شام ڈھلے ابوالحسن علی ہمارے ہوٹل پہنچ گئے ، ہمیں ان کے ساتھ جدے جانا تھا اور اگلی رات کو ہی پاکستان کے لیے جہاز پکڑنا تھا سو میرے پاس جدے میں گزارنے کے لیے صرف چوبیس گھنٹے تھے یعنی وقت کم تھا اور محبتیں بہت زیادہ ۔ پھر سے زندہ کر دینے والی محبتیں ۔۔۔
مَحبّت در دلِ غم دیدہ الفت بیشتر گیرَد
چراغے را کہ دودے ہست در سر زود در گیرَد
ابو الحسن علی قدوسی میرے چھوٹے بھائی ہیں ، جدے میں رہتے ہیں یہاں پر وہ جدہ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ، آپ نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور ( یو ای ٹی ، لاہور ) سے کیمیکل انجینئرنگ میں پہلے بیچلر اور بعد میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد ملائشیا چلے گئے اور ملائشیا سے اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی حاصل کی اور یوں وہ ڈاکٹر ابو الحسن علی قدوسی بن گئے۔
ہم چار بھائی ہیں ، میں ابوبکر صدیق ، جس کو آپ ابوبکر قدوسی کے نام سے جانتے ہیں ، مجھ سے چھوٹے عمر فاروق قدوسی شاید آٹھ دس کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی سیرت النبی پر ایک کتاب “نبی رحمت کی راتیں” کو سیرت ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور مکتبہ قدوسیہ پر جب آپ تشریف لاتے ہیں تو وہی آپ سب احباب کو ملتے ہیں ۔ تیسرے عثمان غنی قدوسی ہیں ، جو گرافک ڈیزائنر ہیں اور کبھی کبھی لکھتے بھی ہیں اور کمال لکھتے ہیں ۔ اور چوتھے یہ ابو الحسن علی قدوسی ہیں جو جدہ میں قیام پذیر ہیں ۔ اور ان سطور کے آپ تک پہنچنے میں وہ جدہ سے برطانیہ جا چکے ہیں ۔ اور وہاں کی ایک صف اوّل کی یونیورسٹی میں فیکلٹی ممبر منتخب ہوئے ہیں ۔
ہمارے کاغذوں میں لکھے نام ، ابوبکر صدیق ، عمر فاروق , عثمان غنی اور ابو الحسن علی ہیں۔ ہمارے والد محترم نے ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبتوں میں ہم چاروں کے نام رکھے اور اللہ رب العزت کا بے حد و حساب شکر ہے کہ جس طرح حضرات خلفائے اربعہ میں آپس میں محبتیں تھیں اللہ نے ہمیں بھی آپس میں اسی محبت سے نوازا ۔
ابوالحسن علی میرا ایسے ہی احترام کرتے ہیں جس طرح کوئی بیٹا اپنے باپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہو۔
سورج غروب ہونے کو تھا کہ جب ہم مکہ سے جدہ کے لیے نکلے ۔ مکے کے نکلتے ہوئے اور گلیاں بازار دیکھتے سفر شروع ہوا اور میں پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ۔ یہ سب مجھے اس سفر ہجرت کی یاد دلا رہا تھا کہ جب دو دوست مکہ سے نکلے تھے مدینے کی راہ چلنے کی بجائے اسی جدہ کی طرف نکلے اور پھر وہاں سے راستہ بدلتے ہوئے مدینے کو چلے گئے ۔
ایک روز سرور کون و مکاں کو ورقہ بن نوفل نے کہا تھا :
” کاش میں اس روز زندہ ہوتا اور آپ کی نصرت کرتا کہ جس روز آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی”
تو سرور رسولاں نے تڑپ کے پوچھا تھا :
” کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟”
پھر ایسا ہی ہوا کہ آپ مکہ چھوڑ چلے ، میں تصور ہی تصور میں اس دن کو یاد کر رہا تھا کہ جب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے نکلے ہوں گے تو کیسے پلٹ پلٹ کر دیکھا ہوگا کہ انہی گلیوں میں وہ پلے بڑھے ، دوستوں کے ساتھ کھیلے ، اپنے بزرگوں اور اعزہ و اقارب کی محبتوں کو سمیٹا پھر انہی کی دشمنیوں کو دیکھا ۔ اس مکے کی گلیوں سے ان کو پیار تھا اس مکے کی گلیوں میں ان کو محبت ملی تھی یہاں پر ہی زخم آئے تھے ۔
میں بھی مکے کو پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، کہتے ہیں کہ کعبے کو پہلی نظر دیکھو اور جو دعا کرو وہ قبول ہوتی ہے ، اس بار میں نے دوبارہ حاضری کی دعا کی تھی ۔
میں ابو الحسن کی گاڑی میں بیٹھا پلٹ پلٹ کے دیکھ رہا تھا ، سڑکوں پر مکہ شہر کی روشنیاں بڑی تیزی سے میرے دائیں بائیں گزر رہی تھیں ۔ وہ مکہ کہ جہاں اسماعیل پیاسے تھے اور جبرئیل نے اپنے پاؤں کی ایڑی ماری تو زمزم نکل آیا ۔ وہ مکہ بہت پھیل گیا تھا ۔ مجھے سیدہ ہاجر یاد آ گئیں کہ کس بیابان میں آ کر بیٹھی تھیں اور آج یہ پہاڑوں وادیوں اور فلک بوس عمارتوں پر میلوں میں پھیلا عظیم الشان شہر بن چکا ہے ۔ گاڑی جدے کو رواں دواں تھی جہاں دوست اپنی محبتوں سے میرا انتظار کر رہے تھے۔۔
جدہ میں داخل ہوئے تو ایک انتہائی جدید طرز تعمیر کا حامل شہر میرے سامنے تھا ۔ رات کا دوسرا پہر شروع ہونے کو تھا اور گیارہ بج چکے تھے اور گھڑی کی سوئی بڑی تیزی سے نصف رات کے نشان کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن سڑکیں زندگی سے بھرپور تھی ۔ قیمتی اور جدید بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر رواں تھی جب اترائی آتی تو گاڑیوں کی پچھلی سرخ لائٹیں عجیب منظر پیش کرتی کہ جیسے سڑک پر متحرک چناروں کا کوئی کارواں حرکت میں ہے کہ جو جذبات میں آگ لگانے کو بے تاب ہو ۔ اور سامنے سے آنے والی تیز زرد روشنیاں جیسے روشنیوں کا سیلاب بہتا ہوا آ رہا ہے۔ اسی اثناء میں جدید ترین ٹرین جاتی دکھائی دی جو ابو الحسن کے گھر کے پاس سے گزرتی ہے میں نے پوچھا کہ کیا رات اس سمے تک یہ چلتی ہے تو معلوم ہوا کہ حجاج کی خدمت کے لیے کافی وقت تک اس کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
میری خاتون خانہ کہ کافی کی رسیا ہیں اور کافی کا صرف ایک برانڈ ہی پسند کرتی ہیں ۔ پاکستان میں یہ برانڈ سردیوں میں تو بڑے سٹورز پر آسانی سے مل جاتا ہے لیکن گرمیوں میں جب بازاروں میں کھپت اور طلب کم ہو جاتی ہے تو اس کی دستیابی بھی مشکل ہوئے جاتی ہے ۔ کبھی کبھار تو مجھے اس کی تلاش میں خاصی دقت ہوتی ہے۔ ۔ ۔۔ اتنی کہ میں نے ایک بار بہت ” خلوص ” سے مشورہ دیا کہ اس کی بجائے دیگر ” منشیات ” کے استعمال پر غور کیجیے کہ آسانی سے مل تو جاتی ہیں ۔
ابوالحسن کو ان کے کافی کے اس ذوق کا معلوم تھا تو چلتے چلتے انہوں نے گاڑی بڑی سڑک سے اتار کر ذیلی سڑک پر موڑ دی ۔ وہاں کتنی ہی ” کافی شاپس ” قطار اندر قطار کچھ کچھ فاصلے پر موجود تھیں ۔۔۔ کسی کافی کے شوقین کے لیے یہ ایک دل خوش کن نظارہ تھا کہ ایک ہی جگہ لمبی لائن میں صرف کافی کی دکانیں تھیں ۔ کافی لے کر ہم آگے کو چل دئیے ۔
فلس ۔۔طین کے تناظر میں “مغربی برینڈز” کا بائیکاٹ سعودی عرب میں بھی خوب نظر آ رہا تھا بلکہ ہمارے ہاں سے کچھ بڑھا ہوا تھا ۔ ایک شاہراہ پر مشہور امریکی کافی کا برانڈ ” سٹار بکس ” کسی مایوس اور اذکار رفتہ طوائف کی طرح لاچار اور اداس بیٹھا تھا کہ جس کی جوانی رخصت ہوئی اور تماشمین بھی اس کے ساتھ ہی رخصت ہوئے ۔ اس کے بالکل پہلو میں مقامی سعودی برانڈ ” ہاف ملین” کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ مجھے ابو الحسن نے بتایا کہ چند ماہ پہلے یہاں پر اس امریکی ریسٹورنٹ کے باہر اس سے لمبی لائنیں ہوتی تھیں اور ٹریفک کا اژدہام ہو جاتا تھا ۔ میں بہت حیران تھا کہ ایک اکیلی گاڑی بھی مجھے اس امریکی ریستوران کے باہر نظر نہ آئی ۔ پاکستان میں بھی میکڈولنڈ اور بعض دوسرے برانڈز کا بائیکاٹ ہوا ہے لیکن کچھ نہ کچھ لوگ آپ کو خریداری کرتے دکھائی دے جاتے ہیں لیکن یہاں تو عجیب اداسی اس کی دیواروں پر بال کھولے ماتم کناں تھی ۔ یہ سب دیکھتے ہوئے گاڑی ابو الحسن کے محلے میں داخل ہوئی ، جس روز میں سعودی عرب اترا تھا تب بھی یہ علاقہ دل کو بھایا تھا آج رات کے اس سمے بھی یہ صاف ستھرا علاقہ مجھے اچھا لگ رہا تھا ۔ ابو الحسن کے بچے ہمیں پورے جوش سے خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ پردیسیوں کے بچوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار کوئی مہمان آتے ہیں سو بچوں کے لیے تو عید کا سامان ہی ہوتا ہے ۔ کچھ دیر میں کھانا لگ گیا ، ہم نے کھانا کھایا اور کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے اور پھر آرام کے ارادے سے اٹھ گئے ۔
اس بیچ برادر مکرم فیصل علوی کا فون آ گیا ۔ جب میں پاکستان سے نکلا تھا تو میرا ارادہ تھا کہ میں نے بالکل خاموشی سے جانا ہے اور اس آنے جانے کی کوئی اطلاع نہیں دینی لیکن ابو الحسن کے مشورے کے تحت ہی میں نے احباب کو بتا دیا ۔ ابو الحسن کا کہنا تھا کہ آپ سے کچھ محبت کرنے والے احباب کو بعد میں اس سفر کی خبر ملے گی تو نہ ملنے پر مایوسی ہو گی ۔سو اس سبب چند روز بعد ذکر کر دیا تھا کہ میں ادھر ہوں ۔۔۔
لیکن فیصل علوی سے میرا پاکستان سے نکلتے وقت ہی ملاقات کا ارادہ تھا اور جب میں مکہ میں داخل ہوا تھا تب ہی اول روز ہی ان کا فون آ گیا تھا کہ
” بڑے خفیہ دور پہ آ رہے ہیں لیکن ہمیں آپ کا معلوم ہوا پڑا ہے”
ان کو میں نے بتایا تھا کہ میں تو پہلے ہی آپ سے ملاقات کی نیت رکھ کے لاہور سے نکلا تھا ۔ اب جب رات گئے میں جدہ پہنچا تو ان کو میرے آنے کا معلوم تھا ۔ان کے ساتھ اگلے روز کا پروگرام طے ہوا ، ان کا کہنا تھا کہ جدہ ریڈیو کی اُردو سروس والے احباب میرا انٹرویو چاہ رہے ہیں ۔اس کے لیے صبح دس بجے کا وقت طے ہوا اور دیگر ملاقاتوں کا نظام الاوقات بھی طے کر کے ہم آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے ۔
صبحِ دم فجر کے لئے اٹھے اور قریبی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گئے ۔ وہی صاف ستھرا ماحول جس نے مجھے آمد کے وقت متاثر کیا تھا اب بھی میرا منتظر تھا ۔ ابوالحسن نے کچھ افراد سے میری ملاقات کروائی جو پاکستانی تھے اور وہاں کے نمازی تھے ۔
گھر آئے اور بیٹھے باتیں کرتے رہے کہ جدہ ریڈیو سے فون آ گیا ۔۔۔ پروگرام کے میزبان مکرم ڈاکٹر لئیق اللہ خان تھے جنہوں نے نصف گھنٹے پر محیط اس انٹرویو میں کتاب اور علم کی ترویج واشاعت کے حوالے سے مجھ سے خاصے اہم پہلوؤں پر سوال کئے ، جن کے میں نے اپنے کمزور علم کے مطابق جواب دیے ۔ یہ رب العالمین کا کرم تھا کہ اُنہوں نے ان جوابات کو پسند کیا اور سراہا ۔ اگلے روز یہ انٹرویو جدہ ریڈیو کی اردو سروس سے نشر ہوا ۔
دوپہر کے وقت ہمارا جدہ ساحل اور شہر کو دیکھنے کا ارادہ تھا ۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں