خود کلامی/علی عبداللہ

بہت دنوں سے کچھ نہیں لکھا۔ لکھوں بھی تو کیسے؟ خیالات کا ایک دریا ہے جو سمٹنے میں نہیں آتا، مگر لفظوں کے بند باندھنا دشوار محسوس ہونے لگا ہے۔ یہ دنیا المیوں اور تضادات سے بھری پڑی ہے۔ جدھر دیکھتا ہوں انسانی المیے سر اٹھائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جنگوں اور فسادات نے انسان کو انسان نما کچھ اور ہی مخلوق بنا دیا ہے۔ کسی نے کہا تھا، ” اگر آپ انسانی دکھوں کی عمومی حالت پر غور کریں تو آپ کو بہت آسودگی حاصل ہو گی۔ ہم سب اس زمین پر اجنبی اور راہ گیر مسافر ہیں۔” کیا مسافروں اور راہگیروں کا بھی جھگڑوں سے کوئی تعلق ہوتا ہے؟
جنگوں سے نکلتا ہوں تو انسانی حرص اور تمنا کی وسعت دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہوں۔ تسلی اور دلاسا پہلے مظلوم کے لیے ہوا کرتا تھا، لیکن اب ایسے لوگوں کو بھی تسلی اور دلاسے دینا پڑتے ہیں جنہیں حرص کسی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ وہ دن بھر خواہش کے گھوڑے پر سوار زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی امید پر کسی سورج کو خاطر میں نہیں لاتے، اور پھر یونہی اچانک خواہش کے گھوڑے سے گر کر اسی سورج کی تپش میں جھلس کر بے نام و نشاں ہو جاتے ہیں۔ کیا انسانی خواہش کی کوئی انتہا بھی ہے؟
آدمی کہتا ہے کہ وہ ماضی سے چھٹکارا پا چکا ہے؛ ترقی اس کا نصیب بن کر اسے عروج کی جانب لے جا رہی ہے۔ مگر درحقیقت اس کے فیصلوں کی بنیاد میں ماضی ہی دفن ہے۔ وہ عہد گذشتہ میں پیش آئے واقعات و تجربات کی روشنی میں مستقبل تلاش کرتا ہے۔ اس کا علم ہو یا فن، اس کی یاداشت ہو یا خیال، ہر ایک میں ماضی کا پیوند ضرور نمایاں ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی اس کا یہ دعوی ہے کہ وہ ماضی سے آزاد ہو چکا ہے؛ بھلا ماضی سے کبھی کوئی آزاد ہوا ہے آج تک؟ ماضی اور حال کے بیچ کوئی والیس لائن نہیں ہے کہ جس سے ماضی کا کوئی بھی خیال کسی بھی بھیس میں، حال میں حائل نہ ہو اور حال کے کسی بھی قدم سے ماضی کی آہٹیں سنائی نہ دیں۔ اگر چرند، پرند، درند، حتی کہ آبی حیات کی ایک مخصوص والیس لائن ہے جسے وہ عبور نہیں کرتے، تو پھر انسان کے ماضی اور حال کے بیچ بھی ایسی ہی کوئی لائن ہونی چاہیے تاکہ ماضی اور حال اس لکیر کے آر پار نہ جا سکیں۔ مگر ماضی کے بغیر جینا ممکن ہے کیا؟ سوچو اگر آج یاداشت کھو جائے جو کہ ماضی ہی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟
آدمی ایسے ہی تضادات کے بیچ محو حیرت رہتا ہے۔ وہ اس کائنات میں راحت و سکون کی کھوج میں مختلف طوفانوں کا سامنا کرتا ہے۔ ماضی کے بھنور میں پھنسا، حال کی زنجیروں میں بندھا، اور مستقبل کی امیدوں کی کشمکش میں پڑا، وہ اپنی حقیقت اور فطرت سے دور ہونے کو ترقی خیال کرتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ایسی صورت حال میں اس کے دل کی موجیں اسے نئی راہ دکھاتی ہیں یا وہ اندھیر کناروں میں اسے فنا کر دیتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسان کے خوابوں اور خیالوں کا رنگ بدلتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ماضی کا سایہ کبھی بھی اس سے نہیں ہٹتا۔ کبھی وہ اپنے ماضی کے بھوت کے زیرِ سایہ گزری راتوں میں غرق ہو جاتا ہے، کبھی وہ حال کی لہروں میں غوطہ لگا کر اپنی زندگی کو ترقی کے موتیوں سے آراستہ کرنے کی جستجو کرتا ہے۔
غور کریں تو ہمارے پاس فقط ماضی کا علم اور تجربہ ہے یا مستقبل کی بے چینی ہے۔۔۔ یہ درمیانی وقت جسے حال کہتے ہیں وہ کہاں ہے؟ شاید ہم جستجو، جدوجہد اور کوشش کو حال کا نام دے سکتے ہیں، مگر سوچتا ہوں کہ ماضی، حال اور مستقبل آخر کس شے کا نام ہے؟ زمانے کی تقسیم کا کیا اور کوئی نام اور طریقہ نہیں ہے کہ جس میں گذشتہ، موجودہ اور متوقع کی کشمکش نہ ہو؟ کسی نے کیا خوب کہا تھا،
“ہر کسے کو دور مانداز اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش”
یعنی، جو کوئی اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے؛ وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے۔
یہ اصل کیا ہے، انسانی فطرت اور مقصد اعلی ہی تو ہے، جسے ترقی یافتہ اور عروج کے نام پر کہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور کسی روز اسی کی تلاش ہمیں کسی نہ کسی صورت ماضی سے منسلک کر دیتی ہے۔ لیکن اس وقت تک ماضی کا رجسٹر اتنا بھر چکا ہوتا ہے کہ مقصد اور فطرت کے ابواب کہیں پوشیدہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ کم لوگ ہی ہوتے ہیں جو ان ابواب کو ڈھونڈ کر انسانی فطرت اور مقصد کو پا لیتے ہیں، وگرنہ اکثریت تو انھی ابواب کی تلاش میں خود ماضی کا حصہ بن جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply