گاربیج اِن، گاربیج آؤٹ/محمد سعید ارشد

1990ء تک انٹرنیٹ کی سہولت پاکستان میں پہنچ چکی تھی پر تب کمپیوٹرز اور انٹر نیٹ استعمال کرنیوالوں کی تعدادبہت کم تھی۔ مگر آہستہ آہستہ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انٹرنیٹ اور کمپیوٹرز نے اپنی اہمیت کو منوانا شروع کیا تو 2000ء کے بعد پاکستان میں کمپیوٹرکورسز کروانےوالے کالجز ایک بڑی تعدادمیں اوپن ہونا شروع ہوگئے اور لوگوں نے بھی دھڑا دھڑ اُن کالجز میں ایڈمیشن لینا شروع کردیا۔

مگر کمپیوٹر خرید نا اور انٹر نیٹ کا کنکشن گھر میں لگوا نا تب بھی بہت سے لوگوں کیلئے بس ایک خواب ہی تھا۔ غریب تو غریب متوسط طبقہ کیلئے بھی یہ ایک طرح کی عیاشی تھی کہ جِسے افورڈ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دنیا اُس وقت تیزی سے ڈیجیٹل پر منتقل ہورہی تھی اور نوجوانوں کیلئے بھی انٹرنیٹ تک رسائی ایک ضرورت بن چکی تھی۔ کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہےتو اِس ضرورت کو انٹر نیٹ کیفےکی ایجاد نے پورا کیا۔ 2006ء آتے آتے پورے پاکستان میں لا تعداد انٹر نیٹ کیفے کُھل چکے تھے جن میں صارفین ایک کیبن میں تنہائی میں بیٹھ کر فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے ادا کرکے انٹرنیٹ پر بِنا روک ٹوک جو چاہے مرضی سرچ کر سکتے تھے۔

انٹر نیٹ کیفے کی اِس سہولت کا لوگوں نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا۔ جہاں کچھ لوگوں نے اِسے Positive Way میں استعمال کیا وہی کچھ لوگوں نے اس کا غلط استعمال بھی شروع کردیا اور وہ چیزیں بھی سرچ کرنا شروع کردیں کہ جو معاشرتی لحاظ سے انتہائی مکروہ تھی اور جو سماج میں بگاڑ کا باعث بننے لگی۔ اُنہی دنوں انٹرنیٹ کیفے کے حوالے سے بہت سی منفی خبریں اخبارات اور میڈیا کی ذینت بننے لگی اور یوں لوگوں نے انٹر نیٹ کیفے کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیا اور نہ صرف بائیکاٹ بلکہ اپنے بچوں پر بھی انٹر نیٹ کیفے میں جانے پر پاپندیاں عائد کردی۔ اس سارے معاملے میں انٹر نیٹ کیفے یا انٹرنیٹ کا کوئی قصور نہیں تھا یہ ان لوگوں کا قصور تھا کہ کہ جنہوں نے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا تھا۔

کمپیوٹرچونکہ ایک مشین ہے کہ آپ اسے جو کمانڈ دیں گے وہ اسی پر عمل کرے گا یہ اب استعمال کرنیوالے پر منحصر ہے کہ وہ اس کا کیسے استعمال کرتا ہے۔ اگر آپ کمپیوٹر پرکوئی مفید معلومات کی کمانڈ دیں گے تو مفید معلومات ہی سامنے آئیں گی اور اگر آپ کمپیوٹر پراخلاق سے گِری ہوئی چیزوں کی کمانڈ دیں گے تو اُس میں سےشر ہی برآمد گا۔ اِسی مثا ل کو سامنے رکھتے ہوئے کمپیوٹر انڈسٹری میں ایک ٹرم (Term) استعمال کی جاتی ہے کہ جسے (Garbage in، Garbage out) گار بیج اِن، گاربیج آؤٹ کہا جاتا ہے۔ یعنی اگرآپ کمپیوٹر میں کچرا ڈالیں گے تو کچرا ہی برآمد ہوگا۔

یہ ٹرم 1960ء میں سب سے پہلے والٹر شیورٹ نے استعمال کی تھی۔ گاربیج اِن اور گاربیج آؤٹ کی یہ مثال صرف کمپیوٹر تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ پورے معاشرےپر انفرادی اور اجتماعی طور پر پوری طرح لاگُو ہوتی ہے۔ یقیناً انسان کمپیوٹر ز نہیں ہیں مگر پھر بھی کئی حوالوں سے یہ ٹرم انسانوں پر فِٹ بیٹھتی ہے۔ اگر کوئی انسان روزانہ کی بنیاد پر پیزا اور برگر کھانے کا عادی ہے تو یقیناً اِس کا نتیجہ موٹاپا، دل کے امراض اور معدے کی بیماریوں کی صورت میں نکلے گااور اگر کوئی سبزیاں اور تازہ پھلوں کے استعمال کا عادی ہے تو اس کا نتیجہ تندرستی اور اچھی صحت کی صورت میں ہی بر آمد ہوگا۔ اگر کوئی کچرا کھائے گا تو رزلٹ بھی کچرا ہی آئے گا۔

جہاں تک بات اجتماعی تناظر کی ہے تو اسے ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر ایک پرائیویٹ فرم یا ادارے میں میں موجود اسٹاف اپنے کام میں یکتا اور مہارت سے بھر پور ہونے کی بجائے کاہل اور کام چور ہوگا تو اس کا نتیجہ اس فرم یا ادارے کی مکمل تباہی اور ناکامی کی صورت میں ہی نکلے گا اور اگرکوئی فرم یا ادارہ اپنی فرم میں محنتی، وفادار اور اپنے کام میں ایکسپرٹ اسٹاف کا ڈیٹا فید کرے گا تو اس کا رزلٹ فرم کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔

آپ ہمارے ملک اور ہمارے ملکی سسٹم کو بھی کمپیوٹر کی اِسی مذ کورہ بالا ٹرم میں بہت اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارا ملک بھی ایک کمپیوٹر کی مانند ہے اور اس کمپیوٹر کو چلانے والے ہاتھ75 سال سے اس میں اپنی مرضی اور اپنی کمپنی کا تیار کردہ سوفٹ ویئر انسٹال کرکے اس کو چلانےاپنی سعی کوشش کررہے ہیں مگر تاحال ناکام ہے۔ حالانکہ مذکورہ سافٹ ویئرزپانچ سال تک چلنے کیلئے ڈیزائین کیے جاتے ہیں مگر پھر بھی ہر بار کبھی 3 سال یا کبھی اڑھائی سال بعد ہی یہ سافٹ ویئرز کام کرنا بند کرنا دیتےہیں یا پھر اپنے کمانڈ دینے والوں کی کمانڈز کو اِگنور کرکے اپنی مرضی کا ڈیٹا پروسس کرنا شروع کر دیتے ہیں جسکی وجہ سے مجبوراً اس کمپیوٹر کو ہینڈل کرنے والےاس سافٹ ویئر کو ڈیلیٹ کرکے اس کا متبادل سافٹ وئیر انسٹال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

سافٹ ویئر کی سلیکشن بھی ایک پیچیدہ اور تھکا دینے والا عمل ہیں، پہلے مختلف قسم کے سافٹ ویئر کے درمیان الیکشن کا مقابلہ کروایا جاتا ہے اور پھر جو سلیکٹ ہوجاتا ہے اسے انسٹال کردیا جاتا ہے۔ اس سارے بیکار اور تھکا دینے والے عمل سے بچنے کیلئے مختلف ادوار میں ایک خاص قسم کا “ایمر جنسی” سافٹ وئیر انسٹال کرکےبھی اس سسٹم کو تقریباً 30 سال سے زائد عرصے تک چلایا گیا ہے مگریہ سافٹ ویئر چونکہ ہارڈ ہوتا ہے اور اس وجہ سے سسٹم کے کریش ہونے کا اندیشہ رہروقت لگا رہتاہیں اسلئے سافٹ ویئر انسٹال کرنیوالے اب سمجھ گئے ہیں کہ کمپیوٹر میں اس سافٹ ویئر کو چلانےکی ہمت باقی نہیں رہی۔

اسی لئے 2018ء میں ایک نیا تجربہ کیا گیا اور باقی تمام پرانے سافٹ ویئرز کو کھڈے لائن لگا کر ایک نیا خاص قسم کا برطانیہ سے تیارکردہ سافٹ ویئر لا کر انسٹال کیا گیا۔ مگر شو مئی قسمت یہ سافٹ ویئر اپنی کوڈنگ کے لحاظ سے اتنا جدید اور طاقتور تھا کہ اس نے پورے سسٹم کو ہی جام کردیا، تین سال کی سخت محنت کے باوجود بھی جب یہ سافٹ ویئر نہ چل سکا تو اسے ڈیلیٹ کرکے وہی پرانے سافٹ ویئر زانسٹال کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس سافٹ ویئر نے کمپیوٹر کے باقی مختلف قسم کے سافٹ ویئرزکو بھی اپڈیٹ کردیاتھا جس کی وجہ سے یہ کمپیوٹر اب پرانے سافٹ ویئرز کوبھی چلانے سے قاصر ہے۔ مگر اس کمپیوٹر کو ہینڈل کرنیوالے اب 2024ء میں دوبارہ پرانے تمام سافٹ ویئرز کی کوڈنگ کو مِکس کرکے ایک نیا سافٹ ویئر بنا چکے ہیں اور اس کوکمپیوٹر میں انسٹال کرکے کمپیوٹر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے پر مصر ہے مگر یہ کمپیوٹر اب چل کے نہیں دے رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب یہ سسٹم اور کمپیوٹر چلانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اِس کا کیسے استعمال کرتے ہیں اور اِس میں سے کیا برآمد کرتے ہیں مگر اِس کمپیوٹر کوچلانے والے 2024ءمیں پھر سے وہی کمانڈ ز دے رہے ہیں جو پچھلے 75 سالوں سے دی جارہی ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کہ شاید اس بار رزلٹ مختلف ہو مگر ایکسپرٹ تو 1960ء میں ہی کہہ گئے تھے کہ گاربیج ان، گاربیج آؤٹ۔ پرکیا کِیا جائے کہ یہاں کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply