مقام ابراہیم پر دو نفل پڑھے ۔ چار روز پہلے جب میں نے عمرہ کیا تھا تو پوری چاہت کے باوجود مجھے میرے متعلقین نے اجازت نہ دی تھی کہ میں پیدل چل کر کے سعی کروں۔ میری ڈاکٹر بیٹی نے فون کر کے بڑی سختی سے کہا تھا کہ :
” پیدل طواف کر لیا ہے لیکن اب سعی کی اجازت نہیں”۔
کہ میری صحت کے کچھ مسائل ایسے ہیں ۔ تین برس پہلے دل کے اندرون دو سٹنٹ پڑے تھے اور ایک دو ” مقامات آہ و فغاں ” ایسے تھے کہ جہاں ابھی کچھ رکاوٹ تھی لیکن وہاں سٹنٹ ڈالنے ممکن نہ تھے ۔
لیکن اب کے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ بھلے کچھ ہو جائے میں نے سعی پیدل ہی کرنی ہے کہ
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
سو اس ارادے سے میں ہوٹل واپس چل دیا کہ جا کے آرام کروں گا اور صبح دم جب طبیعت ہشاش بشاش ہوگی تو سعی کروں گا ۔ صبح فجر کی نماز حرم میں ادا کی ، موسم خوشگوار تھا اور ہوا میں خنکی تھی ۔ نماز پڑھ کے کچھ دیر بیٹھا رہا اور پھر دھیرے دھیرے چلتا ہوا کوہ صفا پہنچ گیا ۔ میرا جی تھا کہ میں اس راستے پر ایک ایک قدم ایک بار تو چلوں کہ :
جس راستے پر ” بے تابیاں سارے جہاں ” کی دل میں سمو کر چلیں تو جبرائیل اتر آتے ہیں ۔۔۔۔
جس راستے کی بے چینیاں زمزم عطاء کرتی ہیں ۔
میں اپنی ماں کی بے چینیوں کو محسوس تو نہیں کر سکتا ، کہ اس احساس کے واسطے دل سیدہ حاجر سا کرب مانگتا ہے ، لیکن میرا جی چاہتا تھا کہ میں ایک بار ان راستوں پر چلوں تو سہی ، سو صفا پہ کھڑا ہوا اور یہ آیات پڑھیں ۔
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
اس کے بعد قبلہ رو ہو کر کچھ مناجات کیں اور ” تصور ہی میں ” پانی کی تلاش میں مروہ کی جانب چل دیا ۔ میرا جی چاہ رہا تھا بی بی حاجرہ کے نقشِ قدم تلاش کروں ۔ لیکن ہائے وہ تڑپ کہاں سے لاتا ، وہ کرب کیونکر دل میں اُترتا ۔
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں
صفا مروہ کے راستے میں سعودی انتظامیہ نے دو تین مقامات پر آب زمزم کا انتظام کر رکھا ہے ، جو تھک جاتا ہے یا پیاس محسوس کرتا ہے وہ رک کر زم زم پی لیتا ہے ۔ لیکن اماں ہاجرہ تو نکلی ہی زمزم کی تلاش میں تھی ان کی تو بے چینیاں تاریخ کے صفحات میں ثبت ہیں ، اس کیفیت میں اترنا ناممکن تھا لیکن میرے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے نا کہ عاجزی اور لجاجت کے حصول کی خاطر دعا میں اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل ہی بنا لیا کرو ۔۔ میں آلودہ دامن اپنی ماں حاجر کی مشقتوں کو یاد کرتا سعی کر رہا تھا ۔ مناجات کے بیچ میں سعی تمام ہوئی ، سب مشقتوں کا اختتام ہوا ۔ زمزم اترا اور ہم سیراب ہوئے ۔
اب میں کچھ تھک چکا تھا ، بھولی بسری ، بکھری الجھی یادیں جی کو گھیرے ہوئے تھیں ۔ میں آہستہ آہستہ چلتا حرم کے صحن سے باہر آیا اور اپنے ہوٹل کی طرف چل دیا ۔۔۔
ارادہ تھا کہ بال منڈواؤں اور احرام اتر جائے کہ ایک دم اندر سے ” پاکستانی ” بیدار ہوا ۔ پورا پاکستانی ، کوئی جگاڑ لگانے والا ۔
معاملہ یوں ہوا کہ سعودی حکومت نے کچھ عرصے سے بنا احرام پہنے مطاف یعنی صحنِ حرم میں جانے پر پابندی لگا رکھی ہے ۔ اب دل کی طلب اور جگر کی تڑپ تو کہتی ہے کہ اور ، اور ، اور مزید اور۔۔۔۔۔
لیکن ہزار بے تابیاں ہوں سرکار کے ضابطے ان بے تابیوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ ہمارے پاکستانی اور بہت سے دیگر حاجی جب مطاف میں جانا چاہتے ہیں تو احرام زیب تن کر لیتے ہیں ۔ ذاتی طور پر میں اسے ضابطے کی خلاف ورزی سمجھتا ہوں ۔ مختلف علما سے رائے لی ، بیشتر کا تو یہی کہنا تھا کہ یہ درست نہیں ۔ اگر حکومت ہجوم سے بچنے کے لیے کوئی ایسا ضابطہ طے کرتی ہے تو اس کی پابندی کرنا چاہیے ۔ لیکن دو تین علما نے یہ رائے بھی دی کہ یہ کون سا شرعی ضابطے ہے ، یہ انتظامی معاملات ہیں ۔ سو دیکھا کہ جب جب اژدہام کم ہو تب آپ بھی ایسا کر لیا کیجئے ۔ لیکن میرا دل نہیں مانا لیکن ابھی جب سعی مکمل کی اور حجامت بنوانا چاہی تو یک دم وہ شعر والا معاملہ ہوا کہ
وہ انہیں یاد کریں جن کو بھلایا ہو کبھی
ہم نے ان کو بھلایا نہ کبھی یاد
سو اس شعر میں اُتری ” فال” کو ہم نے سعدی کے دیوان سے نکلی فال پر تعبیر کیا اور حجامت بنوانے کا ارادہ موخر کر دیا ۔ اب جب حجامت ہی نہیں بنوائی تو احرام بھی نہیں اتر سکتا ، یوں میں بنا حجامت بنوائے ہوٹل چلا گیا ۔ ہوٹل میں جا کر ناشتہ کیا ، کچھ ارام کیا اور تھکاوٹ کے سبب اس روز ظہر میں نے ہوٹل کی مسجد میں ہی ادا کی ۔ عصر کے وقت حرم آگیا ۔ حرم کے گردا گرد عمارات کی بلندی کے سبب سورج کی دھوپ جلد ہی ڈھل جاتی ہے تو حرم کے ، صحن میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے ۔
بیٹھ کر دیر تک تکتے رہیں ، تکتے رہیں اور جب پیاس بجھے تو اسے بھجنے نہ دیں ۔ وہاں وقت جیسے ٹھہر جاتا ہے ۔ اچھا سا معاملہ یہ ہوا کہ طواف سے پیچھے صحن کے کنارے پر عارضی رکاوٹوں سے بنے ہوئے احاطے میں ، میں بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ ہی دیر میں سپاہی آئے ۔ انہوں نے لمبی رسی تھامی ہوئی تھی ، اس رسی کو لے کے طواف والوں کے بیچ میں گھستے چلے گئے ۔ یوں اس عارضی رکاوٹ کے سبب طواف کرنے والے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہم لوگوں کو اشارہ کیا کہ اس احاطے کے لوگ آگے آ جائیں ۔ یوں ایک رکاوٹ سی بنتی چلی گئی اور طواف والے پیچھے ہٹتے چلے گئے اب وہ رسی سے بنی اس رکاوٹ کے پیچھے سے گزر رہے تھے ۔ انہوں نے حرم بیت اللہ کے بالکل سامنے جا کر صف بندی کروا دی ، اب بمشکل تین صف میرے آگے تھیں اور سامنے بیت اللہ تھا اور ابھی مغرب کے وقت میں قریبا نصف گھنٹا باقی تھا۔۔ ہم پیاسوں کا یہ حاصل تھا کہ یونہی دیر تک اسے بیٹھے تکتے رہیں ، کھوجتے رہیں کہ اقبال نے کہا تھا
کبھی اے حقیقتِ منتظَر! نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
سیاہ ، مکمل سیاہ کپڑے پہنے پرہیبت ، باوقار بیت اللہ کے عین سامنے دیر تک یوں بیٹھنا اچھا لگ رہا تھا ۔یہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہے کہ جو بنایا گیا ہے ، قرآن کریم میں ہے
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّـۃَ:
’’یقیناً پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا (اللہ کی عبادت کے لیے) وہی ہے جو مکہ میں ہے‘‘
’’بَکَّۃ‘‘ اور ’’مَکَّۃ‘‘ در حقیقت ایک ہی لفظ کے لیے دو تلفظ ہیں۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے؟
آپ نے فرمایا :
“مسجد الحرام ”
آپ نے مزید پوچھا :
“پھر کون سی؟ ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مسجد بیت المقدس ”
پھر پوچھا :
” ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے؟ ”
آپ نے فرمایا :
” چالیس سال ”
پھر پوچھا کہ :
” پھر کون سی؟”
آپ نے فرمایا :
” جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے ”
[ مسند احمد وبخاری مسلم ] ۔ [صحیح بخاری:3366]
اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں جو امام ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں بیان کئے ہیں ، مثلاً بیت العتیق، بیت الحرام، بلد الامین، بلد المامون، ام رحم، ام القری، صلاح، عرش، قادس، مقدس، ناسبہ، ناسسہ، حاطمہ، راس، کوثا البلدہ البینۃ و الکعبہ۔
کفارمکہ اس گھر میں داخل ہو کر پناہ طلب کرنے والوں کو لازمی پناہ دیتے اور ان کے محافظ بن جاتے ۔
میں نے وہاں بیٹھے ہوئے اس عظمت والے گھر کی کچھ تصاویر بنائیں ، گو اس کی تصاویر گوگل پر ایک سے بڑھ کر ایک مل جاتی ہیں لیکن اپنے موبائل سے بنانا ایک الگ تسکین کا سامان ہوتا ہے ۔
بیت اللہ کی اس چوکور عمارت کا کچھ بیان تو میں پیچھے کر چکا ہوں ، کچھ مقامات کا ذکر رہ گیا تھا وہ بھی پڑھ لیجیے کہ اس کا تذکرہ تکرار سے بھی اکتاہٹ پیدا نہیں کرتا ۔
ایک تصویر میں نے میزاب کعبہ کی اتاری ، جو آپ دیکھ بھی رہے ہیں ۔
مکہ مکرمہ میں ’میزاب رحمت‘ خانہ کعبہ کی چھت پر شمالی جانب نصب ہے. اس سے بارش کا پانی یا چھت کو دھونے پر جمع ہونے والا پانی حجر اسماعیل کی جانب والے حصے میں گرتا ہے ۔ خانہ کعبہ میں سب سے پہلے میزاب رحمت لگانے والے قریشی تھے. کہتے ہیں کہ یہ اول اول قبیلہ قریش کے ایک سردار قصی بن کلاب نے بنایا تھا ۔ اور جہاں یہ پہلے روز لگایا گیا تھا اسی جگہ ہی آج بھی موجود ہے ۔
قریش نے خانہ کعبہ تعمیر کرتے وقت اس کی چھت ڈالی تھی اور 258 سینٹی میٹر کا پرنالہ (میزاب رحمت) لگایا تھا. یہ خانہ کعبہ کی دیوار میں لگایا گیا تھا۔
عصر اسلامی میں کعبہ کا پرنالا متعدد مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ پہلی بار ابو القاسم رامشت الفاسی نے میزاب کعبہ تبدیل کیا۔ 542ھ میں عباسی خلیفہ المقتفی نے میزاب کعبہ کو تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ عباسی خلیفہ ناصر نے 609ھ میں لکڑی کا میزاب تیار کرایا جس پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا۔ ناصر نے اس میزاب پراپنا نام بھی لکھوایا تھا۔ یہ میزاب عثمانی خلیفہ سلطان سلیمان القانونی کے دور تک رہا۔ 959ھ میں ابراہیم رفعت پاشا نے نیا سنہری میزاب تیار کریا۔ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید نے سنہ 1040ھ میں قسطنطنیہ سے ایک میزاب تیار کرانے کے بعد خانہ کعبہ پر نصب کرایا۔ لکڑی سے تیار کیے گئے اس میزاب پربھی سونے اور چانی کا پانی چڑھایا گیا اور کے اوپر والے حصّے پر’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘ اور نیچے والے حصّے پر’’یا اللہ‘‘ دائیں جانب میزاب لوجہ اللہ الکریم الخبیر، سلطان البرین والبحرین لکھوایا اور اس کی شمالی سمت میں سلطان عبدالحمید خان بن سلطان العازی لکھوایا۔1377ھ میں میزاب کی لکڑی تبدیل کی گئی اور آخری بار 1403ھ میں میزاب کعبہ کی لکڑی تبدیل کی گئی۔
سلطان احمد خان کے دور میں بنائے گئے میزاب کی لمبائی 168 سینٹی میٹر اور چوڑائی 15 سینٹی میٹر رکھی گئی۔ سنہ 1407ء میں نصب کیے گئے میزاب کی لمبائی 258 سینٹی میٹر اور چوڑائی 58 سینٹی میٹر دیوار کعبہ کے اندر ہے۔اندر سے اس کی چوڑائی 26 سینٹر میٹر اور اونچائی 23سینٹی میٹر ہے (العربیہ ڈاٹ نیٹ)
نیا میزاب رحمت خالص سونے کا ہے یہ شاہ فہد کے زمانے میں بنایا گیا تھا ۔ اس کا عرض 26 سینٹی میٹر تھا- یہ دونوں جانب سے 23، 23 سینٹی میٹر اونچا تھا، اس کا 58 سینٹی میٹر حصہ دیوار میں شامل تھا۔ مختلف ادوار میں میزاب رحمت کی تجدید اور تزئین ہوتی رہی، خانہ کعبہ کے دیگر حصوں کی طرح میزاب رحمت پر سونے کی پرت چڑھائی گئی. موجودہ میزاب رحمت خالص سونے کا ہے۔ اس کا اندرونی حصہ ٹھوس چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر سونے کی چادر چڑھائی گئی ہے۔
مستطیل شکل کے اس میزاب رحمت کا بالائی حصہ کھلا ہوا ہے. چاندی اور سونے کے پتروں کے درمیان موٹی لکڑی لگی ہوئی ہے ، جس میں چاندی کی کیلیں لگی ہوئی ہیں۔
میزاب رحمت پر خط ثلث میں اس کے بننے اور تجدید کی تاریخ درج ہے ۔ نیا میزاب رحمت شاہ فہد کے زمانے میں بنایا اور نصب کیا گیا تھا.
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں