خدا ہے /تبصرہ: علی رضا کوثر(4،آخری حصّہ)

باب ششم کی شروعات اس عنوان سے ہوتی ہے (جو کہ میرا پسندیدہ ہے)، ‘کیا کائنات کو معلوم تھا کہ ہم آ رہے ہیں؟ اس عنوان پر لکھنے سے پہلے مصنف ایک تصور ہمارے ذہنوں میں خلق کرتا ہے جس سے وہ ثابت کرتا ہے کہ کائنات کو واقعی پتہ تھا کہ ہم آرہے ہیں۔ (یہ جملہ سحر انگیز ہے میرے لئے)۔
آپ تصور کریں کہ آپ چھٹیوں ہر کہیں گھومنے گئے اور ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوئے۔ بستر کے سرہانے پڑا سی ڈی پلیئر آہستہ آہستہ آپ کی پسندیدہ رکارڈنگ چلا رہا ہے۔ کمرہ آپکی پسند کی خوشبو سے بھرا ہوا ہے۔ آپ فریج کی جانب بڑھتے ہیں تو فریج میں آپکے من پسند مشروبات، کوکیز، کینڈیز، بوتل اور پانی کا برانڈ بھی آپکی پسند کے مطابق ہے۔ آپ ڈیسک پر آ بیٹھتے ہیں اور جو کتاب ڈیسک پر موجود ہے وہ آپکے پسندیدہ مصنف کی تازہ ترین کتاب ہے۔آپ ٹیلیویزن کھولتے ہیں تو آپ کا پسند کا چینل آنے لگتا ہے۔آپ سوچتے ہین کہ کیا یہ سب اتفاق ہے؟ آپ پھر اس بات پر یقین کرنے پر مائل ہوتے ہیں کہ کوئی جانتا تھا کہ آپ آ رہے ہیں!
مذکورہ بالا چھٹیوں والا منظرنامہ fine-tuning کی دلیل ہے۔ یہ منظرنامہ مصنف اس کائنات پر لاگو کرتے ہیں اور اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی بات پر Freeman Dyson (ماہر طبیعات) کے اس کوٹ کو بھی بیان کرتے ہیں کہ “میں کائنات کی جتنی جانچ پڑتال کرتا ہوں اور اسکت فن تعمیر کی تفصیلات کا مطالعہ کرتا ہوں، مجھے اتنا زیادہ ثبوت ملتا ہے کہ کائنات کو کسی لحاظ سے معلوم تھا کہ ہم آ رہے ہیں۔”
یہاں پر آپ سوال کرسکتے ہیں کہ ‘کائنات کو شعور کیسے ہوتا ہے؟ ‘
تو اسکا جواب میں کچھ یوں دونگا کہ ڈائیسن کا یہ قول خدا کے ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ کائنات کا نظم و ضبط فطرت کے قوانین پر منحصر ہے اور یہ قوانین خود بہ خود نہیں بنے بلکہ کسی “بڑے دماغ” نے بنائے ہیں۔ اس قول میں کائنات کو ہم خدا سمجھ سکتے ہیں۔ کم از کم میں اس قول میں کائنات کو خدا سمجھ کر پڑھتا ہوں تو بات کلیئر ہوجاتی ہے۔
خدا کیلئے فلسفیوں اور سائنسدانوں نے مختلف نام استعمال کیے ہیں۔ مثلا
۔The Divine Law Maker
۔ فطرت
۔ علت اولی
۔ First Mover
۔ Super Mind
مصنف لکھتا ہے،
“فطرت میں موجود باقائدگی کے بارے میں نیوٹن سے لیکر آئن سٹائن اور آئن سٹائن سے لیکر ہائزنبرگ تک کے سب سائنسدانوں نے سوال کیا ہے اور جواب دیا ہے۔ ان کا جواب تھا “خدا کا دماغ”ـ
میں نے چند روز پہلے اسپائنوزا کا ایک کوٹ لکھا تھا کہ فطرت کی خد ہے۔ آئن سٹائن نے بھی کہا تھا کہ وہ اسپائنوزا کے خدا پر یقین رکھتا ہے۔ اسپینوزا کے وقت سے فطرت اور خدا کے الفاظ مترادف تھے۔ آئن سٹائن خود کو اگر خدا پرست نہیں کہتا تو ملحد بھی نہیں کہتا۔ وہ تو ایک ذہن کبیر اور پراسرار قوت میں یقین رکھتا ہے جو بروج کو متحرک رکھتی ہے۔
یہ جو fine-tuning کی دلیل ہے جس کو مصنف نے ایک منظرنامے کی مدد سے سمجھایا ہے، اس پر اور روشنی دیتے ہوئے وہ طبیعات کی روشنی میں لکھتے ہیں، “اگر کسی ایک مستقل جوہر، جیسے روشنی کی رفتار یا الیکٹران کی کمیت، میں ذرہ برابر بھی فرق آجائے تو کوئی بھی سیارہ انسانی زندگی کو باقی رکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔”
یعنی مصنف کائنات کو ہر طرف سے ایک بڑے دماغ کی ڈیزائن کہتے ہیں۔ جس نے ہمارے آنے سے پہلے ہر وہ چیز کائنات مین رکھ دی جس سے ہماری زندگی برقرار رہے۔
آپ کو ایک اور آسان مثال دیتا ہوں۔ سورج سے جس دوری پر زمین واقع ہے اگر اس دوری زرہ برابر بھی فرق آجائے تو انسان زمین پر رہ نہ سکیں۔ زمین سورج کی طرف تھوڑی سرک جائے تو گرمی ہماری جان لے لے اور اگر تھوڑا دور ہوجائے تو سردی میں مر جائیں۔ یہ اتنی باریکی سی زمین کی جگہ متعین کرنے کے پیچھے لازمی کوئی دماغ ہے۔
اس fine tuning اور کائنات کے نظم و ضبط کے خلاف ملحدوں نے اور ایک نظریے کو فروغ دیا جسے ہم “ممکنہ کائناتیں” کہتے ہیں۔ یعنی وہ یہ بتا رہے تھے کہ ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد کائناتیں وجود رکھتی ہیں۔مگر یہ خیال عقلی طور پر اور زیادہ پیچیدہ ہے۔ اسی لئے سوئن برگ نے کہا کہ “یہ بیوقوفی ہے کہ کھربوں کائناتوں کو ایک کائنات کی وضاحت کیلئے فرض کر لیا جائے”
مارٹن ریس نے بھی اس خیال کو رد کرتے ہوئے کہا “پورے ملٹی ورس پر حکومت کرنے والے بنیادی قوانین، کائناتوں کے قوانین میں تنوع کی اجازت دے سکتے ہیں”
بہرحال مصنف نے اس باب میں بڑے اچھے طریقے سے ثابت کرنا چاہا ہے کہ خدا ہے۔ اور وہ سحر انگیز جملہ کہا ہے جس کو میں نہیں بھول پا رہا کہ “کائنات جانتی تھی کہ ہم آ رہے ہیں”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply