مسیحیوں کی سیاسی ترقی کی رفتار بُری نہیں/ اعظم معراج

70 کی دہائی کے سماجی وسیاسی کارکنوں کی جدو جہد اور دو مسیحی شہداء کے لہو کے صدقے بھٹو نے چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے موجودہ اقلیتی انتخابی نظام دیا جسے ضیاء  نے کالعدم قرار دیا اور مشرف نے بحال کیا۔اس نظام میں اس نے 6ایم این ایز نامزد کرنے کا استحقاق حاصل کیا ۔ اس میں 4 ایم این  اے مسیحی، 1 ہندو، 1 پارسی تھا۔

ضیاء نے یہ تعداد 4مسیحی ،4 ہندو،ایک قادیانی اور ایک دیگر ساری اقلیتوں کے لئے ایک نشست کردی ۔مشرف نے نظام بحال کیا، نشستوں کی مجموعی تعداد ضیا والی رکھی لیکن بھٹوکی طرح نظام ایسا رکھا  کہ اشرفیہ چاہے تو تمام ایم این ایز ایم پی ایز ایک ہی کمیونٹی سے ہو جائیں ۔۔یاد رہے یہ نظام ہماری این جی اوز اور گرجے کا پسندیدہ نظام ہے ۔

مسیحیوں کے سیاسی نمائندوں این جی اوز،بشپ صاحبان کی شاندار کارکردگی کی بدولت آج کی اسمبلی میں یہ تعداد 10 ایم این ایز میں سے 3 مسیحی ،6 ہندو ،1 پارسی ہے ۔ویل ڈن ویل ڈن ۔۔لیکن نتائج اتنے بُرے نہیں ہیں ،اس اول الذکر قبیلے کے تب سے آج تک کے اس دھندے کے اسٹیک ہولڈر  تقریباً سارے خواتین وحضرات کے بچے سیاسی پناہوں یا ان دھندوں کے طفیل دیار غیر میں ہیں ۔اچھی زندگیاں گزار رہے، اور کئی تو آج تک سابقہ نہیں بلکہ اپنے ناموں کے ساتھ صرف ایم این اے ،ایم پی اے لکھتے پائے جاتے ہیں ۔موجودہ 38 میں سے فی الحال 12 نئے( کے پی کے میں ابھی نامزد نہیں ہوئے)نمائندگان اور الذکر کاروبار و بیوپار میں نئے وارد ہونے والے بھی انشااللہ مستفید ہونگے ۔ ہاں ایک خدشہ ہے اگر اول الذکر تینوں فریقوں کا پسندیدہ ترین موجودہ ناانصافی پر مبنی ،جمہوریت کی روح کے منافی اقلیتی انتخابی نظام چلتا رہا تو اس کھیل سے آہستہ آہستہ مسیحی سیاسی ورکر بینفیشریز باہر ہو جائیں گے، باقی دونوں فریق سب اچھا ہے  ‘کی رپورٹ دینے کی بدولت سے فوائد اُٹھاتے رہیں  گے۔۔ اور سیاسی ورکروں کا یہ ویکیوم   خود پورا کریں گے، جو یہ آہستہ آہستہ پورا کر بھی رہے ہیں ۔۔یہ موجودہ 12 اور انکے رفقاء کار جو اگلی ترجیحی فہرستوں میں نام آنے کی آس میں خاموش بیٹھے ہیں ۔ان خواتین و حضرات کو سوچ لینا چاہیے  کہ خلق خدا کی اجتماعی فلاح کے لئے آواز اٹھانا ہی سیاست ہے ۔۔یہ سوچ کر خاموش بیٹھے رہنا سیاست نہیں کہ آئندہ جب بھی فہرست بنی تو میں تو ہوں گا ہی
؎پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply