وهم أبناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘
میں بہت اچھا عملی مسلمان (Practicing Muslim) نہیں، اور بلاشبہ یہ کوئی لائقِ تحسین بات بھی نہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اسلام سے جتنی محبت مجھے میڈیسین / طب پڑھنے سمجھنے کے بعد ہوئی ، پہلے نہ تھی۔ اوروں کی طرح میرے ہاں بھی اسلام بس تقدس اور ثواب و عذاب کا ہی مذہب تھا ۔ اب جب جب میں کسی اسلامی شعار پر غور کرتا ہوں تو ہر بار پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ یقین ہوتا ہے کہ یہ اسلام ثواب و عذاب سے قبل “ھدیً للناس” ہے، نظام حیات ہے جس میں ہر اس چیز کو ویسے ہی رکھا گیا ہے جو انسانیت کے لئے پہلے دنیا میں اور پھر آخرت میں کار آمد ہو۔
آج تک میں نے میڈیکل سائنس کے حوالے سے جس بھی اسلامی شعار پر پڑھا ہے، ایک بھی ایسا نہیں مل سکا ہے جو سائنس سے غیر منطبق اور انسانی مفاد کے خلاف ہو۔
کل یونہی موبائل پر امبانی کی شادی اور ریحانہ کی رِیلز دیکھنے کے چکر میں اسکرول کرتے ہوئے کسی شیخ صاحب کی تقریر کا ایک ویڈیو کلِپ سامنے آگیا ،جس میں مذکورہ حدیث پڑھی جارہی تھی۔۔ میں سوچنے لگا کہ وجہ کیا تھی کہ اللہ کے رسولﷺ نے دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر علیحدہ کرنے کا حکم دیا، آٹھ کیوں نہیں، یا پھر بارہ پندرہ کیوں نہیں ۔؟
اس حوالے سے میڈیکل سائنس میں بڑی تفاصیل ہیں، پر میں اتنا ہی لکھتا ہوں اور اسی زبان میں لکھتا ہوں جتنا کہ آپ کو بآسانی سمجھ آسکے۔
نیو یارک میں Mount Sinai Kravis Children’s Hospital میں Dr Aliza Pressman کام کرتی ہیں جو بچوں کی نفسیات کی ماہر پروفیسر بھی ہیں۔ کہتی ہیں کہ دسواں سال بچوں کی عمر کا وہ حصہ ہے جب Adolescence یعنی نوجوانی کی شروعات ہوتی ہے۔ دراصل دس سال کی عمر تبدیلیوں کا زمانہ ہے جس میں بچوں کا جسم، ہارمونز، جذبات، دوستیاں، یہاں تک کہ انکی صلاحیتیں و ترجیحات تک بدلتی ہیں۔ اس عمر میں بچوں کی شناختی استعداد بہت تیزی سے نمو پاتی ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ہم Rapid-paced Cognitive Growth کہہ سکتے ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہوتا ہے جب بچے میں والدین پر سے انحصار سے نکل کر آزادی اور خود سے سوچنے اور فیصلے لینے کے ساتھ پسند و ناپسند کی صلاحیت شروع ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر پریسمین مزید کہتی ہیں کہ یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں والدین بچوں کے ساتھ ڈنر ٹیبل پر یا اور مقامات پر موجودہ حالات، کتابیں، تعلیم، آرٹ ومیوزک، معاشرتی حالات جیسے موضوعات پر گفتگو کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت بچے بھی سننے کے ساتھ ساتھ اپنی آراء و مشورے رکھنے کی استعداد میں آجاتے ہیں۔ عمر کا یہ ایک ایسا پڑاؤ ہوتا ہے جب بچے عام کتابوں کے علاوہ نئے اور انوکھے موضوعات کو پڑھنے اور سمجھنے کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔ انہیں موضوع کا کانسیپٹ، خلاصہ سمجھنے کے ساتھ ہی اس پر اپنی رائے و تنقیدی فکر رکھنے کی صلاحیت بھی ہوجاتی ہے۔
دس سال کی عمر عموماً وہ ہوتی ہے جب بچہ پانچویں یعنی پرائمری اسکول مکمل کرکے مڈل اسکول کی طرف داخل ہورہا ہوتا ہے۔ یہ بدلاؤ بھی بچے کو مزید ذہنی نمو کے مرحلے میں لے جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب بچہ کسی بھی موضوع پر صرف درسی کتابیں پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر مزید جانکاری کا خواہاں ہوجاتا ہے۔ اپنا اسکول بیگ، یونیفارم اور دیگر چیزیں خود سے مرتب کرنا شروع کردیتا ہے۔ آؤٹ ڈور گیمز میں اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔
گرچہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس میں کچھ کمی و زیادتی ہے پر عموماً بلوغت / Puberty کی ابتدا ء اِسی دسویں سال سے ہوتی ہے اور بلوغت کے دماغی احساسات کے ساتھ جسمانی علامات بھی شروع ہوجاتی ہیں مثلاً زیر ناف بالوں (Pubic Hairs) کی شروعات، حیض / Menstrual Blood کی ابتدا، پستان کے Breast Buds کا آغاز وغیرہ۔ American Academy of Pediatrics کے مطابق چونکہ اس عمر میں بہت سے سیکس ہارمونز کی وجہ سے جسمانی تبدیلیاں شروع ہوتی ہیں اس لئے بچوں میں نا صرف دوسرے بچوں کی طرف رومانس کا رجحان ہوجاتا ہے بلکہ انہیں اپنی جنس و سیکشویلٹی کا اظہار بھی اچھا لگنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے اپنے کپڑوں سے لیکر دیگر استعمال کی چیزوں میں اپنی پسند نا پسند کو تھوپنا بھی شروع کردیتے ہیں۔
جس وقت بچہ پیوبرٹی میں داخل ہورہا ہوتا ہے جسمانی بدلاؤ کے ساتھ اس کے ہاں بہت سارے مثبت وہ منفی جذبات کا بھی ہجوم ہوتا ہے مثلاً ایکسائٹمنٹ، غیر یقینی کیفیت، جوش، گھبراہٹ، شرماہٹ، دوسروں کی طرف کھنچاؤ و میلان وغیرہ۔ غرض یہ ایک ایسا نازک مرحلہ ہے کہ جب بچہ بآسانی دماغی و جسمانی دونوں ہی سمتوں میں بہکنے کی پوزیشن میں ہوجاتا ہے۔ امیریکن پیڈیاٹرکس اکیڈمی کے ڈاکٹر شیف کا سجھاؤ ہے کہ ایسے وقت میں والدین کو انکی نگہداشت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر اس عمر میں بچوں کو اگنور کیا جائے تو جسمانی و ہارمونل تبدیلیوں کے چلتے وہ ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے والدین کے لئے ضروری ہے کہ بلا شرم و جھجھک اس عمر میں مذکر و مؤنث دونوں ہی صنفوں کو جسمانی تبدیلیوں اور انکے اثرات سے آگاہ کرتے رہیں۔
اس حوالے سے Dr Grow کا ماننا ہے کہ اس عمر میں اگر بچوں میں موڈ اور برتاؤ کی معمولی تبدیلیاں ہیں تو انہیں پیوبرٹی کی علامات سمجھ کر اگنور کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر یہ زیادہ ہیں مثلاً شدید غصہ، زیادہ حساسیت، ایگریشن، دوستوں میں زیادہ انہماک، اپنے رکھ رکھاؤ پر بہت ہی زیادہ دھیان وغیرہ، تو پھر والدین کو لازمی طور پر اس معاملے میں محتاط ہوجانے کی ضرورت ہے۔

شاید آپ کو اب تک سمجھ آچکا ہوگا کہ اس عمر میں شریعت مطہرہ میں بچوں کے بستروں کو کن ممکنہ خدشات کے تئیں علیحدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب کمالِ فہم یہ نہیں کہ آپ اس شرعی حکم کی سائنسی تطبیق دیکھ کر صرف خوش ہولیں، بلکہ شرعی اسلوب یہ بھی ہے کہ اس عمر میں داخل ہورہے اپنے بچوں کو ان طبعی تبدیلیوں سے آگاہ کریں، ان سے کھل کر ان موضوعات پر گفتگو کریں تاکہ ان کی مثبت جسمانی و ذہنی نشو و نما میں مدد ہوسکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں