تعارف :
1) “خود آگہی” اندر کی طرف دیکھنے، اپنے رویے کے بارے میں گہرائی سے سوچنے اور اس بات پر غور کرنے کی صلاحیت ہے کہ یہ سب آپ کے اخلاقی معیار اور اقدار کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہیں۔
2) “خود احتسابی” کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کی ملکیت لیں، مظلوم (وکٹم) ذہنیت سے بچیں، بغیر کسی عذر کے اپنی ذمہ داریوں، کاموں اور مقاصد کو پورا کریں۔
اپنے اندر کی طرف دیکھے بغیر کہ کون سے منفی پہلو یا عادتیں واقعی قصوروار ہیں، ذاتی مسائل اور ناکامیوں کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا وقتی اطمینان کا سبب بنتا ہے اور یہ عادت انسان کی فطرت میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کوئی اچھی بات اس حد تک مطمئن نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے یہ یقین بڑھ جاتا ہے کہ اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے کے لئے، نامور ہونے کے لئے یا اپنی قدر بڑھانے کے لئے کسی کو نشانہ بنانا ضروری ہے، خواہ وہ سچ ہو یا مبالغہ سے کام لیا جائے۔
تحقیق و وجوہات:
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہر وقت شکایت یا تنقید کی عادت منفی سوچ کے رجحان سے منسلک ہو سکتی ہے۔ ایسے دماغوں نے منفی معلومات اور واقعات کو سنبھالنے کے لیے الگ الگ، زیادہ حساس دماغی سرکٹس تیار کیے ہیں، اور وہ مثبت چیزوں کی نسبت بری چیزوں کو زیادہ اچھی طرح سے پروسیس کرتے ہیں۔
علم نفسیات کے مطابق اس کا تعلق انا کے تحفظ سے بھی ہو سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ کسی سمجھی جانے والی ذاتی کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے وہ ناقص اور ناکافی محسوس کرتے ہوئے بڑے ہوئے اور بڑے ہو کر اس عادت کو اپنی ڈھال بنا لیا ہو۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی خصوصی سلوک یا حیثیت کے حقدار ہیں اور حاصل نہیں کر پا رہے۔ دوسروں کو پریشان کرنے یا ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ طاقتور محسوس کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔
منفی پہلو ہر انسان کی فطرت میں کم یا زیادہ پایا جاتا ہے۔ منفی پہلو کا ہونا نارمل ہے مگر اہم یہ ہے کہ اپنی حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ خود پر محنت کرنا، خود کو بہتر بنانا ہی اصل کامیابی ہے۔
پیغام:
ہم میں سے کوئی شخص اپنی بانٹی ہوئی قوت (انرجی) کے اثرات سے خود نہیں بچ سکتا۔ اس کے سبب پہلے تو ہماری اپنی اور خاندان کے ہر فرد کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسکے بعد دنیا میں جہاں ہمارے الفاظ پہنچتے ہیں وہاں ہم اپنی مثبت یا منفی قوت پہنچا رہے ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں جو بانٹیں وہ لوٹ کر نہ آئے۔ صرف اتنا سوچ لیا جاۓ کہ جو ہم بولتے، لکھتے یا کرتے ہیں ایسا ہمیں واپس ملے تو کیا یہ خوبصورت لگے گا ؟
بہتر ہے خود کو تلاش کریں! اپنے تاریک پہلوؤں کو قبول کریں! حقیقی اطمینان پائیں اور خوشیاں بانٹیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں