جنریشن گیپ کا ذکر ہر دور میں ہوتا رہا ہے لیکن حالیہ نسل اور گذشتہ نسلوں کے درمیان درحقیقت کئی نسلوں کی خلیج حائل ہے۔پاکستان کی بات کریں تو آبادی کے لحاظ سے اس وقت نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ موبائل فون ، اے ٹی ایم کارڈ اور سوشل میڈیا صرف ان تینوں کے استعمال کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو یہ خلیج اپنا احساس دلانا شروع کر دیتی ہے۔ان عوامل نے نئی نسل کی سوچ میں عالمگیریت کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ سوچ کی آفاقیت کی وجہ سے نئی نسل کے پاس بے پناہ معلومات ہیں۔معلومات اگرچہ خود شعور نہیں ہوتی ہیں مگر شعور پر اثر اندازہونے اور عمل انگیز کا کردار بخوبی ادا کرتی ہیں۔ان ہی معلومات نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی نئی نسل کی اچھی خاصی تعداد کو عصری سماجی، ثقافتی، سیاسی مسائل کے بارے میں تعمیل و تقلید کی بجائے تدبر اور یقین کی بجائے تفکر کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ با اثر اور طاقت ور سماجی حلقے اور طبقات جن کے مفادات مروجہ اخلاقی، ثقافتی اور معاشی ڈھانچے سے نا قابل علیحدگی انداز میں منسلک ہیں، عمومی شعور کی اس پیش رفت کے آگے جتنے بھی بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں،اتنا ہی خود کو عریاں کرتے ہیں۔مگر اس حقیقت کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اس عہد کے حقیقی سماجی و انسانی المیے کی عکاسی کرتا ہے۔یہی نسل جس کی ذہنی و فکری نشو و نما کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ موجود ہیں، اسی نسل کا قد وزن،جسمانی و ذہنی صحت اپنی گذشتہ نسل کے مقابلے میں کم ہے۔اس کی ایک وجہ تو پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی بچوں کی کم وزن کے ساتھ پیدائش اور غیر کامل نشوو نما ہے۔

بچوں کی بڑی تعداد ان بیماریوں سے مر جاتی ہے جن کا آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں ڈپریشن، ہائیپر ٹینشن اور شوگر جیسی بیماریاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔ستر فی صد کے قریب آبادی کسی نہ کسی درجے کی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔یہ سب اور ان کے علاوہ اور بہت سی دیگر بیماریاں صرف اور صرف غربت اور معاشی تناؤ کی پیداوار ہیں۔ ظاہر ہے اس صورتحال کو دیکھ کر نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔وہ معاشرے میں نا منصفانہ فرق کو دیکھتے ہیں۔ایک طرف اشرافیہ ہے جو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی امریکہ اور یورپ جیسا معیار زندگی رکھتی ہے اور دوسری طرف کچھ گھرانوں کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے۔ ایک امیر گھرانہ فائیو اسٹار ہوٹل میں جا کے ایک وقت کے کھانے کا جو بل ادا کرتا ہے ،وہ اسی ہوٹل کے باہر کھڑے گارڈ کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ وسائل کی اتنی غیر منصفانہ تقسیم نوجوانوں میں غم و غصہ کو جنم دیتی ہے۔اور اسٹریٹ کرائمز اور بینکوں کو لوٹنے جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست شہریوں کو سماجی تحفظ فراہم کرے۔ بچوں کو مفت تعلیم اور بیماروں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی جائے، بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ بوڑھوں کو بڑھاپے کا الاؤنس دیا جائے۔ان مطالبات کے جواب میں حکومت کہتی ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں ۔اس کے جواب میں سول سوسائٹی کہتی ہے کہ ججز ،فوجی اور سول بیوروکریسی اور منتخب اداروں میں بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کی مراعات ختم کی جائیں۔حکومتی اہل کار اکانومی کلاس میں سفر کریں روزمرہ استعمال کے لئے انہیں چھوٹی گاڑیاں دی جائیں جو صرف سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جائے۔زرعی اصلاحات کی جائیں۔ماہرین اقتصادیات عوام دوست پالیسیاں بنائیں ۔ہر معاملے میں اشرافیہ کے مفادات کی بجائے عوام اور ملکی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے۔ تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ہمیں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہےجو قابل، با اعتماد،با کردار نوجوان پیدا کرے جو معاشرے سے جڑ کر رہیں اور دوسروں کا خیال رکھیں۔ درست نظریات اور انقلابی جرات سے لیس نئی قیادت کا فقدان ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں