آج کل پاکستان میں 6 ججز کے خط نے سنسنی پھیلا رکھی ہے جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ کیسے من پسند فیصلے کرانے کے لئے ایجنسیاں ان پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ اور تو اور ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگائے جانے کا بھی انکشاف ہوا۔ اس خط کو پڑھنے کے بعد مجھے خواتین کو ہراساں کئے جانے کے خلاف چلائے جانے والی مہم Me Too یاد آگئی۔اس مہم پر بھی یہی تنقید کی گئی تھی کہ پہلے کیوں نہیں بتایا ، اتنے سال کے بعد کیوں بتایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ اور ہم خواتین ایکٹیوسٹس یہی سمجھانے کی کوشش کرتی تھیں کہ اس موضوع پر اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے بات کرنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لئے بہت ہمت اور جرات درکار ہوتی ہے۔ تو جو عورتوں کا معاملہ ہے، یہی کچھ ججز کا بھی معاملہ ہے ظاہر ہے فوج یا ایجنسیوں کے خلاف بات کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
ان چھ ججز سے پہلے شوکت عزیز کا کیس سامنے آیا تھا۔انہوں نے 2018 میں آئی ایس آئی پر الزام لگایا تھا کہ وہ نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔اسی سال سپریم کورٹ نے انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا۔لیکن 22 مارچ 2024 کو سپریم کورٹ نے ان کی بر طرفی کو غیر قانونی قرار دیا ۔یہ فیصلہ پانچ رکنی بنچ نے قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں کیا۔ جس طرح # Me Tooتحریک کی کامیابی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن اس تحریک نے مردانہ حکمرانی والےبڑے اداروں کی سطح پر جنسی ہراسانی کے احتساب کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور کی ہے ۔اسی طرح ججز کو ہراساں کرنے والے اداروں کے احتساب کے حوالے سے بھی پیش رفت ضروری ہے۔ 2019 میں حنا الطاف نے ایک امریکی یونیورسٹی میں پاکستان کے سیاسی امور میں فوجی مداخلت کے بارے میں ریسرچ کی تھی۔ آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ” فوج کی سیاست میں براہ راست مداخلت جتنی خطرناک ہے ، بالواسطہ مداخلت بھی اتنی ہی خطرناک ہے کیونکہ یہ سیاستدانوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے روکتی ہے۔ یوں سیاسی اور اقتصادی ترقی کا راستہ مسدود ہوتا ہے۔ جمہوریت کی طرف پیش رفت کے باوجود فوج کی بالواسطہ مداخلت کی وجہ سے جمہوری اقدار اور طریقوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔
پاکستان کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لئے سویلین حکومت اور فوج کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے یا تو دونوں فریقین مل کر قومی سالمیت اور سیاسی مسائل پر کام کریں یا ایک دوسرے کے دائرہ کار میں دخل دینے کی بجائے خود مختارانہ طور پر الگ الگ کام کریں” لیکن ظاہر ہے کہ عملی طور پر یہ ممکن نہیں۔ پاکستان کی ریاست اور نوکر شاہی اور فوج کے کردار کے بارے میں سب سے پہلی اور سب سے اہم تحقیق حمزہ علوی کی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ” پاکستان میں فوج اور افسر شاہی شروع سے مضبوط جب کہ سیاست دان انتشار کا شکار رہے ہیں۔ ” اسی انتشار کا نتیجہ ایوب خان کے مارشل لا کی شکل میں سامنے آیا۔ نیاز مرتضٰی کے مطابق 6 ججز کے خط نے پاکستانی سیاست میں طوفان اٹھا دیا ہے۔
اس حوالے سے 2018 کے انتخابات کی بات کی جا سکتی ہے جب فوج نے نواز شریف کو ہرانے کے لئے مشکوک عدالتی فیصلوں سمیت مختلف حربے استعمال کئے۔اور عمران خان کو جیتنے میں مدد دی گئی لیکن جب عمران خان نظروں سے گر گئے تو نواز شریف مقدمات سے بری ہو گئے۔2024 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ہی اسی طرح کے مشکوک فیصلوں کے نتیجے میں عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا گیا اور اب چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے اور اس سے رہنمائی طلب کی ہے کہ مئی 2023 سے پی ٹی آئی کے خلاف مقدموں کے حوالے سے ان پر ایجنسیوں کی جانب سے جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اس سے کیسے نمٹا جائے۔اس سے ایک سال پہلے بھی ججز نے اپنے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ کیسے ان پر عمران خان کے ایک مقدمے کے حوالے سے دباؤڈالا جا رہا تھا۔
یہ چھ ججز اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو فوج کے اشاروں پر چلنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح می ٹو مہم کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، کچھ لوگوں کا احتساب ہوا ہے اور آجروں اور ان کے اداروں میں کام کرنے والوں کے لئے نئی حدود مقرر کی گئی ہیں اسی طرح ان چھ ججز کے خط کے بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور ہر ادارہ اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا سیکھ لے گا ۔

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار نہیں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں