑا عہدیدار کیوں نہ ہو۔
اور نہ ہی کسی کو شرعی احکام کے وضع کرنے یا نسخ کرنے کا اختیار ہے نہ کسی خاص فرد سے چشم پوشی کرنا روا ہے۔
قانون کی مخالفت، کرپشن اور من چاہی حکمرانی مکمل ممنوع۔
مذہب و فرقے سے بالاتر ہو کر ہر فرد کے جان، مال، عزت، روزگار اور مکان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بغیر قانونی جواز کے کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت، اور کسی کو بلاوجہ زندان میں ڈالنا یا ملک بدر یا شہر بدر کرنا جائز نہیں۔
قانون کی حدود میں رہتے ہوئے ہر شخص کسی بھی اجتماع میں شریک ہو سکتا ہے۔
یہ قوانین سب کے لئے برابر ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ قوانین ایک فرقے/ مذہب کو حاصل ہوں اور دوسرے کو حاصل نہ ہوں۔
کسی ملک کا شہری قرار پانے کے بعد انسانوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے، مثلا ً مدعا علیہ چاہے اعلیٰ طبقے کا فرد ہو چاہے نچلے طبقے کا، عالِم ہو یا جاہل، کافر ہو یا مسلمان ہر صورت میں اس کو عدالت میں حاضر ہوکر مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور قاتل، ڈاکو، چور، زانی، مرتد، شرابی، رشوت لینے والا اور دینے والا، ظلم کرنے والا، کسی کا حق چھیننے والا، اوقاف عامہ یا خاصہ پہ قبضہ کرلینے والا، یتیموں کا مال کھانے والا، ملک میں فساد پھیلانے والا وغیرہم، سب پر قانون و شریعت کا حکم لاگو ہوگا اور کوئی بھی فرد اپنے مقام و مرتبے کا فائدہ اٹھا کر قانون سے بچ نہیں سکتا۔
اسی طرح ذمیوں (6) اور مسلمانوں کے احکام بھی مقام و مرتبے کا لحاظ کئے بغیر سب پر جاری ہونگے۔
یہ ہے برابری کا اصول جو کہ جملہ سیاسی و ملکی قوانین کی روح ہے۔ اور دین اسلام بھی اسی مساوات وبرابری پر قائم ہے۔
اور دو اسلامی ملکوں (7) کا آئین بھی اسی برابری کے اصول پر قائم ہے، وہ برابری جو عدالت کی روح ہے۔
اس برابری کی بنیاد اُس مغالطے پر نہیں جو ان منکرینِ شریعت کی طرف سے ایجاد کیا گیا ہے اور جو تمام ادیان کا مخالف ہے۔
اور جب ہم دونوں اسلامی ملکوں کے آئین کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہوا کہ قانون کے سامنے ملت کے سب افراد برابر ہیں۔
لہذا مساوات و برابری کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ جو بھی قانون بنائے وہ سب پر برابر طور پر لاگو ہو اور کوئی بھی آمر یا حکومتی عہدیدار قانون کے اطلاق میں اپنی ذاتی خواہشات کو دخل نہ دے سکے۔
دنیا کی دوسری قوموں کے نزدیک بھی برابری کا معنی یہی ہے۔ کیونکہ اگر اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لیا جائے تو اس سے سارے قوانین برباد ہوجائیں گے۔
اور دنیا کی دوسری اقوام کی سیاست اور اسلامی سیاست میں فرق صرف قوانین کی تفصیلات میں ہے۔ جہاں تک برابری کے اصول اور قانون کے نفاذ کی بات ہے تو تمام قوموں کے نزدیک برابری بنیادی اصول ہے۔
اور جب ہم قوانین کی ذیلی اور تفصیلی شقوں کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھال کر اس کے نفاذ میں برابری کا اصول اپناتے ہیں تو اس صورت میں طاقتور کی کمزور پر اور اشرافیہ کی عام لوگوں پر برتری ختم ہوجاتی ہے۔
اور “برابری” کے اس اصول کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ملت کو نئی زندگی ملے گی، پیغمبراسلام (ص) کی سیرت سماج میں قائم و رائج ہوگی، آمروں کے اختیارات بالکل ختم ہو جائیں گے یا کم از کم محدود ہوجائیں گے، حکومتی عہدیداروں کو من مانی کے مواقع نہیں ملیں گے۔
لیکن چونکہ مذہبی آمروں کا اصل مقصد اپنے آپ کو اور سیاسی آمروں کو عوام سے بالاتر رکھنا اور اپنے طبقے کے اقتدار کو تحفظ دینا ہے۔ اس لئے وہ برابری کے عادلانہ اصول کو توڑ مروڑ کر بدصورت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور شریعت اسلامی میں مذکور مختلف اصناف کے لئے الگ الگ احکام کو برابری کی نفی کی دلیل بناتے ہیں۔
یہ لوگ تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں
جیسے قرآن مجید نے یہودیوں کے بارے میں فرمایا ہے۔
“وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ
ترجمہ: “حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے”
سورہ بقرہ آیت 75۔
اور یہ کہ “لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا”۔
“ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں”۔
یہ بات بڑی واضح ہے کہ آئین کا مقصد سربراہِ حکومت اور دوسرے حکومتی عہدیداروں کے اختیارات کو محدود کرنا اور ان کی ذمہ داریاں مقرر کرنا ہے، جبکہ تفصیلی قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو ملکی قوانین ہیں جو نظام کی حفاظت کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
اور دوسرے وہ شرعی قوانین ہیں جو سماج کی تمام اصناف کے لئے برابر ہوتے ہیں۔
جبکہ عبادت سے متعلق قوانین اور دوسرے مذہبی معاملات جیسے نکاح، طلاق، وراثت کے قوانین یا حدود وغیرہ کے احکام یعنی وہ تمام احکام جو مجتہدین کی فتاوی کی کتابوں میں مذکور ہوتے ہیں۔ ان سارے معاملات سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ اور حکومت اس حوالے سے قانون نہیں بناتی بلکہ ہر شہری اپنے دین کے مطابق ان اعمال کو انجام دیتا ہے۔
ان سارے مسائل میں حکومت کا کام صرف قوانین کو نافذ کرنا ہے۔
مثلا شرعی حدود کا بیان حکومت کا کام نہیں۔ بلکہ یہ مجتہد و مفتی کا کام ہے۔
اسی طرح عدالتی معاملات میں بھی برابری کا اصول لاگو کرنا حکومت کا کام ہے۔ جبکہ احکام کی تفصیلی جاننے کے لئے مجتہدین کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
حکومت شرعی احکام کے بیان میں مداخلت نہیں کرسکتی، اس کا کام قانون کو بلاتفریق جاری کرنا ہوتا ہے۔
یہ باتیں ہر خاص و عام پر واضح ہیں لیکن اس کے باوجود مذہبی آمروں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے یہ مغالطہ پیش کیا کہ شریعت میں مختلف اصناف کے لئے الگ الگ حکم موجود ہیں۔ اور اس طرح برابری کے اصول کی مخالفت کی۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جب یہ واضح کیا جاچکا تھا کہ برابری کے اصول کا مقصد حکومتی عہدیداروں کو عام شہریوں کے برابر ٹھہرانا ہے۔ اس کا مقصد اصناف کے درمیان امتیاز کا خاتمہ نہیں۔ لیکن اس طبقے نے ایک اور مغالطہ ڈال دیا کہ اگر اسمبلی کے قوانین اسلام کے مطابق ہیں تو پھر برابری کیسے ممکن ہے؟ اور اگر یہ قوانین اسلام کے مخالف ہیں تو ان کو قانون کا درجہ کیونکر مل سکتا ہے؟
اس مغالطے کی نفی بھی بڑی آسانی سے ممکن ہے کیونکہ آئین و قانون تو سب کے سامنے لاگو ہوچکے ہیں۔ ان میں کوئی بات خلاف اسلام ہوتی تو نظر آجاتی۔ (8)
اس آئین کا اصل مقصد یہ تھا کہ حکومتی عہدیداروں کو کھلی چھوٹ نہ دی جائے کیونکہ ایسا کرنا اسلام کی مخالفت ہے۔
جبکہ اسلام کے شرعی احکام طہارت و عبادت کے مسائل سے لے کر حدود کے قوانین تک، حکومتی افراد سے نہیں پوچھے جائیں گے۔
مشہور محاورہ ہے کہ اخروٹ گول ہوتا ہے لیکن ہر گول چیز اخروٹ نہیں ہوتی۔
لیکن ان خود غرض لوگوں نے اتنی واضح بات کو بھی بھلا دیا۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر حق کا دفاع مقصود نہ ہوتا تو ایسی باتوں کا جواب دینا، میں اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنے کے برابر سمجھتا۔
(خلاصہ از مترجم؛ ایران میں آئینی جمہوری تحریک کے دوران آمریت پسندوں نے برابری کے اصول کی خلاف بھی بہت پروپیگنڈا کیا تھا۔ شیخ فضل اللہ نوری نے “حرمت مشروطہ” اور “تذکرة الغافل” میں برابری کو شریعت کا مخالف لکھا۔ اور کہا کہ شریعت میں انسان برابر نہیں۔ کچھ لوگوں نے بغیر اپنا نام لکھے جمہوریت کے خلاف کتابچے لکھے۔ جن میں آزادی اور برابری کے اصولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
علامہ نائینی نے ان لوگوں کو جواب دیا کہ مکلَّفین کے درجات ضرور مختلف ہیں۔ لیکن برابری کا مطلب یہ ہے کہ ہر قانون بغیر کسی تفریق کے جاری و نافذ ہو۔ اور کسی شخص کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔ اور یہ کہ برابری کا اصل مقصد حکمران اور رعیت کو برابر ٹھہرانا ہے)

حواشی و حوالے:
1: عرض مترجم: علامہ نائینی نے یہاں یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ جمہوریت اور آئین کے حوالے سے اٹھنے والے اعتراضات پر مزید لکھیں گے۔ لیکن مترجم کی معلومات کے مطابق علامہ کو اس کے بعد اس موضوع پہ مزید کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔
2: عرض مترجم:
لغت میں طاغوت، حد سے تجاوز کرنے والے کو کہتے ہیں۔
اس کا مصدر “طغیان” ہے۔
دیکھیے جوہری کی صحاح اللغة، مادہ “طغا یطغی”
http://lib.eshia.ir/86531/6/2412/%D8%B7%D8%BA%D9%8A%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A7
یہ لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔
مفسرین نے اس کے مختلف معانی ذکر کئے ہیں مثلا ” شیطان، جادوگر، بت، کاھن وغیرہ”۔
علامہ طباطبائی کے مطابق” طاغوت میں مبالغہ کا معنی پایا جاتا ہے۔ اور ہر وہ چیز جو طغیان کا وسیلہ بنے طاغوت ہے۔جیسے جھوٹے معبود، بت ، شیطان بلکہ ہر وہ شخص جس کی پیروی پر خدا راضی نہ ہو”
http://lib.eshia.ir/50081/2/526/%D8%AD%D8%AF%D9%89علامہ نائینی نے اس مقام پر طاغوت کا مطلب ایسا حکمران لیا ہے جو احکام الہی سے پھر جائے۔
3: عرض مترجم:
علامہ نائینی نے زار روس کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کی طرف اشارہ کیا ہے۔
زار روس کے خلاف پہلا انقلاب 1905ء میں آیا تھا۔ جس نے زار روس کی آمریت کو آئین اور پارلیمنٹ(ڈوما) کا پابند بنایا تھا۔لیکن ٹراٹسکی اور دیگر انقلابی لیڈروں کی گرفتاری کی وجہ سے اس انقلاب کے اصلی مقاصد حاصل نہ ہوسکے اور زار روس کی آمریت 1917ء تک کسی نہ کسی صورت باقی رہی۔
1917ء کے بالشویک انقلاب نے زار روس کی آمریت کا خاتمہ کردیا تھا۔ لیکن چونکہ یہ کتاب 1908ء میں لکھی گئی اور اس وقت تک آمریت باقی تھی۔ اس لئے علامہ نائینی نے یہ لکھا کہ ابھی آمریت کے خلاف مطلوبہ کامیابی نہیں ملی۔
4: عرض مترجم:
یہ جملہ “زیارت غدیریہ” کا حصہ ہے۔ زیارت غدیریہ امام علی نقی(ع) سے نقل ہوئی ہے۔ اور مفاتیح الجنان میں مذکور ہے۔
5: عرض مترجم:
مکلَّف؛ شریعت کی اصطلاح میں مکلَّف بالغ و عاقل فرد کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع مکلفین ہے۔
مکلفین کے درجے مختلف ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ شریعت میں مجبور اور خود مختار کے الگ احکام ہیں۔ اسی طرح مرد اور عورت کے احکام میں بھی کئی جگہ فرق پایا جاتا ہے۔
6: عرض مترجم:
“ذمی ” فقہ کی ایک اصطلاح ہے۔ ذمی اس کافر کو کہا جاتا ہے جو کسی اسلامی ملک میں رہتا ہے۔ اسلامی حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اور مسلمانوں سے جنگ نہیں کرتا۔
7: عرض مترجم:
علامہ نائینی نے پوری کتاب میں صرف اسی مقام پر دو ملکوں کا ذکر کیا ہے۔ علامہ کی کتاب کا عربی ترجمہ بھی میں نے دیکھا ہے۔
آیت اللہ طالقانی کے حواشی بھی دیکھے ہیں لیکن انہوں نے بھی وضاحت نہیں کی کہ دونوں ملکوں سے کیا مراد ہے۔
البتہ مترجم کا خیال ہے کہ اس سے مراد ایران اور ترکی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت تک صرف انہی دو اسلامی ملکوں میں بادشاہت کو آئین کا پابند کیا گیا تھا۔
ترکی میں 1876ءمیں نوجوان ترکوں نے پہلا انقلاب برپا کیا تھا۔ سلطان عبدالعزیز کو خلافت سے ہٹادیا گیا اور آئین و پارلیمنٹ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن سلطان عبدالحمید نے خلافت سنبھالنے کے بعد جلد ہی آئین اور پارلیمنٹ کو معطل کردیا۔
1908ء میں نوجوان ترکوں نے دوسرا انقلاب برپا کیا۔ جس کے نتیجے میں آئین بحال کیا گیا۔ اور 1909ءمیں پہلی بار ترکی میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔
8: عرض مترجم:
علامہ نائینی یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین کوئی چھپی ہوئی چیز تو نہیں۔ وہ تحریری صورت میں موجود ہے۔اور ملت کو اس تک رسائی حاصل ہے۔ اگر اس میں کوئی بات اسلام کے خلاف ہوتی تو وہ بھی سامنے آجاتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں