سانحہ کھاریاں؛سرکار بنام حرا وغیرہ/عامر عثمان عادل

پیارے پڑھنے والو !
کل تھانہ صدر کھاریاں میں پیش آنے والا واقعہ آنا ًفاناً ایسا وائرل ہُوا کہ ملک بھر میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا
اس ضمن میں حقائق پر مبنی رپورٹ پیش خدمت ہے
تھانے پہ پتھراؤ
کل تھانہ صدر کھاریاں کی عمارت پہ پتھراؤ کے بعد خواجہ سراؤں نے جی ٹی روڈ بلاک کر کے شدید احتجاج اور نعرے بازی کی ،اس کے بعد دیکھا گیا کہ پولیس نے جوابی کارروائی کی۔

خواجہ سراوں کا موقف
کھاریاں میں مقیم ٹرانس جینڈر حرا کا کہنا ہے کہ وہ رات گئے ڈنگہ روڈ پہ اپنے گھر سے گورمے بیکری کے لیے  نکلی اور میرا بندہ ( ایف آئی آر میں خاوند لکھا گیا ہے ) میرے ساتھ تھا کہ کھاریاں پولیس کے دو باوردی ملازمین ( عمر بلال اور یٰسین ) نے مجھ پر آوازے کسے اور پھر دست درازی شروع کر دی۔ میں نے روکا تو مجھے ان ملازموں نے گالیاں دیں اور زدوکوب کیا ۔بعد ازاں وائرلیس پہ مزید نفری منگوا کر مجھے تھانے لے گئے ،جہاں حبس بے جا میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ دوبارہ میرے ساتھ نازیبا حرکات کرتے رہے اور پھر زبردستی مجھ سے راضی نامہ لکھوا لیا

صوبائی لیڈر نگاہیں کا موقف
خواجہ سراوں کے صوبائی سطح کے لیڈر نگاہیں نے بتایا کہ رات کو ہی انہیں اس واقعے کی اطلاع موصول ہوئی اور مجھے مقامی خواجہ سراوں نے فی الفور کھاریاں پہنچنے کا کہا
اتوار کی صبح میں ان کے ساتھ تھانہ صدر کھاریاں پہنچی جہاں ہمارا مطالبہ تھا کہ رات کو حرا کے ساتھ جو بدسلوکی روا رکھی گئی اس پہ کارروائی کی جائے ۔ایس ایچ او صاحب چھٹی پہ تھے تھانے میں موجود ملازمین کا رویہ ہمارے ساتھ انتہائی ہتک آمیز تھا، بلکہ  ایک کانسٹیبل نے ہمیں دیکھ کر نفرت سے تھوک دیا اور پھر ہماری تکرار پر تھانے والوں نے دوبارہ ہم پر تشدد شروع کر دیا ،جس پر خواجہ سرا مشتعل ہوئے اور تھانے کے بینچ و دیگر سامان اٹھا کر باہر سڑک پر لے آئے۔

حرا کے ساتھ تھانے میں زیادتی
گروپ لیڈر نگاہیں کا کہنا ہے کہ حرا نے الزام عائد کیا کہ رات کو تھانے میں میرا جنسی استحصال کیا گیا، پولیس اہلکار مجھے زبردستی نازیبا حرکات پر مجبور کرتے رہے۔
شدید احتجاج کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا جس کے نتیجے میں متعدد خواجہ سرا شدید زخمی ہو گئے جنہیں عزیز بھٹی شہید ہسپتال لے جایا گیا

سنتری سے رائفل کیوں چھینی ؟
ایک ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہے جس میں تھانے کی عمارت کے اندر کھڑے سنتری سے خواجہ سرا رائفل چھینتے نظر آتے ہیں ۔نگاہیں کا کہنا ہے کہ یہ سنتری خواجہ سراؤں کو دھمکیاں دے رہا تھا کہ تمہیں  گولی مار دوں گا ،جس پر خواجہ سرا مشتعل ہو کر اسے کہہ رہے تھے یہ لو سیدھی کرو بندوق اور مارو ہمیں گولی۔

پولیس سے تصفیہ
نگاہیں کا کہنا ہے کہ ڈی پی او گجرات کی مداخلت سے خواجہ سرا حرا کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا، انصاف کی یقین دہانی کروائی گئی اور ایس ایچ او تھانہ صدر کھاریاں نے خواجہ سراؤں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی یا گرفتاریاں نہ کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔

ایس ایچ او تھانہ صدر کھاریاں کا موقف
ایس ایچ او نے بتایا کہ رات گئے حرا نامی ٹرانس جینڈر کے ساتھ دو پولیس والوں کی تکرار ہوئی ،حرا نے انہیں گالیاں دیں جس پر معاملہ تھانے  تک جا پہنچا۔ جہاں تصفیہ ہو جانے کے بعد حرا نے تحریری طور پر راضی نامہ دے دیا لیکن اتوار کے روز خواجہ سرا بڑی تعداد میں تھانے پر حملہ آور ہو گئے۔ سنتری سے سرکاری رائفل چھیننے لگے توڑ پھوڑ کی ،سامان اٹھا کر باہر لے گئے دو ملازمین کو اغوا کر کے جی ٹی روڈ پر لے گئے ملحقہ خدمت مرکز کو شدید نقصان پہنچایا ۔انہوں  نے خود اپنے کپڑے پھاڑے، خود کو ننگا کیا۔

رات گئے مقدمہ
پولیس نے خواجہ سراوں کو میڈیا کے روبرو راضی نامے کا جھانسہ دے کر رات گئے ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے کریک ڈاون شروع کر دیا اب تک کی اطلاعات کے مطابق گرفتار خواجہ سراؤں کو کسی اور تھانے میں رکھ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تجزیہ
یہ واقعہ اور اس سے جڑے وہ تمام مناظر جو ویڈیوز کی صورت سوشل میڈیا کی زینت بنے ہیں بطور ایک پاکستانی میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ہیں
ہمارے اداروں اور سرکاری ملازمین کی اس قدر بے توقیری ایسی ذلت باعث شرم ہے۔لیکن سچ پوچھیں تو پولیس کے موقف میں بہت جھول ہیں
خواجہ سراؤں نے جو کیا وہ سراسر غلط ہے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں، لیکن کیا کوئی ادارہ اس بات کا کھوج لگائے گا کہ آخر نوبت یہاں تک پہنچی ہی کیوں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ابتدا کس نے کی ؟
اوباش ملازمین نے راہ چلتی حرا کے ساتھ زبان درازی بھی اور دست درازی بھی
پھر تھانے لے جا کر معاملے کو سلجھانے کی بجائے مزید خرابی اور بدمعاشی
اس سے اگلے روز تو حد ہو گئی
اگر خواجہ سرا بطور احتجاج آ ہی گئے تھے اور کارروائی چاہتے تھے تو انہیں حکمت عملی سے انگیج کیا جا سکتا تھا کسی سینئر افسر سے رابطہ ہو سکتا تھا لیکن یہاں بھی اسی روئیے کا مظاہرہ کیا گیا جو پنجاب پولیس کی وجہء  شہرت ہے
معاملے کی سنگینی کا بروقت تدارک کیوں نہ کیا گیا ؟
کوئی ذمہ دار افسر موقع پر کیوں نہ پہنچا ؟
کیا انصاف کا تقاضا نہیں تھا کہ تھانے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی صاحب کو جن کی ناک کے نیچے غدر مچا فی الفور معطل کر کے انکوائری کروائی جاتی
نتیجہ کیا نکلا ؟
پنجاب پولیس کی دنیا بھر میں رسوائی جگ ہنسائی!
 

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply