سوشلزم اور کمیونزم میں فرق ؟-کامریڈ عبداللہ

لفظی معانی :
سوشلزم اور کمیونزم دونوں کا origin فرانس ہے اور اتفاق سے دونوں الفاظ ہی 19  ویں صدی کے  ہیں۔
سوشلزم کا لفظ سوسائٹی سے نکلا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تمام ملکیت پیداوار اور means of production سوسائٹی کے  ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو اسے سوشلزم کہتے ہیں ۔
کمیونزم کا لفظ کمیونٹی سے نکلا ہے ،اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب means of production اور پیداوار کمیونٹی کے  پاس چلی جائے تو اسے کمیونزم کہتے ہیں ۔
ان دونوں کے  لفظی مطلب ایک سے ہی لگتے ہیں،بس کمیونٹی اور سوسائٹی کا فرق ہے۔

پس منظر :
یہ یاد رکھا جائے کہ كارل ماركس اور اینگل نے اپنی کتابوں میں سوشلزم اور کمیونزم دونوں لفظ استعمال کیے تھے اور اُن کا ان دونوں الفاظ سے ایک ہی مطلب ہوتا تھا
لیکن كارل ماركس نے the critic of Gotham program کے  نام سے ایک کتاب لکھی جس میں lower stage communism اور upper stage of communism کے  بارے میں بتایا لیکن لینن نے جب كارل ماركس کی یہ کتاب پڑھی تو اس نے lower stage of communism کو سوشلزم اور higher stage of communism کو کمیونزم کہنا شروع کر دیا۔

سوشلزم  :
كارل ماركس کے  مطابق سوشلزم یعنی lower stage of communism  انقلاب کے  بعد کا وہ مرحلہ ہے جہاں کمیونسٹ انقلاب تو قائم ہو جاتا ہے لیکن کچھ سرمایہ  داری خصوصیات ابھی بھی معاشرے میں  رہتی ہیں ۔

1-جیسے کہ  معاشرے  میں مزدور طبقے کی آمریت قائم رہتی ہے،تا کہ سرمایہ  دار اور جاگیر دار پھر سے اقتدار پر قبضہ نہ کر لیں

2۔معاشرےمیں بورژزوا قائم رہتی ہے ،مطلب کہ  جو جتنی محنت کرے گا اسے اتنی اجرت ملے گی ،یعنی  معاشرےمیں کسی حد تک غیر منصفانہ تقسیم رہے گی ۔

کمیونزم : 
كارل ماركس کے  مطابق higher stage of communism یعنی کمیونزم انقلاب کا وہ حصّہ ہے جہاں انقلاب مکمّل ہو جاتا ہے اور جب معاشرے میں سے بھوک اور ننگ مکمّل طور پر ختم ہو جاتی ہے اور سرمایہ  دار بھی ختم ہو جاتے ہیں تو از خود مزدور طبقے کی امریات کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور پوری دنیا state less اور money less سوسائٹی بن جاتی ہے اور معاشرے میں 100 فیصد equality آ جاتی ہے ۔

ہمیں كارل ماركس کی اس theory سے یہ پتہ  لگتا ہے کہ اگر کسی ملک میں انقلاب آتا ہے تو اس ملک میں سب سے پہلے سوشلزم یعنی lower stage of communism  آئے گا اور پھر اس کے  بعد کمیونزم یعنی  upper stage of communism آئے گا ۔

دور حاضر میں اگر کوئی شخص آپ کو یہ کہتا ہے کہ میں سوشلسٹ ہوں یا پھر کمیونسٹ ہوں تو ان دونوں الفاظ کاے  مختلف مطلب ہوں گے۔یاد رکھا جائے کہ ہر کمیونسٹ سوشلسٹ ہوتا ہے لیکن ہر سوشلسٹ کمیونسٹ نہیں ہوتا۔

ہر کمیونسٹ کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ سوشلزم سرمایہ داری نظام اور کمیونزم کے  درمیان کا وہ حصّہ اور وہ دور ہے جس سے گزرتے ہوۓ انقلاب pure کمیونزم کی طرف جاتا ہے۔
کیوں کہ کمیونسٹ سوچتا ہے کہ وہ معاشرہ جہاں کئی سالوں سے بدمعاشوں کی حکومت ہو وہاں فوراً سے state less سوسائٹی نہیں بن سکتی، اسی لئے طاقت کے  خلا کو  پُر  کرنے کے  لئے عارضی طور پر مزدور طبقہ کی آمریت ضروری ہے  ۔

ابتداء: 
اب بات آتی ہے سوشلزم کی طرف۔ ۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ  اینگلز  اور ماركس دونوں مل کر جرمنی کے  مزدورں کی ایک پارٹی بناتے ہیں ۔جس کا نام وہ رکھتے ہیں (German social democratic labour party )اور پھر بعد میں اسی پارٹی کی طرز پر اور بھی بہت سی مزدور پارٹیاں وجود میں آئیں ۔لیکن پھر کچھ عرصہ بعد اس پارٹی میں اختلاف پیدا ہو گیا اور یہ اختلاف دو لیڈرز کی وجہ سے ہوا،جو کہ ماركس اور engles کے بعد سب سے بڑے لیڈر  تھے۔

ان دونوں لیڈرز جن کا نام EDWARD BERNSTEIN اور KARL KAUTSKY تھا ۔ ان کے  مطابق اب سرمایہ  داری نظام اس اسٹیج تک پہنچ گیا ہے کہ ہمیں اب ضرورت نہیں کہ انقلاب لائیں اور مزدور طبقہ کی آمریت قائم کریں بلکہ  اس کے  برعکس   ہمیں چاہیے کہ ہم پارلیمنٹ کے  ذریعے  پہلے حکومت میں آئیں اور پھر اصلاحات کے  ذریعے  مزدور طبقہ کا استحصال ختم کریں گے ۔اور کمیونسٹوں کا یہ ماننا تھا کہ اگر سوسائٹی میں مزدور طبقہ کا استحصال کم کرنا ہےاور وسائل پر قبضہ کرنا ہے تو اس کے  لئے ضروری ہےکہ ملک میں انقلاب آئے۔(مجموعی طور پرآج کے  دور میں کمیونسٹ انہیں کہتے ہیں جو کہ  انقلاب کے  ذریعے مزدور طبقہ کی آمریت چاہتے ہیں اور سوشلسٹ انہیں کہتے ہیں جو کہ پارلیمنٹ کے  ذریعے وسائل پر قبضہ چاہتے ہیں )

یاد رکھا جائے کہ آج کل کہ سوشلسٹ اپنے آپ کو social democrats بھی کہتے ہیں۔ان دونوں گروہوں کا مقصد تو ایک ہی ہے لیکن کام کرنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔

میرے خیالات : 
ان دو نظریوں کے  حوالے سے میرے یہ خیالات ہیں کہ پارلیمنٹ کہ ذریعے انقلاب لانا غلط ہی نہیں بلکہ  بیوقوفی ہے خاص طور پر پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں کیوں کہ آپ کی پوری پارلیمنٹ عدالتی نظام غداروں اور بدمعاشوں سے بھرے پڑے ہیں  اور ویسے بھی كارل ماركس نے یہ بات کھل کر کہی تھی کہ Democracy is the institution and sect of capitalism
لہذا اس کے  بعد ایسے خیالات پر ایمان رکھنا بیوقوفی ہے ۔آج کے  دور کا پارلیمنٹ اور جمہوریت سرمایہ داروں کی جیب پر پَل رہے ہیں تو پھر آپ کیسے اس نظام کے  ذریعے مزدور طبقہ کی آمریت لائیں گے
یاد رکھیے بدمعاش کبھی اپنی سیٹ نہیں  چھوڑتا۔بھٹو کے  ساتھ بھی یہی ہوا تھا کہ اس نے اقتدار میں آنے کے  بعد اصلاحات کی اور پھر اس کے  ساتھ کیا ہوا، سب کو پتا ہے  ۔یہاں تک کہ وہ پھانسی کے  پھندے تک پہنچ گیا۔
پاکستان کو ایک سخت ترین کمیونسٹ انقلاب کی ضرورت ہے جو کہ پورے  نظام کو تباہ کر دے اور اس نظام کی ساری غلاظتیں صاف کر دے اور پھر آپ کے  ملک کا غریب اور مزدور طبقہ مل کر ایک نیا سسٹم بناۓ گا جو کہ ہر class اور طبقے سے پاک ہو گا۔
اور پھر پاکستان سے ہی انقلاب پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہو اور پاکستان کمیونزم کے  ماننے والوں کا قبلہ بن جائے اور پھر پوری دنیا لال ہو جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیسبک وال۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply