خواجہ سراؤں کا ناچ گانا اور گھنگرو/عثمان انجم زوجان

ہم کوئیر کمیونٹی کے زوجان ہیجڑوں کی ٹولیاں جب بھی کسی نومولود بچے کی پیدائش پر اس کے گھر جا کر اپنی گرو ماں کے اذن پر ناچتے ہیں، تو اپنے گھنگرو ضرور پہنتے ہیں، اس لیے کہ بغیر گھنگرو پہنے ہمارا ناچ گانا آدھا ادھورا اور بے جان سا ہوتا ہے۔

خواجہ سراؤں کو اپنے گھنگھرؤں پر بڑا ناز ہوتا ہے اور اپنی جان سے زیادہ ان کی حفاظت کرتے ہیں، صدیوں سے یہ ریت چلی آ رہی ہے کہ خواجہ سرا اپنے گھنگرو دیوار کی طاق میں رکھنے کے بجائے ہمیشہ زمین پر رکھتے ہیں، کہ کہیں غلطی سے بھی طاق میں رکھ دیے تو گھنگھرو کہیں گونگے بہرے نہ ہو جائیں۔

بیٹا ہوا کسی کے، جو سن پاویں ہیجڑے
سنتے ہی اس کے گھر میں پھر آجاویں ہیجڑے
ناچیں بجا کے تالیاں اور گاویں ہیجڑے
لے لے کے بیل، بھاو بھی بتلاویں ہیجڑے

اس کے بڑے نصیب، جہاں آویں ہیجڑے

(فرہنگ آصفیہ از نظیر اکبر آبادی)

گلیوں ، بازاروں ، چوکوں، چوراہوں میں کھسرے بن کر ناچنے گانے والے خواجہ سرا یا ہیجڑے نہیں ہوتے بلکہ وہ مرد ہوتے ہیں یا عورتیں ہوتی  ہیں، جس سے اکثر وہ خود بھی واقف نہیں ہوتے، قدیم دور میں ترک بادشاہ جن ہیجڑوں کو اپنی مستورات کے حرم کی نگہبانی کے لیے مقرر کرتے تھے، انہیں خواجہ سرا کا خطاب دیا کرتے تھے، ہر ہیجڑا خواجہ سرا نہیں ہوتا بلکہ ہیجڑوں میں جو ہیجڑا کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو، اسے خواجہ سرا کہا جاتا ہے، ترک بادشاہت میں جو ہیجڑے کسی سرکاری عہدے پر فائز ہوتے تھے ان کے نام کے ساتھ خواجہ سرا کا لقب ضرور ہوتا تھا، خواجہ کا معنی افسر اور سرا کا معنی شاہی ہوتا ہے، جس کا مطلب تھا شاہی افسر۔

جبکہ اس دور میں ہر ہیجڑے اور ہر کھسرے کو خواجہ سرا ہی سمجھا اور کہا جاتا ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا، صرف وہی ہیجڑا خواجہ سرا کہلاتا ہے، جو کسی سرکاری عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔

کوئیر کمیونٹی کے ہیجڑے اپنی روایات کے اس قدر امین ہوتے ہیں کہ جب انہیں کسی علاقے میں کسی نومولود کی پیدائش کی خبر ملتی ہے، تو سب سے پہلے اس علاقے کی خبر گیری کرتے ہیں کہ کہیں اس علاقے میں کوئی فوت تو نہیں ہوا، اگر ایسا ہو تو وہ اس علاقے میں بدھائی لینے ہر گز نہیں جاتے۔ اور کہیں جا رہے ہوں اور راستے میں جنازہ مل جائے تو وہی سے واپس لوٹ آتے ہیں۔

مرد نربان کھسروں نے ان کی اس روایت کے  پیش نظر پیسے کمانے کے چکر میں اپنی مردانہ صفات ختم کروا کر ان کا روپ دھارا اور اس ناچ گانے سے منسلک ہو گئے، پھر یہیں  سے یہ نربان کھسرے آہستہ آہستہ بدکار پیشے میں داخل ہوگئے، جہاں انہوں نے شیطانیت اور حیوانیت کی تمام حدیں توڑ دیں، اور ہیجڑوں کے اس ناچ گانے کو جو روحانیت سے بھرپور ہوتا تھا، شادیوں اور میلوں میں کھلے عام مجرے کے رواج سے بدل دیا۔

ہیجڑے جب ناچتے گاتے ہیں تو ارد گرد سے بے خبر و بیگانا ہو کر سالک کو سلوک کی اُس  منزل پر پہنچا دیتے ہیں، جس کی تلاش میں وہ صدیوں تک بھٹکتے رہتے ہیں، آپ میں سے اکثر لوگوں نے بابا سید بلھے شاہ قصوری کا وہ قصہ ضرور پڑھا یا سنا ہو گا کہ جب بابا سید بلھے شاہ قصوری نے ہیجڑوں کا ناچ گانا دیکھا تو ان پر وجدانی کیفیت طاری ہو گی، اور اسی کیفیت میں جو گانا گایا وہ کچھ یوں تھا،

امباں والی باغیچی سنی دی کهجی والا باغ
کهوتیاں والے سد بلائ ستی ایں تاں جاگ
چنیا ائیوں چهڑیندا یار
چنیا ائیوں چهڑیندا یار

اور اس وقت کا جابر و ظالم حاکم اس کیفیت کی تاب نہ لا سکا اور اسی طرح ضیاء الدین برنی نے امیر خسرو کے بارے تحریر کیا کہ امیر خسرو اکثر رات کے ویرانے میں ہیجڑوں کا ناچ گانا دیکھنے جایا کرتے تھے۔ اور جب کبھی ان پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی خود بھی ناچنے گانے لگ جاتے تھے۔

احادیث میں کہیں نہیں لکھا کہ عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے ناچتے گاتے تھے، بلکہ اس کام کے لئے پیشہ ور مغنیات ہوتی  تھیں، جو گاتی  تھیں، جس طرح ہمارے یہاں خوشی کے  موقع  پہ خواجہ سراء اور کوئیر کمیونٹی کے لوگ ناچتے گاتے ہیں۔

مرد نربان کھسرے جب بڑی اداؤں سے ناچتے گاتے ہوئے پیسے پکڑنے آتے ہیں تو دلربا ایک مسکراہٹ بھی چہرے پہ سجاتے ہیں، جن کو دیکھ کر مزید پیسہ دیا جا سکتا ہے،اس وقت ہمیں لگتا تو یہی ہوگا کہ یہ اب ہیں ہی ایسے، سیکس آبجیکٹ یا دل لبھانے والے، ہم نے جب بھی کسی کو دیکھا حال کی نظر سے دیکھا، ماضی میں جھانکنا ہمیں ویسے ہی اچھا نہیں لگتا۔

میری دھرتی میرپور، آزاد کشمیر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میرپور کی دھرتی  پر  جنم لینے والے ایک عظیم سپوت حاجی راجہ مختار مرحوم آل ایشیاء پاکستان خواجہ سرا ایسوسی ایشن کے صدر رہے ہیں، جن کا انتقال دو سال قبل ہو چکا ہے، ان کے پاس پورے پاکستان اور بیرون ملک کے خواجہ سرا آتے تھے، اور ان کو آل پاکستان کے گرو ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے، میرپور کا بچہ بچہ حاجی راجہ مختار مرحوم المعروف مختاراں مائی کے نام سے واقف ہے، حاجی مختاراں جب بھی نئے پیدا ہونے والے کاکوں کی خوشی میں ناچنے کیلئے آتے تھے تو پورا محلہ انکے ساتھ ہوتا تھا اور کسی کی جرات نہیں تھی کو ان کو اپنے گھر میں ناچنے گانے سے منع کرے، حاجی صاحب جب میرپور کچہری میں جاتے تھے تو سونے سے لدے پھدے ہوتے تھے، اور تمام وکلا اور جج انکا بہت احترام کرتے تھے۔

زوجان ہیجڑے خواجہ سرا زنخے زنانے مرد اور عورتیں ناچتی گاتی کیوں ہیں، اس کے پیچھے ان کی خواہشات کیا ہوتی  ہیں اور انکی خواہشات سے ہمارے معاشرے میں کونسی برائیاں جنم لیتں ہیں، انکا کون ذمہ دار ہوگا، اور انکو کیسے لگام ڈالی جائے؟

حکومت وقت کو اس بارے میں بھی سوچنا چاہہے، اور اس کام کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں  اور یہ ہم سب نے مل کر کرنا ہے!

ہوتے ہوں گے اذیت ناک غم، محبت کے بھی مگر سنو!

کیا تم نے روٹی کیلئےکبھی کسی کو ناچتے دیکھا ہے!

julia rana solicitors london

نوٹ: اس مضمون کے کچھ حصے ماخوذ ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خواجہ سراؤں کا ناچ گانا اور گھنگرو/عثمان انجم زوجان

Leave a Reply