مثبت سوچ و رویے/فرحانہ مختار

نفسا نفسی کے اس دور میں جس سے گفتگو کریں، لین دین کریں یا کوئی اور معاملات درپیش ہوں، زیادہ تر لوگ دوسروں کے منفی رویے سے نالاں نظر آتے ہیں۔
یہ منفی رویہ جھوٹ بولنا، لڑائی جھگڑا، مفاد ہرستی، سازش یا دھوکہ دہی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ منفی رویہ/سوچ بچوں میں منتقل کیسے ہوتا ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ ہم والدین جب کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو بچوں کے سامنے ہی ان کی بُرائی بیان کرتے ہیں۔ جب بچے یہ سب سنتے ہیں تو یہیں سے کسی کے بارے میں بھی منفی سوچ یا رویہ رکھنا سیکھتے ہیں۔
اس طرح باقی منفی رویے بھی معاشرے یا والدین سے بچوں کی شخصیت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔
منفی سوچ کو روک لیں:
 میاں بیوی ایک دوسرے کی برائی بچوں کے سامنے بیاں نہ کریں۔ اور نہ ہی لڑائی جھگڑا کریں۔ اس کا بچوں کی شخصیت پہ بہت برا اثر پڑتا ہے۔ وہ والدین سے یکساں محبت کرتے ہیں اور ان کو ایک اکائی اور مضبوط سہارا سمجھتے ہیں۔ جب والدین ایک دوسرے کی شکایت یا برائی بچوں سے کرتے ہیں تو بچے دونوں پہ بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا، بہتر ہے آپس کے اختلافات بچوں کی غیر موجودگی میں حل کیے جائیں۔

٭بچوں کے سامنے رشتہ دار، ہمسایہ یا کسی بھی شخص کی برائی نہ کریں۔ اگر بچے خود ان کا کوئی رویہ دیکھیں تو ان کو منفی سوچنے سے روکیں اور کہیں کہ اس وقت وہ شخص تھکا ہوا، پریشان یا بیمار تھا اس لئیے اس سے یہ “منفی رویہ” سرزد ہوا۔ اہم یہ ہے کہ بچوں کو غیر مناسب رویے (برائی) سے نفرت دلائیں نہ کہ اُس شخص سے۔

٭اکثر بچے اپنے اساتذہ، دوستوں یا کلاس فیلوز کے بارے میں شکایت یا منفی تبصرہ کرتے ہیں۔ یہاں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بچوں کی منفی تبصرہ کرنے یا شکایت لگانے کی عادت کی حوصلہ شکنی کریں۔

اگر واقعتاً کوئی اہم مسئلہ ہے تو ان کی بات ضرور سن لیجیے، مگر تمام حقائق جانے بنا کوئی رائے قائم نہ کریں اور نہ ہی اپنے بچے کے معاملے میں جانبداری سے کام لیں۔

٭حتی المقدور کوشش کی جائے کہ بچوں میں مثبت سوچ اور رویوں کو پروان چڑہایا جائے۔ منفی سوچ اور رویوں کو روکنا نہایت اہم ہے، ورنہ یہ ان کی شخصیت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔

٭منفی سوچ کو روکنا ہے لیکن ازحد ضروری ہے کہ انہیں منفی رویے رکھنے والے اشخاص سے معاملات برتنے میں “احتیاط” کی ترغیب ضرور دی جائے۔ عمر اور صنف لے لحاظ سے احتیاط کرنا بھی ضرور سکھایا جائے۔

٭مشکل تو ہے لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین مثبت سوچ کا پرچار کریں۔ بچوں کے ساتھ روزانہ مثبت گفتگو کریں۔ بچے مثبت سُنیں گے، دیکھیں گے، پڑھیں گے، تو مثبت سوچیں گے

٭منفی گفتگو ترک کر دیں۔ مثلا” تم تو ہو ہی نالائق۔۔تم تو ہمیشہ جھوٹ بولتے ہو۔۔کم نمبر لیتے ہو۔

٭مثبت سوچ دینے کے لئیے گفتگو کا انداز بدلنا ہو گا۔۔۔
مثلاًآپ بہت محنت سے پڑھائی کرتے ہو تو ضرور کامیاب ہو گے۔ آپ میرا خیال رکھتے ہو تو مجھے اچھا محسوس ہوتا ہے ۔ آپ سچ بولتے ہو مجھے اطمینان ہوتا ہے۔ آپ چھوٹی بہن کی مدد کرتے ہو تو وہ خوش ہوتی ہے۔۔۔سب سے بڑھ کر آپ کے اس رویے سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوشش کی جائے کہ بچے (positive energy) مثبت توانائی میں گِھرے رہیں۔ مثبت سوچیں، مثبت دیکھیں اور مثبت رویے سیکھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply