آئین و قانون کی حکمرانی اور سول بالادستی کی راہ میں جہاں مقتدرہ دیوار بنی رہی، وہیں جمہوریت سیاستدانوں کی ہوس اقتدار اور موقع پرستیوں کی بھینٹ چڑھتی رہی۔ اقتدار کی بندر بانٹ میں آئین غیر موثرہوتا گیا اور زخم خوردہ جمہوریت پسپائی اختیار کرتی رہی، جبکہ مقتدرہ کے ماورائےآئین سیاسی منصوبوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی گراوٹ کی موجودگی میں مقتدرہ کے کسی نئے پراجیکٹ کی کامیابی کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنا عمران پراجیکٹ کامیاب ہوا تھا۔
عمران حکومت ہائی برڈ بندوبست بُری طرح پٹ گیا اور اس نے ملک میں نئے بحرانوں کا دروازہ کھول دیا۔ سیاسی عدم برداشت، نفرت، الزام تراشی اور گالی گلوچ کی سیاست، جنرل باجوہ اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی میں پھلتی پھولتی رہی۔ باجوہ اسٹبلشمنٹ کےعمران حکومت کے ساتھ مفاداتی ٹکراؤ اور محلاتی سازشوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کو تیز تر کر دیا تھا۔ بلآخر عمران حکومت رہی نہ باجوہ اسٹبلشمنٹ، مگر سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
سولہ ماہ کی شہباز اتحادی حکومت معاشی و سیاسی بحرانوں پر قابو پانے میں ناکامی پر اُلٹی سیدھی دلیلیں گھڑتی رہی۔ان دلیلوں کو عوام نے عام انتخابات میں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ن لیگ کے راہنما کھلے عام تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ سابقہ شہباز حکومت میں معاشی بحران اور مہنگائی کا طوفان ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنا۔
فروری ۲۰۲۴ عام انتخابات کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ایک نئی اتحادی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ آصف علی زرداری مسند صدارت پر براجمان ہو گئے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مخلوط حکومت قائم کرنے والی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اسے جمہوریت پسند ، آئین و قانون کی حکمرانی اور سول بالادستی کے دعویداروں کی حکومت کہا جا سکتاہے۔ جبکہ غیر جانبدار تجزیہ کار اسے ہائی برڈ سیاسی بندوبست کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ مقتدرہ نہ عام انتخابات میں غیر جانبدار تھی اور نہ ہی مستقبل میں اس کے حکومتی اور سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہنے کے امکانات نظر آتے ہیں۔
پی ٹی آئی ، مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار مقتدرہ کو ٹہرا رہی ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے والی ن لیگ اور پی پی پی بھی عام انتخابات میں مقتدرہ کے غیر جانبدارانہ کردار پر شاکی ہیں۔ پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی ہو یا مذہبی سیاسی جماعتیں یا چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں، سب انتخابات میں مقتدرہ کے مبینہ جانبدارانہ کردار پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
مقتدرہ پروجیکٹ کہی جانے والی پی ٹی آئی کے راہنما آئین و قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کے نئے چیمپئن بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے خلاف بد زبانی کرنے والے پی ٹی آئی کے راہنما مولانا کے در پر حاضری دینے پر مجبور ہو گئے۔ بلوچستان کے پشتون راہنما محمود خان اچکزئی کو تضحیک کا نشانہ بنانے والی پی ٹی آئی انہیں صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے پی ٹی آئی نے حکومت سے باہر سیاسی قوتوں کے ساتھ متحد ہو کر جمہوری جدوجہد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسے پی ٹی آئی کی سوچ اور سیاست میں مثبت تبدیلی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کاکردار ادا کرنے کے علاوہ حکومتی جماعتوں کے ساتھ پارلیمانی ڈائیلاگ کی پالیسی پر غور کرنا چاہے۔ پی ٹی آئی کو مقتدرہ کی نظرکرم کی توقع کے بجائے پارلیمان کے اندر اورباہر سیاسی قوتوں سے راہ و رسم بڑھانا چاہئے۔ اس طرح پی ٹی آئی کو ریاستی جبر سے بچنے کی راہیں تلاش کرنے میں آسانیاں پیدا ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ اس راستہ پر چل کر سزاوں اور مقدموں کے بوجھ تلے دبے سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو رہا کرانے کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
مقتدرہ کی حکومتی و سیاسی معاملات میں مداخلت اور سول ملٹری تعلقات میں بڑھتے عدم توازن کے بارے میں خدشات کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہےہیں۔ عمومی خیال ہے کہ نئی مخلوط شہباز حکومت میں مقتدرہ کی حکومتی و سیاسی معاملات پر گرفت کمزور ہوتی نظر نہیں آ رہی۔مخلوط شہبازحکومت کو ہائی برڈ پلس کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شہباز حکومت آئینی و انتظامی اختیارات کے استعمال کے دوران مزیدجمہوری سپیس حاصل کرنے کی جانب عملی اقدامات اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ کیا صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف ایسی حکمت عملی اختیار کرنے میں کامیاب ہوں گے جس سے پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ کیا پسپائی اختیار کرتی جمہوریت کے قدم آگے بڑھ پائیں گے۔ یہ بلین ڈالر سوالات ہیں جن کا جواب نہ صدر آصف زرداری کے پاس ہے اور نہ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس۔

مگر محتاج معیشت اور سیاسی عدم استحکام تقاضا کرتے ہیں کہ مقتدرہ ماضی کے ناکام تجربات سے سبق سیکھے۔ سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کرنے کا عملی مظاہرہ کرئے۔ اب مقتدرہ کو باور کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہئے کہ اسکی اصل طاقت کمزور جمہوی نظام میں نہیں، بلکہ عوام کا ریاستی اور سول منتخب اداروں پر اعتماد مقتدرہ کی حقیقی طاقت ہوتی ہے۔یہ حقیقت شک و شبہ سے بالا ہے کہ مقتدرہ کی سیاسی عدم مداخلت سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو گا، جس سے ملک مستحکم جمہوریت، معاشی ترقی اور خوشحالی کی جانب تیزی سے گامزن ہو سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں