گستاخ’کون؟-ڈاکٹر حفیظ الحسن(1)

کولمبو ائیرپورٹ پر اعلان ہو رہا تھا۔
“لاہور جانے والی پرواز کے مسافر اپنے جہاز پر تشریف لے جائیں،جہاز روانگی کے لیے تیار ہے۔ ”
یہ سری لنکن ائیرلائن کی معمول کی پرواز تھی جسے چار گھنٹے بعد کولمبو سے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اُترنا تھا۔ جہاز میں زیادہ تر مسافر پاکستان سے تھے جو کولمبو میں سیاحت یا کاروبار کی غرض سے آئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔ فلائیٹ کے عقب میں وہ بھی بیٹھا تھا، اُسکا چہرہ اُداسی میں ڈوبا تھا۔ بوڑھی ماں، پیار کرنے والی بیوی اور فرشتوں جیسے بچوں کو چھوڑ کر دور روزگار کی تلاش میں جانا کسی سانحے سے کم تو نہیں تھا! کمارا نے بھری آنکھوں سے جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ جہاز اس وقت بادلوں سے اوپر اُڑ رہا تھا۔ نیچے دور تک خدا کی پھیلی زمین تھی جس پر انسان بستے تھے۔ اُس نے سوچا، کیا میری طرح کوئی اور بھی ہو گا یہاں نیچے جو اپنے بچوں اور خاندان کی جُدائی میں رو رہا ہو گا یا میں اکیلا ہوں؟

“بابا اس بار پاکستان جانا تو واپسی پر میرے لیے آم ضرور لانا۔ سُنا ہے وہاں کے آم وہاں کے لوگوں کی طرح میٹھے ہوتے ہیں۔”

ننھی شانتی نے جاتے ہوئے کمارا سے ائیرپورٹ پر فرمائش کی۔۔ننھی شانتی اب بڑی ہو رہی تھی۔ پاکستان  کے متعلق اُس نے ماں اور باپ دونوں سے بہت کچھ سُن رکھا تھا۔
کیوں نہیں بیٹا! ضرور، وہاں کے لوگوں کی مٹھاس ان آموں کو اور میٹھا کر دیتی ہے۔ میں جب اُن سے کہوں گا کہ میری ننھی پری کو اُنکے ہاں کے آم پسند ہیں تو دیکھنا دس بندے مجھے مفت میں آم دے جائیں گے۔
کمارا نے ہنستے ہوئے کہا۔

ننھی شانتنی یہ سن کر خوش ہو گئی۔ “پھر تو بہت سے آم لانا بابا۔۔میں ان سے آئس کریم بناؤں گی ۔دادی کو بھی کھلاؤں گی اور بھیا کو بھی۔ ”
شانتنی نے تالی بجاتے ہوئے کہا۔

اچھا بابا اپنا خیال رکھنا۔ اگلی گرمیوں میں ضرور آنا۔ شانتنی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

بوڑھی ماں بیٹے کو الوداع کہنے ائیرپورٹ پر آئی تھی۔۔اّسکی انکھوں میں فکر تھی۔ گھر سے کئی ہزار کلومیٹر دور بیٹے کا انجانے دیس میں جانے کا غم اُسے اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا تھا۔
کمارا نے ماں کی پریشانی بھانپ لی۔
ماں تم فکر مت کرو۔ میں پہلی بار تھوڑی جا رہا ہوں پاکستان؟ روز تمہیں فون کر کے خیریت کا بتاؤنگا۔ اور ہاں ماں، میرے بعد اپنی دوائی ٹائم پر لینا۔ کہیں شوگر بڑھ نہ جائے۔
ماں نے اسکا ماتھا چوما اور آنکھوں سے آنسو پونچھے۔
کلپنا، میری پیاری کلپنا۔۔ دیکھو ماں کا خیال رکھنا، میں آؤنگا تو تمہارے لیے بہت خوبصورت کاٹن کے سوٹ لاؤنگا۔ مجھے اپنی پسند کے رنگ فون پر بتا دینا۔
اُس نے اپنی بیوی کلپنا کو تاکید کرتے ہوئے کہا۔

کماارا اپنے خیالوں میں گم تھا جب ائیر ہوسٹس نے اُسے ہلایا اور کھاناسرو کیا۔ اکتوبر کی میٹھی سرد دھوپ جہاز پر پڑ رہی تھی۔ نیچے سمندر تھا۔ جہاز کراچی سے گزرتا ہوا لاہور کی سمت بڑھ رہا تھا۔جب جہاز نے لاہور ائیرپورٹ پر لینڈ کیا تو شام کے سائے ائیرپورٹ کی عمارت پر پڑ رہے تھے۔ امیگریشن سے گزر کر اُس نے اپنا سامان اکٹھا کیا اور ٹیکسی لیکر بس اڈے پہنچ گیا۔۔اُسے آج رات کو سیالکوٹ پہنچنا تھا جہاں وہ کھیلوں کی مصنوعات بنانے والی ایک فیکٹری میں مینجر تھا۔

کمارا دس سال پہلے پاکستان آیا اور اس عرصے میں وہ اس فیکٹری میں اپنی محنت اور دیانتداری کے بل بوتے پر کوالٹی انجینئر سے منیجر کے عہدے پر ترقی پا گیا۔ کام کے معاملے میں وہ نہایت اصول پسند تھا۔ فیکٹری میں مزدور اکثر ہڑتال کرتے یا کام سے غفلت برتتے تو وہ اُنکی خوب سرزنش کرتا۔ اُسکی ماں نے اُسے سکھایا تھا کہ دیانتداری سے کمایا گیا ایک روپیہ بے ایمانی کے لاکھوں روپوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ تبھی وہ جانفشانی سے دن بھر فیکٹری کے کاموں کو خوش اسلوبی سے نبھاتا۔ بیرونی ممالک سے آئے سپورٹس آرڈرز کو بروقت پورا کرنے کی کوشش کرتا تاکہ نہ صرف فیکٹری پھلے پھولے بلکہ مزید آرڈرز بھی آئیں جس سے فیکٹری، ملک اور معاشرے کو زرِ مبادلہ سے فائدہ پہنچے۔

فیکٹری میں اکثر اوقات مزدورں کے تنخواہ یا چھٹی پر چھوٹے موٹے مسائل چلتے رہتے جنہیں وہ اپنے اخلاق اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر احسن طور پر حل کرتا رہتا۔ فیکٹری کے مزدوروں اور مینجمنٹ دونوں میں کمارا کے کام اور ایمانداری کی بدولت ایک عزت و مقام تھا۔۔سب جانتے تھے کہ یہ شخص کس قدر خوش اخلاق، محنتی اور دیانتدار ہے۔
گو فیکٹری ہر اتوار بند رہتی تاہم نومبر کے آخری دو ہفتوں میں آرڈرز پورا کرنے کی وجہ سے فیکٹری مسلسل دو ہفتے لگاتار کھلی رہی۔بدھ کو فٹبالوں کا بہت بڑا آرڈر مکمل ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ جمعے کے روز اسے شپنگ کے لیے روانہ کر دیا جائے گا۔ فیکٹری میں کچھ مشینوں کی مرمت کرنی تھی اس لیے جمعرات کو فیکٹری کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

بدھ کے روز تمام آرڈر پیک کر کے کمارا گھر لوٹا۔ وہ کام کی زیادتی کے باعث کافی تھک چکا تھا تاہم وہ خوش تھا کہ وقت پر آرڈر مکمل ہو گیا۔ اس آرڈر کو وقت پر ڈیلیور کرنے سے مزید بڑے آرڈر آنے کے امکانات تھے۔ گھر پہنچ کر اُس نے کپڑے بدلے ،کھانا کھایا اور گھر فون کیا۔
کلپنا نے فون اُٹھایا۔
کیسی ہو کلپنا؟
میں ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسے ہیں؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔ شانتنی کہاں ہے؟
وہ سو رہی ہے۔۔آج اُسکا ایگزیم تھا تو تھک گئی۔ جلدی سو گئی۔
اور ماں؟ کمارا نے فکرمند لہجے میں پوچھا۔
تمہیں بہت یاد کرتی ہے کمارا! بیمار رہنے لگ گئی ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے دل کمزور ہے۔ انہیں پریشان نہیں کرنا۔ خیال رکھنا ہے۔
کلپنا نے اُداس لہجے میں بتایا۔
تم کیا تھوڑے دنوں تک آ سکتے ہو؟ ماں خوش ہو جائے گی۔
کلپنا نے پوچھا۔
میں کوشش کرتا ہوں، آج ایک بڑا آرڈر تو مکمل ہوا ہے۔ کمپنی کے مالک جو ہیں ناں، وہ بے حد خوش ہیں۔ بہت اچھے آدمی ہیں، ہو سکتا ہے دسمبر کے آخر میں کچھ ہفتے نکل آئیں۔ میں کل پرسوں اُن سے بات کر کے بتاؤں گا۔ ماں سے کہنا اپنا خیال رکھے۔ میں جلد آؤنگا۔
یہ کہہ کر اُس نے فون رکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جمعرات کے روز وہ صبح جلدی اُٹھا۔ آج فیکٹری ویسے ہی بند تھی مگر اُسے یاد آیا کہ وہاں ایک ضروری ڈاکیومنٹ رہ گیا ہے جو جمعے سے پہلے پُر کرنا ہے تاکہ سامان کو شپنگ کے لیے روانہ کیا جا سکے۔ اُسکا فلیٹ کمپنی سے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ اُس نے گاڑی سٹارٹ کی اور فیکٹری کی جانب چل پڑا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply