ڈاکٹر صادق کی شفقت اور میرا نوحہ/عبدالرؤف خٹک

محبت، قربت کا نام ہے۔ ہر محبت کا تعلق جنس اور جسم سے نہیں ہوتا۔ کچھ محبتوں کا تعلق احساسات اور جذبات سے ہوتا ہے۔ برسوں پر محیط تعلق آپ میں انسیت کو ابھارتا ہے  اور آپ میں لگاؤ کی اک ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اس تعلق کو ختم نہیں کرسکتے۔
رشتوں ناطوں سے ہٹ کر بھی کچھ تعلق ہوتے ہیں  اور انھیں دوستی کہا جاتا ہے۔ دوستی کا تعلق جتنا گہرا ہوتا جاتا ہے، فاصلے اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دوریاں سمٹ کر لمحوں میں آجاتی ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آپ جہاں کام کرتے ہیں ۔ وہاں اگر آپ نے اک لمبا عرصہ گزار دیا ۔ وہاں کے لوگ آپ کے ساتھ گھل مل گئے یا آپ ان میں کھو گئے تو پھر وہاں کے لوگوں سے وہاں کے درو دیوار سے اس جگہ کی اک اک چیز سے اک انسیت قائم ہو جاتی ہے۔ اور یہ کوئی لمحوں میں نہیں ہوتا یہ انسیت سالوں پر محیط رہتی ہے۔

کچھ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ وہ جب اک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کرتے ہیں ۔ ان کے لیے وہ لمحات بہت گراں گزرتے ہیں۔ پرانی جگہ سے نئی جگہ جانا کسی حادثے سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ بھی انسان ذریعہ معاش کے لیے کرتا ہے۔ اپنے بہتر مستقبل کے لیے کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئیے اپنے بوڑھے ماں باپ کے لیے روزی کے ذزرائع مزید بڑھائے،تاکہ مشکل حالات کا مقابلہ بآسانی کیا جاسکے۔

یہ وہ تمام خواہشات ہیں جو انسان کو اک جگہ سے دوسری جگہ   جانے پر مجبور کرتی  ہیں ۔ اور انسان ان تمام محبتوں اور تعلقات کو پس پشت ڈال کر اگلے سفر کے لیے گامزن ہو جاتا ہے۔
ایسا ہی اک حادثہ، سفر، ان  موصوف کے ساتھ بھی رہا ۔ اک اچھے مستقبل کی تلاش لیے اک نئی راہ کا تعین کیا۔ یہ سوچ کر کے کہ شاید اب زندگی کے دن بدلنے کو ہوں ۔شاید یہ نئی جگہ ہماری قسمت کو چار چاند لگا دے۔ یا پھر نئی جگہ جانے سے ہم پر نئی راہیں متعین ہوں اور مستقبل کے نئے فیصلے ہمارے لیے  مزید سود مند ثابت ہوں۔ لیکن ضروری نہیں کہ سہانے خواب ہی حقیقت ہوں بلکہ کبھی کبھار خواب سراب بن جاتے ہیں۔

یہ بھی اک حقیقت ہے کہ خوشیاں سانجھی ہوتی ہیں اور غم آپ اکیلے ہی پالتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ۔ تمام خوشیاں بانٹنے کے بعد دکھوں کا ٹوکرا ہم اپنے سر پر لئیے لئیے پھرتے رہے۔ لیکن دکھ کسی کے ساتھ بانٹیں نہیں۔

یہ ہجرت میرے لئیے کسی حادثے سے کم نہ تھی۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ روتے ہنستے کام کرتے اور زندگی کے دن گزارتے۔لیکن لبوں پر شکایت کیسی۔ رونا کس بات کا۔ جب فیصلہ ہی ہمارا خود کا تھا تو پھر دوش کسی پر کیوں۔

سمجھانے والوں کا بھی تانتا تھا اور جذبات ابھارنے والوں کا بھی جم غفیر۔ دونوں ہی میرے خیر خواہ تھے۔ دوستوں سے شکایت کیسی۔
لیکن اک شخص جس نے قدم قدم پر میری راہنمائی کی اس کا تذکرہ کیے بغیر تحریر میں وہ جان نہیں آئے  گی ۔ تحریر کا مقصد ہی ان کی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن، حیدرآباد کی اک جانی مانی شخصیت ۔  جگر معدے کے خاص ڈاکٹر ۔ جس سے سندھ کے لاکھوں ہیپاٹائٹس کے مریض شفایاب ہو چکے ہیں۔ ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے روح رواں ۔ مینیجنگ ڈائریکٹر ۔
آج بھی ادارہ ان کے بغیر اک ویران بستی کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر صادق ادارے کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ وہیں اپنی او پی ڈی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صادق میمن، گیسٹرو انٹرو لوجسٹ اینڈ ہیپاٹولوجسٹ ہیں۔
ڈاکٹر صادق قلندرانہ شخصیت کے مالک ہیں، خاص کر مریضوں کے حوالے سے۔

یہ ڈاکٹر صادق ہی تھے جنہوں نے مجھے ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی تھی، اور جو بھی میری مانگ، ضرورت، طلب تھی انھیں پورا کرنے کا وعدہ کیا اور  مجھے نہ جانے کا مشورہ دیا۔ لیکن اس وقت میں بھی نئی جگہ کے لئیے اتاولا ہوئے بیٹھا تھا ۔

آج جہاں وہ ادارہ، لوگ، دوست اک اک شے یاد آتی ہے وہیں ڈاکٹر صاحب کو بھی بہت شدت سے یاد کرتا ہوں ۔
اسی تعلق کو خلوص نیت کہا جاتا ہے۔ جس میں رتی بھر بھی کوئی طمع، لالچ نہیں ہوتی۔ اور اک دوسرے کے لئیے دلوں میں محبتیں بھری رہتی ہیں۔

ادارے سے تعلق ٹوٹنے کے بعد بھی میرا قلبی تعلق ان کے ساتھ جڑا رہا اور یہ ہجرت کوسوں میل پر محیط نہیں تھی   بلکہ اک ادارے سے دوسرے ادارے کو ہم منتقل ہوئے تھے۔ لیکن میرا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس کی وجہ سترہ سال کی وہ محبت تھی جو مجھے مجبور کرتی تھی کہ میں وہاں جاؤں اور ان لوگوں سے میل جول رکھوں۔

میں ڈاکٹر صادق صاحب کا شکریہ ادا کرونگا کہ میرے جانے کے بعد بھی انھوں نے اک دفعہ مجھے رات کو 12:00 بجے کال کر کے کہا تھا کہ ، عبدالرؤف آپ چھوڑ کر چلے گئے ہو ۔ لیکن جب بھی آؤ تو اپنا گھر سمجھ کر سیدھا اندر آنا باہر ٹھہرنے کی  ضرورت نہیں۔ اسی بات نے مجھے اتنی ڈھارس دی تھی کہ آج بھی میں کھلے بندوں آتا جاتا ہوں۔
آج بھی اک خواہش سی انگڑائی لیتی ہے کہ واپس ان لوگوں میں چلا جاؤں۔ جن کی یادیں مجھے اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نئی جگہ پر جانے کے بعد میں اس جگہ سے کافی بد دل ہوچکا تھا اور وہاں میرا دل نہیں لگتا تھا ۔ کافی وجوہات تھیں جس نے مجھے بدظن کردیا تھا ۔ لیکن بچوں کی خاطر وقت کو دھکا دے رہے تھے۔ اس دوران میں نے کوشش کی تھی کہ میں واپس جاؤں اور اس سلسلے میں ، میں نے ڈاکٹر صادق سے رابطہ کیا پیغام کے زریعے اور بلا واسطہ بھی۔
انھوں نے ہامی تو بھری تھی لیکن تسلی اور تشفی بخش جواب نہیں ملا تھا۔ شاید ان کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوں جو آڑے آرہی تھی۔
میں آج بھی انتظار کرتا ہوں کہ شاید کوئی بلاوا آجائے۔ اور امید ہے کہ میں اک بار پھر اسی ادارے کی زینت بنوں گا۔ جس کی حسین یادیں آج بھی مجھے رلا سی دیتی ہیں۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply