(“God is dead” and Friedrich Nietzsche)
فریڈرک نطشے جدید تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر فلسفیوں میں سے ایک ہیں، اور ان کا یہ کلمہ کہ “خدا مرچکا ہے” بہت مشہور ہے اور میں سمجھتا ہوں سب سے سے زیادہ متنازعہ خیالات میں سے ایک ہے۔ اس مضمون میں نطشے کے اِس مشہور کلمے/بیان کے پیچھے معنی، مختلف تشریحات، اس کے تاریخی تناظر اور جدید معاشرے میں اس کی مطابقت اور اثر ورسوخ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
• موضوع کا مختصر تعارف
نطشے کا یہ بیان کہ “خدا مرچکا ہے” کوئی سادہ اور لفظی بیان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بہت گہرا اور استعاراتی بیان ہے۔ نطشے کا یہ کمال تھا کہ وہ ایک جملے میں وہ کچھ کہہ دیتا تھا کہ جو شاید دوسرے پوری کتاب میں بھی نہ کہہ پائے۔ نطشے یہ تجویز نہیں کر رہا تھا کہ مطلقاً خدا مرگیا ہے، بلکہ یہ کہ خدا کا تصور مطلق سچائی اور اخلاقیات کے ماخذ کے طور پر جدید معاشرے میں غیر متعلق اور بے اثر ہو گیا ہے۔ یعنی جو الٰہی اخلاقیات ہم نے اختیار کیں ہیں یا جن مذہبی اخلاقیات کا ہم پرچار کر رہے ہیں، ان کا اثر بالکل نہیں ہے، اور نہ ہی ہم ان قوانین و اصول کو عالمگیر بنا سکتے ہیں۔ نطشے کا خیال تھا کہ روایتی اور مذہب پر مبنی عقائد اور اقدار، اب اِس سائنس، تعقل اور شکوک وشبہات کے دور میں قابل عمل نہیں رہے اور نہ ہی ہم انکو ابھی لاگو کرسکتے ہیں، الٰہی (divine) معاشرتی اصول اور اخلاقیات اپنی تاثیر کھوچکے ہیں۔ اب ہم کو نئے دور کے حساب سے نئی اقدار اور نئی اخلاقیات کو ڈھونڈنا ہوگا، دینی و مذہبی اقدار عالمگیر ہونے میں ناکام ہیں، یعنی روایتی اور مذہبی اقدار و اخلاقیات افراد اور موجودہ معاشرے کو سنوارنے میں مکمل ناکام ہوئی ہے۔
• تاریخی پسِ منظر
روشن خیالی (Enlightenment) کے دوران عقل، سائنس اور انفرادیت (individualism) پر ایک نیا زور دیا گیا۔ اس کی وجہ سے روایتی مذہب اور مذہبی عقائد پر سوال اٹھنے لگے، جیسا کہ مفکرین نے نئی دریافتوں اور نظریات کو سوچنے کے پرانے طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ روشن خیال مفکرین کا خیال تھا کہ عقل اور سائنس انسانی علم اور اخلاقیات کے لئے مذہب کے اختیار کی جگہ ایک نئی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔
“خدا مرچکا ہے” (God is dead) کے خیال کو 19ویں صدی میں خاص طور پر فریڈرک نطشے کے کام میں اہمیت حاصل ہوئی۔ 19 ویں صدی عظیم اتھل پتھل اور تبدیلی کا دور تھا، جس کی نشاندہی سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت کاری کے عروج نے کی۔ اس دور کو اختیار کئے ہوئے روایتی ذرائع جیسے مذہب اور بادشاہت کے زوال اور سیاسی اور سماجی تنظیم کی نئی شکلوں کے ابھرنے سے بھی نشان زد کیا گیا تھا۔ نطشے نے خدا کی موت کو اس تاریخی عمل کے نتیجے میں دیکھا۔
نطشے کا خیال تھا کہ خدا کی موت سائنسی اور عقلی سوچ کے عروج کا نتیجہ ہے، جس نے روایتی مذہبی عقائد کی حدود کو بے نقاب کر دیا ہیں۔ نطشے کا خیال تھا کہ خدا کا تصور مطلق سچائی اور اخلاقیات کے منبع کے طور پر جدید معاشرے میں غیر متعلق اور بے اثر ہو گیا ہے، اور یہ کہ افراد کو خود اپنی اقدار اور معنی پیدا کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
نطشے کا خدا کی موت کا تصور جدیدیت کی ایک بڑی تحریک کا حصہ تھا، جس نے اختیار کی ہوئی روایتی شکلوں کو مسترد کر دیا اور انفرادیت اور خود اظہار خیال کی نئی شکلوں کو اپنایا۔ یہ تحریک متعدد عوامل سے متاثر تھی، جن میں جمہوریت کا عروج، صنعت کاری کی ترقی، اور نئی ٹیکنالوجیز کا ظہور شامل ہے۔
نطشے کا خیال تھا کہ خدا کی موت نے افراد کے لئے ایک موقع پیدا کیا کہ وہ اپنی زندگی کی ذمہ داری خود لیں اور اپنی اقدار اور معانی تخلیق کریں۔ اتھارٹی کے روایتی ذرائع پر انحصار کرنے کے بجائے، نطشے نے افراد سے اپنے اخلاقی ضابطے بنانے اور اپنی انفرادیت کو اپنانے پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ انسانی عظمت کے ایک نئے دور کی طرف لے جائے گا، جس کی خصوصیت تخلیقی صلاحیتوں، اختراعات، اور خود اظہار خیالی سے ہوگی۔
• جدید معاشرے پر اِس بیان، یعنی “خدا مرچکا ہے” کا اثر و رسوخ
نطشے کے خدا کی موت کے تصور نے جدید فکر اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس کی مختلف طریقوں سے تشریح کی گئی ہے، ذاتی آزادی کے مطالبے سے لے کر روایتی اقدار اور عقائد کی تنقید تک۔ کچھ نے نطشے کے نظریات کو وجودیت (Existentialism) کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھا ہے، جبکہ دوسروں نے انہیں معروضی سچائی اور اخلاقیات کے خیال کے لئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا ہے۔
اس بیان نے واقعاً ہمارے جدید دنیا پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے، کیونکہ یہ ان روایتی عقائد اور اقدار کو چیلنج کرتا ہے جنہوں نے صدیوں سے انسانی رویے کی رہنمائی کی ہے۔
• مذہب کا زوال
سب سے اہم اثرات میں سے ایک دنیا کے بہت سے حصوں میں مذہب کا زوال ہے۔ چونکہ لوگ روایتی مذہبی عقائد کے بارے میں زیادہ شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے ہیں، انہوں نے منظم مذہب سے منہ موڑ لیا ہے اور ایتیزم، اگنوسٹسزم اور ڈیزم کی راہ کو اختیار کر بیٹھے ہیں۔ جیسا کہ ہم اپنے معاشرے کو بھی دیکھ سکتے ہیں بہت سے نوجوانوں نے روایتی اور مذہبی اقدار پر مکمل شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہیں، کچھ تو اظہار بھی کرتے ہیں مگر اکثر ایسے ہیں کہ جو بدنامی یا معاشرے کے ڈر کی وجہ سے یا کسی اور خاص وجہ سے اظہار نہیں کر پاتے۔ موجودہ نیچرل سائنس اور سوشل سائنس نے معاشرے میں ہر جوان کے دماغ میں کئی سارے سوالات اُبھارے ہیں جو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی عقائد کے خلاف جاتی ہیں۔
• جدیدیت اور عقلیت پسندی کی مخالفت
نطشے کے اِس مشہور بیان یعنی “خدا مرچکا ہے” کو اکثر جدیدیت اور عقلیت کی تنقید کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ یعنی نطشے کا خیال تھا کہ روشن خیالی اور سائنسی انقلاب نے روایتی مذہبی عقائد اور اقدار کو مجروح کر دیا ہے، جس سے لوگ ایک بے معنی کائنات میں گم ہو گئے ہیں۔ اس نے خدا کی موت کو ایک گہرے بحران کے طور پر دیکھا جس نے زندگی اور اخلاقیات کے لیے ایک نئے انداز کا مطالبہ کیا۔ یعنی روشن خیالی کی اقدار، جیسے عقل، ترقی، اور انفرادیت، ایک قسم کی عصبیت/نہلزم کی طرف لے گئی ہے، جہاں لوگوں کے پاس کوئی ماورائی معنی یا مقصد باقی نہیں رہا۔ انہوں نے اقدار کے از سر نو جائزہ پر زور دیا جو لوگوں کو اپنی اقدار بنانے اور اپنی زندگیوں میں معنی تلاش کرنے کی اجازت دے گی۔
لیکن میرے خیال میں نطشے کے اس بیان کو جدیدیت اور روایتی اقدار دونوں کی تنقید کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ زندگی اور اخلاقیات کے لئے ایک نئے نقطہ نظر کا مطالبہ کر رہا تھا جس نے ہر قسم کے عقیدہ اور اختیار کو مسترد کر دیا۔
• انفرادیت (Individualism)
نیز بہت سے لوگ خصوصاً جوان طبقہ اپنی سوچ اور طرزِ عمل میں زیادہ انفرادیت (Individualism) پسند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس خیال کو قبول کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خود ذمہ دار ہیں اور اس تصور کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے اعمال کی رہنمائی کرنے والی ایک اعلی طاقت یا الہی طاقت ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی اگر ہم دیکھیں ایسے کئی ہزار جوان ہمیں مل جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مثلاً فلاں مولوی یا عالم کون ہوتا ہے کہ جو ہمیں یہ بتائے کہ کیا صحیح ہیےاور کیا غلط ، ہم خود اپنی سوچ اور اپنی اقدار کا تعین کرسکتے ہیں، اکثر نوجوانوں کا ایگزیسٹنشلزم (Existentialism) کی طرف رجحان بڑھ رہا ہیں، یعنی ہم زندگی کا مقصد اور معنی خود بنائیں گے، ہمیں کسی الٰہی قوانین اور الٰہی مقصد کی ضرورت نہیں ہیں۔
بہت سے افراد نہلزم (Nihilism) کی حالت میں بھی جاتے ہیں، یعنی ہر چیز کی کوئی معنی نہیں ہے، اور نہ ہم کوئی معنی دے سکتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے افراد خصوصاً نوجوان ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی نہلزم (nihilism) کی حالت بھی بہت کم عرصے کے لئے ہوتا ہے، کوئی بھی بندہ مستقل طور پر زندگی میں نہلسٹ (Nihilist) نہیں ہوسکتا، ضرور، ہر انسان شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر زندگی کو کوئی معنی دے رہا ہے۔ ویسے کتنا اذیت ناک دور ہے کہ ہر شخص اپنی ایک جنگ میں مصروف ہے، ہر شخص اپنی زندگی کے معنی میں اذیت کا تجربہ کررہا ہے، ہر فرد اپنے روایتی اور خاندانی عقائد و اقدار کے ساتھ ایک بڑی اذیت ناک جنگ کا اندرونی تجربہ کررہا ہے، ہر شخص اپنے اندر بے چینی کا احساس محسوس کررہا ہے ۔

بہرحال مجموعی طور پر، “خدا مرچکا ہے” کے بیان نے ہمارے جدید معاشرے پر بہت اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس نے روایتی عقائد اور اقدار کو چیلنج کیا، جس کی وجہ سے انسانوں کی انفرادیت، اور سائنسی عقلیت پسندی اور وجودیت پر زیادہ توجہ مبذول ہوئی اور جیسا کہ بیان ہوچکا، اس مشہور بیان کو جدیدیت اور عقلیت کی تنقید کے طور بھی لوگ تشریح کرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں