آدھے گھنٹے بعد کمارا فیکٹری پہنچا تو گیٹ پر موجود چوکیدار اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اُسکی انکھوں میں ایک گھبراہٹ سی تھی۔
صاحب آپ یہاں۔ وہ سٹپٹا کر بولا
ہاں دفتر میں ایک کام تھا؟ فائل چاہئے تھی۔ کوئی آیا تو نہیں؟
کمارا نے غور سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ن ن نہیں صاحب۔ کس نے آنا ہے۔ صبح سے بیٹھا ہوں۔ کوئی نہیں آیا۔
فیکٹری کے عقبی دروازہ بند ہے ناں؟ کمارا بولا
ج ج جی صاحب ۔ چوکیدار نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
اچھا دھیان سے ڈیوٹی دو۔ کل آرڈر جانا ہے۔ مجھے کوئی گڑبڑ نہیں چاہئے۔
جی صاحب۔ چوکیدار بولا
صاحب آپ کہتے ہیں تو میں لے آتا ہوں فائل آپکے دفتر سے؟
نہیں میں خود جاؤنگا۔ تم اچھے سے اپنی ڈیوٹی دو۔ کمارا نے اُسکی بات جھٹکتے ہوئے کہا۔
اوکے صاحب۔۔۔۔صاحب چائے بناؤں۔
نہیں مجھے زیادہ دیر نہیں رکنا۔۔دفتر میں کام نپٹا کر
چلے جانا ہے۔
یہ کہہ کر کمارا آگے بڑھا۔
کمارا کا دفتر فیکٹری کے مین دروازے سے ہو کر دوسری منزل پر تھا۔ فیکٹری کی پروڈکشن نچلے فلور پر ہوتی۔ تمام مینیجمینٹ سٹاف اوپر بیٹھتا۔ سٹور روم فیکٹری کے عقب میں تھا جہاں تیار شدہ مال شپنگ کے لیے رکھا جاتا۔
کمارا نے دفتر کا دروازہ کھولا اور آرام سے آ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ سامنے کاغذوں کا بڑا سا پلندہ پڑا تھا۔ اُس نے اس پلندے کو اُلٹنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد اُسکے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کا فارم تھا۔ یہ کمپنی کا ایکسپورٹ ڈیوٹی فارم تھا۔ کل شپنگ کے لیے اسے پُر کرنا ضروری تھا۔
آرڈر 20 ہزار فٹبالز کا تھا جسے یورپ کی بڑی ملٹی نیشنل کھیلوں کی کمپنی نے جاری کیا تھا۔ ایکسپورٹ ڈیوٹی فارم کے ساتھ ہی کوالٹی کنٹرول کا فارم پڑا تھا۔ اُس نے فارم کو غور سے دیکھا۔ اس پر شپنگ کے لیے چند ڈبوں کے سیریل نمبر مِسنگ تھے۔ اُس نے جھنجھلاہٹ میں سر ہلایا ۔ یہ لوگ کام پورا کیوں نہیں کرتے؟ اب مجھے ہی سٹور روم میں جانا پڑے گا سیریل نمبر دیکھنے۔۔
وہ اُٹھا اور مین بلڈنگ سے باہر آ کر عقبی طرف سٹور روم۔ کی طرف جانے لگا۔ چوکیدار اتفاق سے اُس وقت باہر کسی راہگیر کو رستہ بتا رہا تھا۔ اُس نے کمارا کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
سٹور روم کا دروازہ بند تھا۔ جیسے ہی وہ سٹور روم کے قریب پہنچا اُسے اندر سے آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ وہ ٹھٹھٹک کر رکا۔ اندر کون ہو سکتا ہے؟ اُس نے سوچا۔
جیسے ہی اُس نے سٹور کے دوسرے دروازے میں چابی گھمائی ۔دروازہ کھل گیا۔ اُس نے اندر جھانکا تو اسکے چہرے کی ہوائیاں اُڑ گئیں۔ اندر فیکٹری کے چند مزدور فٹبال کے ڈبوں میں سے نئی فٹبالیں نکال کر انکی جگہ پرانی اور خراب فٹبالیں ڈال رہے تھے۔تاکہ جب آرڈر باہر ملک پہنچے تو خراب کوالٹی کے باعث واپس آ جائے اور کمپنی کو اور اُسکی ساکھ کو نقصان پہنچے۔
کمارا چلایا۔۔ صادق یہ کیا کر ہے ہو تم لوگ۔؟
مزدوروں کا سرغنہ صادق جو باقی چار مزدوروں کی سربراہی کر رہا تھا، چونکا۔ وہ فیکٹری میں پچھلے سات سال سے کام کر رہا تھا۔ کمارا اُسے اچھی طرح جانتا تھا۔ مزدوروں میں اُسکا نام تھا اور وہ ہمیشہ اُنکے مسائل لیکر پیش پیش رہتا۔سب کمارا کی طرف متوجہ ہوئے۔ کمارا نے سب کو باری باری غور سے دیکھا۔ ان میں ایک غلام رسول تھا دوسرا زاہد، تیسرا عبداللہ اور چوتھا شکیل۔
یہ کیا نمک حرامی چل رہی ہے صادق؟ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟
کمارا صاحب جو آپ نے ابھی دیکھا ہے بھول جائیں۔ اپنی زبان بند رکھیں اسی میں فائدہ ہے۔ زبان بند رکھنے کے کتنے لیں گے؟ ہم یہ کمپنی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ساتھ دو۔ تمہیں بہت پیسہ ملے گا۔
مگر تمہیں یہ سب کر کے کیا ملے گا؟ کمپنی کے مالک نے ہمیشہ مزدوروں کا خیال رکھا۔ اشرف صاحب کتنے بھلے مانس آدمی ہیں۔ تم جس تھالی میں کھاتے ہو اُسی میں چھید کر رہے ہو۔ یہ تو تمہارے مذہب میں بھی گناہ ہے جو تم کر رہے ہو۔
کمارا نے اُنہیںسمجھاتے ہوئے کہا۔
کمارا صاحب ہمیں مذہب کی باتیں نہ بتاؤ۔ سیدھی طرح بتاؤ ہمارا ساتھ دو گے کہ نہیں؟
تمہیں کس نے بھیجا ہے یہ کرنے کو۔ کمارا چیخا۔
آواز آہستہ کمارا صاحب۔ ہمارے پیچھے بڑی مضبوط پارٹی ہے۔ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
صادق نے دھمکانے والے لہجے میں کہا۔
عقلمندی اسی میں ہے کہ ہمارا ساتھ دو ورنہ انجام بہت برا ہو گا۔ ہمارا ساتھ دوگے تو فائدے میں رہو گے۔ باقی تم خود سمجھدار ہو۔
صادق نے دانت میں تیلی مارتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دونگا۔ میں کل ہی اشرف صاحب کو یہ سب بتا دونگا۔ آرڈر بھلے دو دن لیٹ ہو جائے مگر میں خراب مال نہیں بھجوانے دونگا۔
یہ کہہ کر کمارا سٹور روم سے نکلا اور غصے میں گاڑی کی طرف گیا۔ راستے میں چوکیدار نے اُسے کن اکھیوں سے دیکھا۔
نمک حرام!! تم بھی انکے ساتھ ملے ہوئے ہو۔
کمارا بڑبڑایا ۔
میں سب کو دیکھ لونگا۔
گھر پہنچ کر کمارا نے اشرف صاحب سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم وہ مل نہ سکے۔ اّس نے سوچا، اب
اگلے روز اُنہیں فیکٹری جا کر تمام صورتحال سے آگاہ کر دے گا۔
رات کلپنا سے بات ہوئی۔
کلپنا شاید مجھے کچھ دن اور یہاں رکنا پڑے۔ فیکٹری کے کچھ معاملات دیکھنے ہیں۔ ماں سے کہنا میں جلد آؤنگا۔ پریشان نہ ہوں۔
یہ کہہ کر اُس نے فون رکھا۔
رات کے دس بجنے والے تھے۔ وہ سونے لگا تو اچانک اُسکے دروازے پر دستک ہوئی۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں