کہاجاتاہے کہ لحن کی مٹھاس کا ایک راز دریائے نیل کے پانی میں پنہاں ہے۔ مصر چونکہ دریائے نیل کا مصب ہے۔ جس کے باعث نیل جہاں زرعی اراضی کو سیراب کرتاہے وہیں انسانوں کے دل ودماغ اور لب ولہجوں کو بھی تازگی، خوشگواریت اور شیرینی ولطافت ودیعت کرتا ہے۔
مصر نے عالم اسلام کی سطح پر دنیائے تلاوت میں لوہا منوانے والے جن نامور قرآء کرام کو جنم دیا ہے ان میں قاری محمد صدیق المنشاوی کا نام بھی سرفہرست ہے۔ المنشاوی کا نام عبد الباسط عبد الصمد کے ساتھ لیا جاتاہے۔
صدیق المنشاوی مجود ومرتل تلاوت دونوں کے ماہر تھے مگر ان کی ترتیل اور حدر کو بہت سراہا گیا۔ انہوں نے روایت حفص عمر عاصم میں قرآن کریم کی ترتیل ریکارڈ کروائی جو بہت پسند کی گئی۔المنشاوی کی آواز پر خشوع کا غلبہ تھا۔ جس کے باعث انہیں “الصوت الباکی” روتی آواز اور هرم الخشوع ( خشوع کا اہرام)اور “آسمانی گٹار” جیسے القابات ملے تھے۔
ان کا پورا نام محمد صدیق بن السید تائب المنشاوی تھا۔ ان کی ولادت 20 جنوری کو مصری صوبہ سوہاج کے المنشا نامی علاقے میں ایک ایسے خاندان میں ہوئی تھی جن میں نسل درنسل قرآن کریم کے قرآء موجود تھے۔ ان کے والدصدیق المنشاوی اور دادا تائب المنشاوی بھی اچھے اور ماہر قرآء کرام تھے۔ صاحب نسبت تھے۔ ان کے خاندان کو منشاوی درسگاہ کہاجاتا تھا۔
اسی خاندانی اثر کے باعث محمد المنشاوی نے بھی 8 برس کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا۔ وہ اپنے والد اور چچا کے ساتھ محفلوں میں جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی شخصیت زیادہ ابھرنہیں سکی۔ تاہم 1952ء میں سوہاج کی ایک محفل میں انہیں اکیلے تلاوت کرنے کی فرصت ملی۔ شاید فکری آزادی اور ادب کا دباؤ نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے کھل کر تلاوت کے اسرار و رموز کا مظاہرہ کیا۔ المنشاوی نے نا صرف محفل لوٹ لی بلکہ اسی محفل سے ان کا ستارہ چمک کر آسمانِ شہرت پر پہنچ گیا۔
انہیں مصر کے سات نامور قرآء کرام کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔ جنہیں دنیائے تلاوت کے سات لیجنڈز کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
المنشاوی مصری ریڈیو کے مستقل قاری تھے۔ ریڈیو کے لئے انہوں نے پورا قرآن بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ انہیں دنیابھر کی بڑی مساجد میں تلاوت کی سعادت نصیب ہوئی ۔ جن میں مسجد الحرام ،مسجد نبوی اور مسجد اقصی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بیشتر اسلامی وغیراسلامی ممالک میں جاتے رہے۔ جہاں لاکھوں دِلوں کو اپنی پُرسوز آواز سے مسحور کرتے رہے۔ پچاس کی دہائی میں المنشاوی مصر کے نامور قرآء میں سے تھے۔
1963ء میں جب وہ ایک محفل قرآءت میں گئے تھے ۔ وہاں انہیں کھانے میں زہر دیکر قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر میزبان کے باورچی نے خفیہ طور پر المنشاوی کو بروقت رپورٹ دیکر خبردار کیا جس پر وہ بچ گئے۔
المنشاوی کا تذکرہ کئی کتابوں میں سنہرے لفظوں کے ساتھ کیا گیاہے۔ ان کا ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ ایک بار صدر جمال عبد الناصر کے ایک وزیر نے انہیں ایک ایسی سرکاری تقریب میں تلاوت کے لئے مدعو کیا جس میں صدر جمال ناصر بھی شریک ہورہے تھے۔ وزیر نے المنشاوی کو بتایا کہ آپ محفل میں آئیں ۔ یہ آپ کے لئے بڑے شرف کی بات ہوگی کہ آپ کی تلاوت جمال ناصر سنیں گے۔ جس پر المنشاوی نے محفل میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ شرف میرے لئے نہیں ہے۔ بلکہ جمال ناصر کے لئےاعزاز ہے کہ وہ المنشاوی کو سنیں گے۔
پھر وزیرکو ڈانتے ہوئے کہا کہ جمال ناصر نے بڑا بُرا ایلچی بناکر بھیجا ہے۔ میں اس تقریب میں شرکت نہیں کرسکوں گا۔
صدیق المنشاوی کی عوامی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا استغناء تھا۔ وہ دیگر قرآء کی طرح محفلوں میں جانے کے لئے کوئی مالی بھاؤ تاؤ نہیں کرتے تھے۔
صدیق المنشاوی ایک خوبرو اور وجیہ مرد تھے۔ ان کے چہرے پر معصومیت اور رعنائی چھائی رہتی تھی۔تمکنت اور متانت کے آثار تھے۔ تلاوت کرتے وقت آنکھیں یوں بند کرتے تھے جن پر نابینا ہونے کا گمان ہوتا۔
لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی آواز پانے والے خوش الحان اور یادگار قاری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مصرکے سب سے بڑے جریدے الاہرام نے لکھاہے کہ قاری صدیق المنشاوی نے کم عمر میں دنیائے تلاوت میں بڑا نام بنایا۔
الاہرام کے مطابق المنشاوی کے حاسدین بہت تھے۔ انہیں زہر دینے کی کوشش کی ناکامی کے بعد ایک شخص نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا کہ ان کے تو گلے میں پانی تک اترتا نظر آتا ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے ہواؤں میں پھونک دیا۔ دیکھتے ہی المنشاوی کے منہ سے خون کا فوارہ اُبل پڑا۔ انہیں ہسپتال پہنچا یاگیا، علاج کئی روز جاری رہا۔ ڈاکٹروں نے محبوب قاری کو بچانے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھی۔ مگر قرآنی الحان کے سُر بکھیرنے والا المنشاوی جانبر نہ ہوسکے اور 20جون 1969ء کو داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے لاکھوں دلوں کو مغموم کرگئے ۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں