جدہ ایئرپورٹ کی شام/شہزاد ملک

شام کا جھٹپٹا اندھیرا چھا رہا تھا جب صومالی ایئرلائن کے طیارے نے جدہ ایئرپورٹ کی زمین کو چھوا، جب جہاز رک گیا تو اعلان ہوا کہ چونکہ جدہ ایئرپورٹ پر پروازوں کا بہت رش ہے اس لئے جہاز کی سیڑھیوں اور بسوں کے لئے اپنی باری کا انتظار کیا جائے گا ،اس دن جہاز میں بیٹھے بیٹھے کھڑکیوں سے جو ایمان افروز نظارہ ہم نے دیکھا اس کی یاد اب بھی ذہن میں تازہ ہے، تصور کی آنکھ سے میں آج بھی اکثر اس طلسمی نظارے میں کھو جاتی ہوں۔

جدہ ایئرپورٹ روشنیوں سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا کرۂ ارض سے اَن گنت ہوائی کمپنیوں کے بے شمار رنگ برنگے جہاز دنیا بھر سے حجاج کرام کو لے کر آرہے تھے ہر پانچ منٹ بعد کسی ملک کا جہاز اتر رہا تھا بہت سے جہاز رن وے خالی ہونے کے انتظار میں فضا میں چکر لگا رہے تھے ،ان اڑتے چکر لگاتے جہازوں کی ٹمٹماتی روشنیاں یوں لگ رہی تھیں جیسے بہت سے جگنو ہوا میں اڑ رہے ہوں، کچھ جہاز اتر رہے تھے کچھ رن وے پر دوڑ رہے تھے، کچھ مسافروں کو اتارنے کے لئے کھڑے تھے، کوئی دوبارہ اڑان بھرنے کے لئے پر تول رہے تھے، ایئرپورٹ پر گہما گہمی اور زبردست ہلچل تھی مگر افراتفری اور بد نظمی نہیں تھی۔ ایئرپورٹ کے عملے کی گاڑیاں جہازوں تک سیڑھیاں لے جانے والی گاڑیاں مسافروں کو جہازوں سے ایئرپورٹ کی عمارت تک لے جانے والی بسیں بڑی مستعدی سے ادھر اُدھر آ جا رہی تھیں ان پر چمکتی ہوئی جلتی بجھتی روشنیاں عجب بہار دکھا رہی تھیں ،ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم آسمان کے کسی حصے میں جگمگ کرتی کہکشاں کے درمیان کھڑے ہوں دیس دیس کے لوگ احرام باندھے جہازوں سے اتر رہے تھے امریکہ یورپ افریقہ آسٹریلیا ایشیا اور دور دراز کے جزائر سے مختلف النسل گورے کالے گندمی زرد رنگوں کے انسان عبودیت کے جذبے سے سرشار اپنے رب کے حضور حاضری دینے چلے آرہے تھے، یہاں بیٹھ کر احساس ہورہا تھا کہ یہ سب لوگ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں توحید اور رسالت کی رسّی سے بندھے ایک دوسرے سے یکسر اجنبی یہ انسان لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے ایک ہی مرکز کی طرف کھینچے چلے جارہے تھے، اسلام کی ہمہ گیریت کا ایک پُرکیف احساس تھا جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر مشام جان کو معطر کر رہا تھا وہ شام ہماری زندگی کی حسین ترین شام تھی دوبارہ ایسی شام نہ کبھی نصیب ہوئی نہ ہو سکتی ہے ،کیونکہ اس وقت ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہمارے ساتھ تھے جن کے حیرت بھرے معصوم سوالوں کے جواب دینے میں ہم دِلی راحت محسوس کر رہے تھے۔

قریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہماری باری آئی، سیڑھیاں جہاز کے ساتھ لگتے ہی لوگ اترنا شروع ہوگئے، بسوں نے ہمیں ایئرپورٹ کی عمارت تک پہنچایا، بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے کاغذات کی جانچ پڑتال اور حج کا اجازت نامہ دینے کے لئے بہت سے کاؤنٹر کھول دئیے گئے تھے اس کے باوجود ہر کاؤنٹر کے سامنے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں جس کاؤنٹر پر ہماری باری آئی وہ عجیب بے رونق سی جگہ تھی بیٹھنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا، ملک صاحب لائن میں لگ گئے اور بچوں کے ساتھ میں پودوں کی سیمنٹ والی لمبی کیاری کے کنارے بیٹھ گئی ،رات کے آٹھ بج رہے تھے، دوپہر میں جہاز کے اندر دیا گیا لنچ بچوں کو پسند نہ آیا تو بہت کم کھایا، اب بھوک لگ رہی تھی تو آس پاس کھانے کی کوئی چیز دستیاب نہ تھی، ساتھ رکھے ہوئے بسکٹ بھی ختم ہونے والے تھےکاؤنٹر پر لگی لائن بڑی آہستگی سے کم ہورہی تھی۔

کوئی زمانہ تھا حجاج کرام کھانے پینے کے علاوہ ضرورت کی ہر چیز اپنے ملکوں سے اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے مگر بعد میں کچھ صحت و صفائی کے مسائل پیدا ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں پر پابندی لگ گئی ،مگر بہت سے لوگوں کو یا تو اس پابندی کا علم نہیں تھا یا انہوں نے اس کی پابندی کرنا ضروری نہیں سمجھا اور اپنے کام و دہن کی لذت کے لئے قسم قسم کی مٹھائیاں حلوے اور پھل خصوصا ًآم ساتھ اٹھائے ہوئے تھے ۔دو اہلکار کاؤنٹر پر کاغذات چیک کرانے والوں کے ہاتھوں سے کھانے کی اشیا لے کر سیاہ پولیتھین لگے ڈرموں میں پھینک رہے تھے بھارت سے آئی ہوئی ایک معمر خاتون مکہ میں رہنے والے اپنے بیٹے کے لئے بہت اچھی قسم کے آم لے کر آئی تھی، جب عربی اہلکاروں نے انہیں بھی ڈرم کی نذر کردیا تو خاتون نے بہت احتجاج کیا مگر عربی شرطوں پر کوئی اثر نہ ہوا ،جن لوگوں کی چیزیں ڈرم میں پھینکی گئیں سب بہت احتجاج کر رہے تھے لیکن اہلکاروں کے تو گویا کان ہی نہیں تھے، وہ بڑی بے دردی سے چیزیں ڈرم میں پھینک رہے تھے اور اتنی دور سے چیزیں لے کر آنے والے بڑی حسرت سے انہیں دیکھ کر دکھی ہورہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا خدا کرکے ملک صاحب کاؤنٹر کے قریب پہنچے ،اپنے اور میرے کاغذات جانچ پڑتال کے لئے ان کے حوالے کئے ،انہوں نے اپنی تسلی کرکے پاسپورٹ خود رکھ لئے اور عارضی اجازت نامہ دے دیا، جس پر صرف حج کے ایام تک ٹھہرنے کی مدت اور مناسک حج ادا کرنے کے مقامات کا اندراج تھا۔ یہ احتیاط اس لئے تھی کہ حج پر آئے ہوئے لوگ سعودی عرب میں ہی نہ رہ جائیں اس کے باوجود کئی لوگ جدہ مکہ اور مدینہ میں رہ جاتے ہیں اور پھر غیر قانونی طور پر پاسپورٹ بنواکر اقامہ یعنی وہاں قیام کا اجازت نامہ خرید کر وہیں رہ جاتے ہیں جب تک اقامہ مل نہیں جاتا یہ لوگ چھپ چھپا کر وقت گذارتے ہیں۔خیر ہم وہاں نکلے اور اپنی ٹھکانوں کی طرف عازمِ سفر ہوئے،تاکہ رب کے حضور جلد از جلد سجدہ شکر ادا کیا جاسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply