رولاک، دس باتیں اور اقتباسات/تبصرہ : مسلم انصاری

پہلی بات :
رولاک ناول پر ان دنوں قارئین کے دو دھڑ بن چکے ہیں، ہر دو جانب ایسے معروف اور سنجیدہ افراد ہیں جن کی بات یکسر بے جا نہیں کہی جا سکتی، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں فلاں فرد کی جانب سے تبصرہ محض تعلق کی بنا پر لکھا گیا ہے اور نا ہی اتم طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دوسری سمت کے لوگوں کی تحاریر میں حسد کی بُو ہے! بلکہ ان دونوں باتوں کے بیچ، مثبت پہلو یہ ہے کہ :
“رولاک پر خاصے کی بات اور بحث ہورہی ہے جو کسی بھی کتاب کے لئے بہت ضروری ہے!”

دوسری بات :
رفاقت حیات صاحب سے میرے لئے ملاقات ہمیشہ سے آسان رہی ہے، وہ اچھے کتاب دوست اور ہمسائے ہیں، رولاک کے 350 صفحات پڑھنے کے بعد میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے ان گنت سوالات کئے جو امید ہے کسی انٹرویو کی شکل میں کراچی سے شائع ہونے والے تظہیر “کتابی سلسلہ” کے شمارے میں شامل ہونگے، اِسی بیٹھک میں میں نے ان سے سوال کیا کہ :
“کیا آپ کا یہ ناول اپنے پلاٹ، کردار، بیانئے اور زبان کے اعتبار سے متبدی قاری کے لئے محض عریانی، جنسی تسکین پانے اور بے جا مشاغل کی نئی راہوں کا سامان تو نہیں بن سکتا؟”
جواب میں رفاقت حیات صاحب نے کہا : “میرا نہیں ماننا کہ اس دور میں جب سب کے پاس موبائل ہے تب یہ ناول اس شغل میں ان کو کوئی نئی راہ دینے والا ہوگا!”

تیسری بات :
مجموعی طور پر 669 صفحات پر مشتمل ناول “رولاک” میں کوئی بھی واقعہ ایسا نہیں ہے جو ہمارے اس معاشرے میں پیش نہ آیا ہو/ نہ آتا ہو، ایسے مرد بھی بہرصورت موجود ہیں جن کا کام ہر طرح کی عورتیں “استعمال” کرنا ہے، چاہے وہ عورتیں اور لڑکیاں خاندان کی ہوں یا باہر کی، چوڑیاں بیچنے والیاں ہوں یا بھینک مانگنے والیں، پسے ہوئے معاشرے کی نوکرانیاں ہوں یا صاف ستھری محبت کے نام پر داؤ چڑھنے والیں یا پھر وہ عورتیں جن کے ساتھ زور زبردستی کرکے اس قسم کے مرد اس جہت میں خاص طرہ امتیاز پانا چاہتے ہیں جیسا کہ قادر کا باپ ہے، خود کردار قادر کے الفاظ :
“وہ نہیں چاہتے کہ میں ان کی طرح چوٹی کا رنڈی باز بنوں، وہ مجھے کچھ اور بنانا چاہتے تھے مگر کیا؟ یہ نہ تو انہیں معلوم تھا اور نہ ہی مجھے!”
عین اسی طرح یہاں وہ عورتیں بھی دستیاب ہیں جن کا کام فقط یہی کچھ ہے، چند روپے پیسوں کے عوض “مخصوص عورتوں” کا ہر طرح کی اجازت دیتے ہوئے جسم ہارنا، اسی معاشرے کا سیاہ چہرہ ہے!
پھر ہمارے معاشرے میں ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو اپنے شوہر کی ہر خامی پر دو چار روز میں کنارہ کرتے ہوئے اپنے بیوی ہونے کے فرائض میں جت جاتی ہیں جیسا کہ قادر کی ماں ہے!

چوتھی بات :
ناول آنے سے قبل بھی اور بعد میں بھی ان گنت جگہوں اور ناول کے تعارف میں یہ بات کہی اور سنی گئی کہ اس ناول کا پلاٹ اور مرکز سندھ کا ایک مخصوص علاقہ اور وہاں کی منظر کشی ہے، یہ بالکل درست ہے
اسی طرح یہ بھی جانا اور بتلایا گیا کہ یہ ایک باپ بیٹے کی کہانی ہے جس میں وہ بیٹا باپ سے ملنے والی عدم محبت کے ساتھ ساتھ احساسِ کمتری کا شکار ہے!
یہ بیانیہ بھی مکمل درست ہے، یہاں تک کہ بیٹا قادر جس لڑکی کو بھی پسند کرنے لگتا ہے اس کا باپ زور زبردستی یا چال بازی سے اس لڑکی کا جسم پا لیتا ہے، ایک طرح سے یہ باپ کی بیٹے کے وجود میں عدم دلچسپی اور احساس کمتری میں بیٹے کے لئے اتم حجت دھتکار ہے!
مگر سندھ کی ثقافت اس سے کہیں زیادہ ہے جو نوجوان قادر کی آوارہ گردی میں کہیں دب سی گئی ہے!

پانچویں بات :
عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آوارہ گردی اور رولاکی فقط جوان قادر کی کتھا ہے مگر اس ناول کے اختتام تک جاتے جاتے تسلیم کرلینا ہوگا کہ یہ فقط اس جوان کی ہی نہیں اس کے باپ کی بھی آوارہ گردی ہے جس نے اپنے بیٹے کے لئے کوئی راہ باقی نہیں چھوڑی، صفحہ نمبر 423 پر قادر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ “ان تیز و تند لمحات میں میرے دل میں بابا کا قتل کرنے کی آرزو پیدا ہوئی، جب تک وہ زندہ رہیں گے میری محرومیوں میں اضافہ ہوگا”
ظاہر ہے اگر ایک جوان آوارہ ہوسکتا ہے تو بوڑھا آوارہ گرد یا آوارہ گرد آدمی کیوں نہیں؟

چھٹی بات :
ناول اپنی بنت کے اعتبار سے منفرد ہے، اگر کسی نے پہلے رفاقت حیات صاحب کو نہیں پڑھا ہے تو وہ کہ سکتا ہے کہ : “اس جیسے ناول کی توقع نہیں تھی” اور جس نے رفاقت حیات صاحب کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ میں کیا کہ رہا ہوں!

ساتویں بات :
پہلے یہ ناول تجسس بھرا لگے گا، پھر تسکین کا سامان معلوم ہوگا مگر جیسے جیسے کہانی بیان کرتا کردار زندگی کی سنجیدگی کی طرف لے جائے گا تب ہنسی اور تسکین معلوم نہ ہوگی کہ پیچھے کہاں چھوٹ گئی ہے!

آٹھویں بات :
قریب قریب پیدائش سے لیکر 22 سال کی زندگی کا ہر ایک دن اور ہر دن کی زندگی کے روز مرہ عوامل اور ان کی تسلسل سے وضاحت ناول میں تکرار پیدا کرتی ہے، اسی طرح ناول میں ارتقاء کا اچانک سے آکر اچانک گم ہوجانا ہے، ایک خاص لَے میں چلتی یہ کہانی صاف بتاتی ہے کہ رفاقت حیات صاحب نے اپنا کردار مکمل آزاد چھوڑ دیا ہے اس میں مصنف کا عمل دخل نہیں ہے، یہ اچھا طرز بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی، اس کے لئے کسی ناقد یا واقعتاً قاری کی رائے اہم ہے، میں مبتدی طالب علم ہوں اور اس پر اپنی کوئی رائے نہیں رکھتا!

نویں بات :
اب جب اس ناول کو لیکر دو دھڑ بن چکے ہیں ایسے میں دونوں سمت کے افراد سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ :
“ہر ناول ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا!” پھر یہ سوال ہوگا کہ یہ ناول ہمارے لئے ہے یا نہیں اور اس پر ہونے والی آراء میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ؟ تو جواب خود پڑھ کر تلاشا جا سکتا ہے، بہتر ہے کہ ہر قاری ہر کتاب پر اپنی الگ الگ رائے رکھے اور رائے بھی بنا پڑھے اخذ نہ کرے کیونکہ ہر کتاب ہر قاری کو الگ الگ سامان فراہم کرتی ہے

دسویں بات :
تشبیہات اور استعاروں میں بہت خوبصورتی اور جملوں، سطروں محاسن ہیں، اس سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہاں کچھ اقتباسات پیش کرنا ضروری ہیں ملاحظہ کیجئے :

کاش انسانوں نے باہم مل کر اپنے بچوں کی پرورش کے لئے گھر کے سوا کوئی اور ادارہ بھی بنایا ہوتا
ص : 16

بدنامی کا ڈر وہ شخص محسوس کرتا ہے جو گناہ اور جرم کی دنیا میں نووارد ہو، گھاگ آدمی کبھی کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا
ص : 141

دن ایک بوجھل خالی پن سے بھرے ہوئے تھے، شام ہوتے ہی یادوں کے چمگادڑ مجھ سے چمٹ جاتے!
گھر کے کونوں کھدروں میں چھپی اداسی رینگتی ہوئی سارے گھر میں پھیلنے لگی تو مجھے محسوس ہونے لگا کہ دکھائی نہ دینے والے انواع و اقسام کے بے شمار کیڑے مکوڑے میرا خون چوس رہے ہیں!
رات ٹھیک طرح سے نہ سونے کی وجہ سے پورا بدن ان دو پٹڑیوں کی طرح سنسنا رہا تھا جن پر سے کوئی ریل گزر گئی ہو!
ص : 183-159-161

مشتبہ نظریں جیسی بھی ہوں، ہمیشہ چبھتی ہیں اور ہمیں شکوک میں مبتلا کرتی ہیں
ص : 200

زندگی اور آزادی مکمل طور پر ایک دوسرے سے متضاد چیزیں ہیں، جینے والے آدمی کو تنہائی کبھی میسر نہیں آ سکتی اور مرضی نام کی شے تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی!
ص : 389

Advertisements
julia rana solicitors london

کتب بین، کتب شناس لکھاریوں اور قاریوں کے نام
دلی محبت اور بہت بہت احترام
تصاویر : مسلم انصاری
مقام : سی ویو کراچی

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply