راجر فلنٹ!
ایک خوبرو نوجوان،ایک دولت مند گھرانے کا لڑکا۔
ما ں باپ، اور لڑکے کا ایک ہی نصب ا لعین تھا کہ آئی لیگ ivy league کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ ملے۔
جہاں صرف سالانہ ٹیوشن فیس پچاس ہزار اور ایک لاکھ ڈالرز کے درمیان ہوتی ہے ۔
جہاں سے ڈگری حاصل کرنے والوں کو کارپوریشن ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں، اہم ذمہ داری سونپ کر انہیں بہت اچھا معاوضہ دیتی ہیں۔
ایسے ہی طلباء پھر اداروں کے صدر یا چیف بنتے ہیں۔
اب یہ لڑکا اپنی ڈگری پروگرام کے تیسرے سال میں پہنچ چکا تھا۔
ایک ڈیڑھ سال کے بعد وہ کسی بہترین پوزیشن پہ کام شروع کر دے گا۔
اسے اطمنان تھا کہ اس کا مستقبل تابناک تھا۔
وہ ہمیشہ مراعاتی طبقے کا فرد رہے گا۔ کارپوریشن یا حکومت کے لئے پالیسیاں بنائے گا۔
بھونچال تو آتے جاتے رہیں گے لیکن اس کا مستقبل محفوظ رہے گا۔
لیکن ۔۔۔۔۔
کئی ہزار کلومیٹر دور دنیا کے کسی خطے میں قتل عام شروع ہو چکا تھا۔
محلے ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
اسکول، کالج، ہسپتال سب تباہ کئے جا رہے تھے۔
پانی اور خوراک کی ترسیل پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی ۔
لاشیں سڑ رہی تھیں، بچے بلک رہے تھے۔
روز ایک طاقتور ملک کی فوج قیامت کا صور پھونک رہی تھی۔
امریکہ کے ارباب اختیار ظالم کی مدد کر رہے تھے۔
میڈیا بھی ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کر رہا تھا۔
چند طالب علموں کو پتا چلا کی ان کی یونیورسٹی نے بھی جابر ملک کے ساتھ کئی طرح کے روابط قائم کئے ہوئے ہیں۔
ان طلباء نے یونیورسٹی میں دھرنا دے دیا،
قتل عام کے خلاف ، ارباب اقتدار کے اس قتل عام میں ملوث ہونے کے خلاف، یونیورسٹی کے اس جابر ملک سے روابط کے خلاف۔
ارباب اختیار حیران تھے کہ ہم نے تو اس نئی نسل کو ویڈیو گیمز اور مادی اشیاء کی محبّت میں لگا کر، اور پروپیگنڈے کے ذریعے ان کو ذہنی غلام بنا لیا تھا، ان کے ضمیر کو سُلا دیا تھا۔
جب آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے، جب بچوں کی آہ و بکا سے دھرتی کانپے لگی، جب ظالم نے ہنس ہنس کر ظلم کے تمام ہتھیار استعمال کئے تو راجر فلنٹ کے ملک کے اکثر لوگ کروٹ بدل کر دوبارہ سو گئے۔
لیکن اس نئے خون میں اب بھی کہیں ہلکی سی شورش تھی، جسم میں کہیں چھپی ہوئی چنگاری تھی۔
یہ خون آنکھوں سے ٹپک پڑا، چنگاری شعلوں میں تبدیل ہو گئی، سویا ہوا ضمیر ایک دیو ہیکل بن گیا۔
ان طلباء نے اپنا حال، اپنا مستقبل سب داؤپہ لگا دیا۔
چند بزرگوں نے ان طلباء کو سمجھایا کہ ان کا پیشہ ورانہ مستقبل ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا، ان کی ساری محنت اور لاکھوں ڈالر کی تعلیم ضائع ہو جائے گی۔
لیکن مزاحمت اور احتجاج جنون میں بدل چکا تھا نفع و نقصان سے بالا تر۔
ارباب مسند کی ٹانگیں کانپنے لگیں، اونچے ایوانوں کے ستون ہلنے لگے۔
کہیں یہ احتجاج اربابِ اقتدار کے خلاف ایک عوامی تحریک نہ بن جائے۔
خفیہ اداروں نے ان سب طلباء کے ناموں کی فہرست بنا لی۔
پولیس نے ان طلباء پہ امن و امان خراب کرنے کا الزام لگا دیا۔
پولیس نے تشدد استعمال کیا اور سیکڑوں طلباء کو گرفتار کر لیا۔ ان میں راجر فلنٹ بھی تھا۔
اس کے تابناک مستقبل کو کوئی آندھی اُڑا کر لے گئی۔
اسے بہت افسوس ہوا لیکن وہ یہ قربانی دینے کے لئے تیار تھا۔
وہ حسینی قافلے میں شامل ہو کر یزید اور اس کے ساتھیوں کو للکار رہا تھا۔
دھرنا دینے کے لئے اور طلبا آ گئےاوریہ تحریک تمام پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں پھیل گئی ۔
یہ مصلحتوں کے سائے میں پلنے والے بچے امریکہ کے اصل ہیرو ہیں۔ وہ احتجاجی اور مزاحمتی قافلہ جو اس ملک میں تتر بتر کیا جا چکا تھا، ان لڑکوں اور لڑکیوں نے اس قافلہ کا الم اٹھا لیا ہے۔
سلام اس نسل زیڈ Generation Z کی جرات، ہمت، اور حوصلے کو جس نے سوئے مقتل جا کر امریکہ میں انسانی اقدار کو موت سے بچا لیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں