ڈر اور محبت/محمد سعید ارشد

محبت اور ڈر دونوں ایک دوسرے کی ضِد ہیں، آپ کسی کو ڈرا کر خود سے محبت نہیں کرواسکتے اور نہ ہی آپ کسی محبت کرتے ہوئے اُس کے اندر ڈر جیسے خوفناک احساسات پیدا کرسکتے ہیں۔ محبت ایک خوبصورت احساس ہوتا ہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے ،کئی بارمحبت اپنے عروج پر پہنچ کر عقیدت کا درجہ اختیار کرلیتی ہے جبکہ ڈر اگر زیادہ دیرتک برقرار رہے تو اپنی افادیت کھو دیتا ہے ، بے اثر ہوجاتا ہے اگر بے اثر نہ بھی ہو تب بھی ڈر وقت کے ساتھ ساتھ نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

ہم جِس معاشرے میں جی رہے ہیں بد قسمتی سے وہاں بچپن سے لیکر بڑھاپے تک ہمیں صرف ڈرنا اور لوگوں کو ڈراکر رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ محبت سے لوگوں کے ساتھ پیش آنا اگر سکھایا اور بتایا بھی جاتا ہے تو بہت کم۔۔

گھروں میں والد کا خوف بچپن سے ہی بچوں کے دلوں اور دماغوں میں انڈیل دیا جاتا ہے ، مائیں بچپن سے ہی بچوں کے غلطی کرنے پر اُنہیں باپ کے نام سے ڈرانا شروع کردیتی ہیں ، اور اکثر اوقات تو باپ کو جذباتی طور پر اتنا بلیک میل کیا جاتا ہے کہ باپ کے پاس اپنے بچوں پر ہاتھ اٹھانے کے سِوا کوئی آپشن باقی نہیں بچتا۔حالانکہ بچوں کو باپ سے پیار کا درس دے کر بھی شرارتوں اور غلطیوں سے روکا جاسکتا ہے مگر یہ طریقہ چونکہ نادر ہےاور اس کی مثال ہمارے معاشرے میں کم ہی ملتی ہے اس لئےیہ طریقہ قطعاً استعمال میں نہیں لایا جاتا۔ مائیں بھی بچوں کو غلطی کرنے پر  ڈانٹ کر سمجھا سکتی ہے مگر نہیں ۔۔یہ نیک کام باپ کیلئے مخصوص کردیا جاتا ہےاور اِرد گِرد کے ماحول سے باپ کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اگر باپ سخت رویہ نہیں رکھے گا، اگر باپ کا ڈر نہیں ہوگا تو اولاد بِگڑ جائے گی۔ یوں بچے ،خصوصاً لڑکے جب جوان ہوتے ہیں تو اُن کی اپنی ماؤں سے دوستی اور اچھی انڈر سٹینڈنگ ہو جاتی ہے جبکہ باپ سے وہ فاصلہ رکھنا شروع کردیتے ہیں ، کئی کئی دن باپ کے سامنے نہیں جاتے اور کئی ایک معاملات میں تو نوجوان لڑکے باپ سے بات کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔وجہ بس وہی ایک کہ انہیں بچپن سے ہی باپ سےصرف ڈرایا گیا ، محبت کرنا سکھایا ہی نہیں گیااور ڈر ایک عرصے بعد اپنا اثر کھودیتا ہے۔

ڈر کا یہی ماحول سکول و کالجز سے ہوتے ہوئے ہمارے پرائیویٹ اور سرکاری اداروں تک کو اپنی تحویل میں لے چکاہے۔ سکولوں میں ڈسپلن اور زیادہ مارکس حاصل کرنے کو بنیاد بنا کر ٹیچر کلاسز میں سختی برتتے رہتے ہیں چاہے سختی برتنے کی وجہ سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا جنازہ نکل جائے مگر ماں باپ اور لوگوں کی اکثریت یہی خیال کرتی ہے کہ جو زیادہ سخت ٹیچر ہوگا وہ اتنا ہی اچھا ہوگا۔ اچھائی کا یہ میعار بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایک منطق یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ جس ٹیچر کا ڈر زیادہ ہوگااُس کی کلاس اُتنا ہی اچھا پرفارم کرے گی۔ایسی پرورش میں جب لوگ پڑھ کر کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو اُن کے اندر بھی لوگوں کو ڈرا کر رکھنے کا جنون سر پر سوار ہوجاتا ہے۔

پرائیویٹ اور سرکاری اداروں میں اگر کوئی شخص کسی بڑے عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو اپنے جونیئرز کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنا نا شروع کردیتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پراپنے ماتحتوں کو سب کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مائیں بہنیں ایک کردی جاتی ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ اگر لوگوں میں ڈر نہیں ہوگا تو یہ کام نہیں کریں گے۔ میں نے اپنے سامنے یہ منظر دیکھاہے کہ جونیئر نے اپنے سینئر کو سلام کیا اور سینئر نے انتہائی متکبرانہ انداز میں منہ دوسری طرف پھیر لیا وہ جونیئر بے چارہ اپنا منہ سا لیکر رہ گیا۔ اُس جونیئر کے جانے کے بعد اُس سینئر سے اِس رویے کی وجہ پوچھی گئی تو جواب پھر وہی کہ اگر سلام کا جواب دے دیتا تو اُسے میرا ڈر نہیں رہنا تھا۔یہ ہے ہماری نفسیات کہ محبت اور خوش اخلاقی کو کمزوری کی علامت بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

ڈر کی یہی روش ہمارے مذہبی رہنماؤں میں بحد درجہ اتم تک پائی جاتی ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ اِن میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ساری دنیا میں لوگ اسلام کو اُس میں موجود محبت کے پیغام کی وجہ سے قبول کررہے ہیں۔ ساری دنیا میں آج بھی سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے۔ مگر آپ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی تقریریں سُن لیں، جمعہ کے خطبات سُن لیں یا اِن سے گفتگو کرکے دیکھ لیں ۔ آپ کو لگے گا کہ خدا کی صرف ایک ہی صفت اَلقھَار ہے ۔آپ کے مرنے کے بعد اللہ پاک آپ کو ڈائریکٹ جہنم میں ڈالیں گے ، جہاں فرشتے آپ کو سزائیں دینے پر مامور ہونگےاسی لئے اللہ سےصرف ڈرنا چاہیئے ۔ ہماررے مولوی صاحبان چاہے کسی بھی مسلک سےتعلق رکھتے ہوآپ کو اللہ پاک سے ڈرانے کا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔

بالکل اللہ پاک سے ڈرنا چاہیئے، اِس سے کوئی بھی انکاری نہیں۔پر کیا اللہ پاک سے صرف ڈرنا ہی چاہیئے۔ کیا اللہ سے محبت نہیں کرنی چاہیئے۔ اللہ پاک کی صفات تو الرحمٰن اور الرحیم بھی ہےاُن کے بارے میں اتنی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اللہ پاک تو انسانوں کو سترماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہےیہ بات تواتر کے ساتھ کیوں نہیں بتائی جاتی۔ اللہ پاک تو اتنا غفور و رحیم ہے کہ صرف راستے سے پتھر ہٹانے پربھی جنت عطا کردیتا ہے۔وہ تو ایسی ہستی ہے کہ جو اُس کو نہیں بھی مانتے ،اُن کو بھی بے تحاشہ اور بے شمار رزق عطا کرتا ہے ۔ تو کیا صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرانا ہی چاہیئے، کیا اللہ تعالی سے محبت کرنے کا درس نہیں دینا چاہیئے ۔ہمیشہ اللہ سے ڈرو یا اللہ کے ڈر کی وجہ سے یہ کام نہ کرو کہنا ضروری ہے کیا ؟ اللہ سے محبت کرو یا اللہ کی محبت میں یہ کام نہ کرو بھی تو کہہ سکتے ہیں نا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ پاک تو اتنی خوبصورت ہستی ہے کہ انسان سوتے ہوئے بھی اللہ کو پکارے تو اللہ پاک اپنے بندے کی پُکار سنتے ہیں۔ ایک ایسی ہستی جو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاسلئے لوگوں کو صرف اللہ پاک سے ڈراتےرہنا ضروری تو نہیں۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ کے ڈر کی بجائے اللہ سے محبت کے جذبات بھی تو پیدا کئے جاسکتے ہے نا۔۔۔۔مگر کیا کِیا جائے کہ ڈر نا اور ڈرا کر رکھنا ہمیں بچپن سے ہی سکھادیا جاتاہے اور ہم سب اِسے ایک وراثت سمجھ آنے والوں کو بِنا سوچے سمجھے منتقل کرتے رہتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply